چین کی"تھرڈ چائلڈ پالیسی"

چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں ایک ارب چالیس کروڑ افراد بستے ہیں۔حال ہی چین کی جانب سے بہبود آبادی کے حوالے سے اہم اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں جن میں عمر رسیدہ آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی شرح پیدائش میں اضافے کے لیے جوڑوں کو تین بچوں کی اجازت بھی شامل ہے۔چینی قیادت کی جانب سے فرٹیلیٹی کی پالیسیوں کو بہتر بناتے ہوئے آبادی کی طویل المدتی متوازن ترقی کے حوالے سے اہم فیصلے سامنے آئے ہیں۔ عمر رسیدہ آبادی کے مسئلے سے فعال طور پر نمٹنے کو ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے اہم قرار دیا گیا ہے ۔یہ بات قابل زکر ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چین بھر میں سوشل سیکیورٹی سسٹم اورعمر رسیدہ آبادی کے لیے خدماتی سسٹم کے قیام میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے ۔چین کی کوشش ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں بتدریج تاخیر کی پالیسی اپنائی جائے ، پینشن کے نظام کو بہتر بنایا جائے اورعمر رسیدہ افراد کو خدمات کی بہتر فراہمی سمیت مختلف نئے اقدامات اپنائے جائیں۔

بہبود آبادی کے لیے نئے اقدامات کے تحت ایک جوڑے کو تین بچوں کی اجازت بھی دی گئی ہے ۔ یہ ملک میں آبادی کے ڈھانچے کو بہتر بنانے اور انسانی وسائل کے ثمرات کو برقرار رکھنے کے لئے موزوں ہے۔چین میں آبادی کے تیزی سے پھیلاو کو روکنے کی خاطر 1982میں ایک بچے کی پالیسی اپنائی گئی تھی اور آنے والے وقت میں اس پالیسی کے نمایاں ثمرات بھی برآمد ہوئے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہبود آبادی کی مزید بہتر پالیسیاں اپنائی گئیں اور حالیہ تھرڈ چائلڈ پالیسی سے قبل چین نے 2011 میں ایسے جوڑوں کو دوسرے بچے کی اجازت دی تھی جو اپنے والدین کے اکلوتے بچے تھے جبکہ 2016 میں پالیسی میں ترمیم کرتے ہوئے تمام شادی شدہ جوڑوں کو دو بچوں کی اجازت دے دی گئی تھی۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ 2020میں ملک میں ایک سال سے چودہ سال تک کی عمر کے بچوں کا تناسب تقریباً 18 فیصد ہو چکا ہے۔

چین کی کوشش رہے گی کہ "تھرڈ چائلڈ پالیسی" کو معاشی اور سماجی پالیسیوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے اورشادی کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوں میں شادی اور خاندانی اقدار کو فروغ دینے کے لئے تعلیم اور رہنمائی فراہم کی جائے۔چین میں ویسے بھی بچوں کی دیکھ بھال کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور مزید کوشش کی جا رہی ہے کہ بہتر نگہداشت کے لیے جامع نظام وضع کیا جائے ، منصفانہ نظام تعلیم کو یقینی بنایا جائے ، بچوں کے معیاری تعلیمی وسائل تک رسائی کے ساتھ ساتھ اُن کے تعلیمی اخراجات میں کمی کے لیے کوشش کی جائے۔

بلاشبہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور چین میں بچوں کی صحت و تندرستی کو یقینی بنانے کے لیے جامع اقدامات کا آغاز بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔قابل زکر بات یہ بھی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد ستر سالوں میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی شرح موت میں 97 فیصد سے زائد کمی آئی ہے ، جو ترقی پزید ممالک میں سرفہرست ہے۔

بچوں کی پیدائش کے بعد حکومت کی جانب سے ویکشی نیشن کی مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ تاکہ بچوں کو عام متعدی امراض سےبچایا جاسکے۔صحت کے علاوہ بچوں کی تعلیم و تربیت کو بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ چین میں چاہے شہر ہوں یا دیہی علاقے ، پرائمری اسکول سے مڈل اسکول تک نو سالہ لازمی تعلیم تمام بچوں کے لیے مفت ہے۔ اسکولوں میں ان کی بہتر تربیت کے لیے سائنس، فنون ، کھیل سمیت مختلف شعبوں میں دلچسپ سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں تاکہ بچوں کی ذہن سازی اور کردار سازی کی جا سکے۔اسکولوں میں بچوں کے لیے مفت لنچ بھی ایک زبردست سہولت ہے۔جس سے بچے اسکول میں معیاری کھانے سے لطف اٹھاتے ہیں۔ چین کے دیہی علاقوں میں سال دو ہزار گیارہ سے پرائمری اور مڈل اسکولوں کے طلباء کے لیے مفت لنچ کی فراہمی کا آغاز ہوا تھا۔اس اقدام کا مقصد یہی تھا کہ ان کی بہتر صحت اور تندرستی کا تحفظ کیا جا سکے۔"مفت لنچ" کے منصوبے سے چین کے تمام شہری اور دیہی علاقے یکساں طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں۔

چین میں اعلیٰ ترین رہنماوں سے لے کر پورے چینی سماج تک ، بچوں کے تحفظ اور اُن کی فلاح و بہبود کو نمایاں اہمیت دی جاتی ہے۔حالیہ برسوں کے دوران چینی صدر شی جن پھنگ نے کئی مواقعوں پر بچوں کے لیے بہتر سہولیات کی فراہمی پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی بہتر نشو و نما اور بڑھوتری ، ہماری سب سے بڑی خواہش ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں بہبود آبادی کو آج کے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے لازمی اقدامات اپنائے جا رہے ہیں۔


 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 615630 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More