#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ طٰہٰ ، اٰیت 25 تا 36
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قال رب
شرح لی صدری 25
ویسر لی امری 26 واحلل
عقدة من لسانی یفقھوا قولی
28 واجعل لی وزیرا من اھلی 29
ھٰرون اخی 30 اشدد بہٖ ازری 31 واشرکہ
فی امری 32 کئی نسبحک کثیرا 33 ونذکرک
کثیرا 34 انک کنت بنا بصیرا 35 قال قد اوتیت
سئلک یٰموسٰی 36
فرعون کے شاہی دربار میں فرمانِ اِلٰہی پُہنچانے کا حُکم ملنے کے بعد
مُوسٰی نے استدعا کی کہ بارِ اِلٰہ ! میرے سینے کو تُو ایسا شرح آرا بنا دے
کہ میں فرعون کے دربار میں کُھلے دل کے ساتھ کُھلی کُھلی باتیں کر سکوں ،
میرے کام کو ایسا سَہل آسا بنا فرمادے کہ میں اِس کام کو خوش اسلوبی کے
ساتھ اَنجام دے سکوں ، میری زبان کو فرعون کے وجدان کے لیۓ ایسا گرہ کشا
بنا دے کہ میں اُس کو اپنا مُدعاۓ کلام پُوری طرح سمجھا سکوں اور وہ میرا
مُدعاۓ کلام پُوری طرح سمجھ سکے اور تُو میرے اِس کارِ رسالت میں میرے
بھائی ھارُون کو میرا شریکِ کار بھی بنا دے تاکہ دعوتِ حق کے میدان میں ھم
زیادہ سے زیادہ حرکت و عمل کر سکیں اور ھم تیرے اِن اَحکامِ ھدایت کی زیادہ
سے زیادہ انسانوں کو زیادہ سے زیادہ یاد دھانی کرا سکیں اور ھمارے یہ
اعمالِ رسالت و سفارت تیری خوش نظری کا باعث بن جائیں ، اللہ تعالٰی نے
فرمایا مُطمئن ہو جا کہ تُو نے ھم سے جو کُچھ طلب کیا ھے وہ سب کُچھ ھم نے
تُجھ کو عطا کر دیا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عُلماۓ روایت نے کلامِ عرب کے جس حرفِ "مِن" کی اوٹ میں چُھپ کر قُرآنِ
کریم کی اٰیت { عقدة من لسانی } میں لفظی و معنوی تحریف کی ھے کلامِ عرب
میں وہ حرفِ "مِن" کلام کے آغاز ، تبعیض ، تعلیل ، بدل ، مُترادف ، فصل یا
تفصیل کی سات علامات کی نشان دَہی کے لیۓ آتا ھے ، یہ بات درست ھے کہ
عُلماۓ قواعد نے حرفِ "مِن" کے استعمال کے جو سات طریقے بیان کیۓ ہیں اُن
میں اُنہوں نے حرفِِ "من" کے استعمال کی ایک صورت کو حرفِ زائد کا استعمالِ
زائد بھی قرار دیا ھے لیکن قُرآنِ کریم کے حوالے سے اُن کی یہ راۓ قابلِ
التفات نہیں ھے کیونکہ قُرآنِ کریم حشو و زوائد سے مُبرا ھے ، اِس لیۓ اُن
کے اِس قاعدے کا کلامِ عرب پر تو جو اطلاق ہوتا ھے سو ہوتا ھے لیکن اللہ
تعالٰی کے کلامِ نازلہ پر اُس کا قطعاً کوئی اطلاق نہیں ہوتا ھے ، قُرآنِ
کریم میں اِس حرفِ "مِن" کی جو سات قابلِ استعمال صورتیں استعمال ہوئی ہیں
اُن سات صورتوں میں پہلی صورت سُورةُالبقرة کی اٰیت 8 { ومن الناس من یقول
اٰمنا باللہ } دُوسری صورت سُورةُالبقرة کی اٰیت 220 { واللہ یعلم المفسد
من المصلح } تیسری صورت سُورةُالتوبہ کی اٰیت 38 { ارضیتم بالحیٰوة الدنیا
من الاٰخرة } چوتھی صورت سُورةُالتوبة کی اٰیت 69 { کانوا اشد منکم قوة }
پانچویں صورت سُورةُالقصص کی اٰیت 20 { وجاء رجل من اقصا المدینة } چَھٹی
صورت سُورہِ شُورٰی کی اٰیت 45 { ینظرون من طرف خفی } اور ساتویں صورت
سُورَہِ نُوح کی اٰیت 25 { مما خطیئٰتھم اغرقوا } ھے ، قُرآنِ کریم میں اِس
حرفِ جار "مِن" کے استعمال کے یہی سات طریقے ہیں جو ھم نے قُرآنِ کریم کی
اِن اٰیاتِ نازلہ و اَمثالِ نازلہ میں واضح کر دیۓ ہیں اور اِن تمام اٰیاتِ
نازلہ و اَمثالِ نازلہ میں حرفِ "مِن" کا مُتداول معنٰی" سے" ھے لیکن
عُلماۓ روایت نے پہلے تو اپنے نظریہِ جہالت و سفاہت کے تحت اِس حرفِ "مِن"
کو حرفِ زائد بنایا ھے اور پھر { واحلل عقدة من لسانی } کا یہ خانہ ساز
ترجمہ فرمایا ھے کہ میری زبان کی گرہ کھول دے ، اگر وہ اِس حرفِ "مِن" کو
حرفِ زائد نہ بناتے تو اِس کا مطلُوب و مقصود ترجمہ یہ ہوتا کہ میری زبان
سے فرعون کے وجدان کی گرہ کھول دے ، یعنی مُوسٰی علیہ السلام نے فرعون کی
فکری گرہ کشائی کی جو دُعا کی ھے اِس گُم راہ روایت پرست جماعت نے وہی دُعا
مُوسٰی علیہ السلام کی اپنی زبان کی گرہ کشائی کی دُعا بنا دی ھے ، اگر
عُلماۓ روایت کی یہ بات ایک محال مفروضے کے طور پر ایک لَمحے کے لیۓ درست
بھی مان لی جاۓ کہ مُوسٰی علیہ السلام کی دُعاۓ { عقدة من لسانی } سے اُن
کی مُراد اُن کی قُوتِ گویائی سے محرومی تھی تو پھر قُرآنِ کریم کی ترتیبِ
کلام کے مطابق یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مُوسٰی علیہ السلام نطق و کلام
سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ کشادہ دلی کی نعمت سے بھی محروم تھے اور اپنے
اُمورِ حیات کے بارے میں قُوتِ فیصلہ کے جوہر بھی محروم تھے { نعوذ باللہ
من ذٰلک } کیونکہ مُوسٰی علیہ السلام کی اِس دُعا میں زبان کی گرہ کے ساتھ
دل کی کشادگی اور اُمورِ حیات کی آسانی کی دُعا بھی موجُود ھے اور زبان کی
اِس دُعا سے پہلے موجُود ھے لیکن عقل و مَنطق کی رُو سے اگر اُن کی پہلی دو
دُعاؤں کا وہ مَنفی مفہوم نہیں ھے تو اِس تیسری دُعا کا بھی وہ مَنفی مفہوم
نہیں ھے جو عُلماۓ روایت نے بیان کر کے فرعون دو ستی اور مُوسٰی دُشمنی کا
ثبوت دیا ھے ، بہر حال دُعاۓ مُوسٰی کے بارے میں کی جانے والی اِس خطاۓ
محدثین و مُفسرین کا نُکتہِ اَوّل یہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے جس وقت مُوسٰی
علیہ السلام کو اپنا نبی بنایا تھا تو اُس وقت یہ بات اللہ تعالٰی کے علم
میں نہیں تھی کہ جس شخص کو وہ منصبِ نبوت پر فائز کر رہا ھے وہ اِس منصب کا
اہل ہی نہیں ھے کیونکہ وہ قُوتِ گویائی کی اُس نعمت سے محروم ھے جو تعلیمِ
نبوت کے لیۓ لازم ہوتی ھے اور دُوسرا نُکتہ یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کو اپنے
سَہوِ انتخاب کا اُس وقت علم ہوا جب مُوسٰی علیہ السلام نے اپنی زبان کی
گرہ کھولنے کی اللہ تعالٰی سے دُعا و استدعا کی اور اِس دُعا و استدعا کے
بعد بھی اللہ تعالٰی نے اُن کی زبان کو ہلکی سی حرکت و جُنبش کے قابل ہی
بنایا ، اُن کی لُکنتِ زبان کا عیب پُورے طور پر ختم نہیں کیا یا ختم نہیں
کیا جا سکا ، اسی لیۓ مُفسر ابنِ کثیر نے اِس کی یہ کثیر المفہوم نُکتہ
آرائی فرمائی ھے کہ " حضرت موسٰی علیہ السلام کے اِس اَدب کو دیکھیۓ کہ
بقدرِ حاجت ہی سوال کرتے ہیں کہ گرہ کُھل جاۓ تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں ،
انبیاء علیھم السلام اللہ سے صرف حاجت روائی کے مطابق سوال کرتے ہیں ،
چناچہ آپ کی زبان میں پھر بھی کسر رہ گئی تھی جیساکہ فرعون نے کہا تھا کہ
کیا میں بہتر ہوں یا یہ فرومایہ انسان جو صاف بول بھی نہیں سکتا ، اعتقادی
حوالے سے دیکھا جاۓ تو یہ مجوسی روایت اللہ تعالٰی کے عالم الغیب ہونے کی
نفی پر مُنتج ہوکر قُرآن کی بنائی ہوئی ایمان و یقین کی پُوری عمارت کو
زمیں بوس کر دیتی ھے اور فکر و نظر کے زاویۓ سے پرکھاجاۓ تو اِس روایت کی
صحت عقل و منطق کے جُملہ قواعد کے خلاف نظر آتی ھے کیونکہ خالقِ عالَم نے
اپنی ہر جان دار مخلوق کے ہر فرد کے جسم میں ایک ایسا خود کار دفاعی نظام
رکھا ہوا ھے جو اِس کے جسم و جان کے قریب آنے والے غیر مُتوقع خطرات کے
خلاف خود بخود مُتحرک ہوتا ھے اور اِس کے جسم و جان کو کسی غیر مُتوقع
حادثے سے کی زد میں آنے سے بچاتا ھے یہاں تک کہ نیند کے دوران بھی اگر کوئی
انسان اپنے مقامِ استراحت کے کنارے پر آتا ھے اور گرنے کے قریب ہوجاتا ھے
تو اُس کے جسم کا یہ خود کار و با اختیار نظام اُس کو ایک جَھٹکا دے کر
جگاتا ھے اور نیند کے دوران غیر مُتوقع طور پر گر جانے اور نقصان اُٹھانے
سے بچاتا ھے ، اسی طرح اگر کوئی شخص ارادے اور خیال سے آگ کا اَنگارا ہاتھ
میں لیتا ھے تو یا ارادے اور خیال کے بغیر ہی اُس کا ہاتھ آگ کے اَنگارے کی
طرف بڑھ جاتا ھے تو اُس کے جسم کا یہ خود کار حفاظتی نظام سیکنڈ کے ہزارویں
حصے میں اُس کے ہاتھ کو ایک جَھٹکے کے ساتھ آگ کے اُس اَنگارے سے ہٹا دیتا
ھے اور اگر حادثاتی طور آگ کا وہ اَنگارا اُس کے ہاتھ سے لگ جاتا ھے تو وہ
کھال اور گوشت سے اس طرح پیوست ہوجاتا ھے جس طرح مقناطیس لوھے سے پیوست
ہوجاتا ھے اور اِس صورت میں کسی بھی انسان کے لیۓ یہ مُمکن ہی نہیں ہوتا کہ
وہ ہاتھ میں آۓ ہوۓ اُس اَنگارے کو اپنے مُنہ کی طرف بڑھاسکے یا جسم کے کسی
دُوسرے حصے تک لے کر جانا چاھے تو وہ لے کر جا سکے لیکن عُلماۓ روایت نے
مُوسٰی علیہ السلام کے حوالے سے اپنی تفسیروں میں جو افسانہ سُنایا ھے اُس
میں مُوسٰی علیہ السلام کو ہاتھ سے اَنگارا اُٹھاتے ، ہونٹوں سے گزار کر
مُنہ کے اندرونی حصے تک لے جاتے ہوۓ دکھایا ھے اور طرفہ تماشا یہ ھے کہ یہ
ھے کہ اِس طویل آتشی عمل کے دوران آپ کی لسانِ نبوت ہی جلتی ھے ، آپ کے
ہاتھ ، ہونٹ اور مسوڑھے بالکُل محفوظ رہتے ہیں ، جہاں تک اِس روایت کے علمی
تجزیۓ کا تعلق ھے تو شرحِ قُرآن کے نام پر تفسیرِ قُرآن میں شامل کی گئی یہ
روایت علم و عقل کے عمومی معیار پر بھی پُوری نہیں اُترتی کیونکہ مجوسی
روایت سازوں نے یہ بے تُکی روایت مُوسٰی علیہ السلام کی اُس عظیم الشان
دُعا کو بے اثر بنانے کے لیۓ وضع کی ھے جس دُعا کو اللہ تعالٰی نے مُوسٰی
علیہ السلام کے کلامِ شاہکار کے طور پر قُرآن میں محفوظ کیا ھے ، نتیجہِ
کلام یہ ہوا کہ قُرآنِ کریم نے مُوسٰی کلیم اللہ کی جس دُعا کا ذکر کیا ھے
اُس دُعا میں مُوسٰی کلیم اللہ نے اللہ تعالٰی سے اپنی زبان کی گرہ کھولنے
کی استدعا نہیں کی بلکہ فرعون کے وجدان کی گرہ کھولنے کی استدعاکی ھے تاکہ
اُس کی عقل و فکر کی گرہ کُھلے اور وہ اللہ تعالٰی کی توحید اور مُوسٰی
علیہ السلام کی رسالت پر ایمان لے آۓ ، جہاں تک اُن کا ھارُون علیہ السلام
کو اپنے ساتھ لے جانے کا تعلق ھے تو اُس کی وجہ یہ تھی کہ مُوسٰی علیہ
السلام مصری فرعون کے اُسی محل میں شاہزادوں کی طرح ایک باوقار زندگی گزار
چکے تھے اور اُس شاہی محل سے آپ کا ایک ایسا معاشرتی تعلق رہ چکا تھا جس کی
بنا پر آپ کو یہ خیال آنا ایک فطری اَمر تھا کہ اُن کے اِس تعلقِ خاطر کی
بنا پر کہیں دعوتِ حق کے دوران اُن کے لب و لہجے میں کوئی نرمی نہ آجاۓ اِس
لیۓ آپ نے یہ دُعا فرمائی تھی ورنہ اَمرِ واقعہ تو یہ ھے کہ مُوسٰی علیہ
السلام نطق و تکلّم میں ایک باکمال و پُر جلال ہستی تھے اسی لیۓ اللہ
تعالٰی نے آپ کو حُکم دیا تھا کہ جب تُم کو فرعون سے بات کرنے کا وقت اور
موقع ملے تو تُم اُس کے ساتھ گرمی و جلال سے بات نہ کرنا بلکہ نرمی و جمال
کے ساتھ بات کرنا تاکہ وہ تُمہاری کسی بات سے بدک کر تُم سے دُور نہ ہو جاۓ
!!
|