ماہ ذی قعدہ کے فضائل۔

تحریر۔پیر فاروق بہاؤ الحق شاہ
ماہ ذی قعدہ اسلامی تقویم کا گیارہواں مہینہ اور چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔اس مہینے کی عظمت و حرمت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس ماہ مبارک میں دنیا بھر کے حجاج حج کے لئے مکہ مکرمہ کے لئے سفر کا آغاز کرتے تھے۔اس خصوصیت کی وجہ سے اس ماہ مبارک ہو بھی حرمت والے مہینوں میں شامل کر دیا گیا۔وہ چار مہینے اس طرح سے ہیں۔1۔ذیقعدہ۔2۔زی الحج۔3محرم،4رجب۔ان چار مہینوں کی حرمت اور ان کی عظمت و بزرگی اسلام کے آنے سے پہلے بھی مسلم تھی۔ان مہینوں میں مشرکین مکہ اور دیگر قبائل جنگ و جدل سے پرہیز کیا کرتے تھے۔لوٹ مار اور جنگ و جدل کا سلسلہ رک جاتا تھا۔ان مہینوں کی حرمت دیگر آسمانی کتب سے بھی مسلم ہے۔سورۃ توبہ کی آیت نمبر 36 میں ارشاد ہے ترجمہ۔جب سے اﷲ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اس وقت سے لے کر آج تک مہینوں کی تعداد اﷲ کے ہاں بارہ ہے۔ان میں سے چار وقار عظمت اور بزرگی والے ہیں۔یہی سیدھا دین ہے۔ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔

حضرت سالم رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالی عنہ حرمت والے ان دنوں میں روزے رکھا کرتے تھے۔(مصنف عبد الرزاق. امام نووی نے ایک نقل کیا ہے کہ حرمت والے چار مہینوں میں مستحب ہے کہ روزہ رکھیں جائیں.امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،جس دن سے اﷲ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اس دن سے لے کر آج تک زمانہ اسی حالت پر گھوم کر واپس آ گیا ہے۔ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں چار مہینے عزت اور حرمت والے ہیں۔جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذیقعدہ،زی الحج، اور محرم۔اور ایک مہینہ ہے جو ان سے علیحدہ اتا رجب کا مہینہ ہے۔جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔(بخاری)۔ایک مرتبہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو خطاب کرکے فرمایا،صبر یعنی رمضان کے مہینے کے روزے رکھو،اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو،سعدی نے عرض کی یارسول اﷲ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔لہذا میرے لیے اضافہ فرمائں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو۔صحابی نے عرض کی یارسول اﷲ مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے ہے میرے لیے مزید اضافہ فرما دیں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر مہینے دو دن روزہ رکھ لیا کرو۔صحابی نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے میرے لیے اضافہ فرمائیں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو۔سعدی نے پھر عرض کی یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے آپ اضافہ فرمائیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حرمت والے مہینوں یعنی ذیقعدہ،زی الحج،محرم،اور رجب کے روزے رکھا کرو اور چھوڑو۔اس پر آپ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرما کر ان کو ساتھ ملایا سے چھوڑ دیا۔مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھا کرو پھر تین کرنا کیا کرو اور اسی طرح کیا کرو۔(ابو داؤد،)حضرت امام نووی فرماتے ہیں،ماہ رمضان کے بعد سب سے زیادہ دنوں میں روزہ رکھنے کا ثواب ہے ہے وہ یہی چار مہینے ہیں۔یعنی زی قعدہ۔زی الحج۔محرم اور رجب۔(روضہ الطالبیین)

بعض مفسرین کرام نے حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو شریعت اور تورات کے عطا فرمائے سے قبل کوہ طور پر جا کر تیس راتوں کا اعتکاف کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔وہ تیس راتیں پوری ہونے کے بعد اﷲ تعالی نے مزید دس راتیں اعتکاف کا حکم دیا۔جب چالیس راتیں پوری ہوگئی تو ان کے اعتکاف کے پورا ہونے کے بعد اﷲ تعالی نے ان کو شریعت اور تورات عطا فرمائیں۔مفسرین کرام کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ یہ چالیس راتیں ذیقعد کے پورے مہینہ اور زلحج کے پہلے عشرے کی راتیں تھیں۔چنانچہ یہی امام المفسرین امام ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام کے اعتکاف کے دن عید الاضحی کے دن پورے ہوے تھے۔ اور اسی دن انکو اﷲ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف نصیب ہوا تھا۔۔اس ماہ مبارک میں بھی مختلف قسم کی عبادات اور روزہ رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے اس کا مقام بھی ذی الحجہ اور محرم کے برابر ہے۔قدیم زمانہ سے بزرگان دین کا معمول رہا ہے ہے کہ وہ اس ماہ مبارک میں عبادات کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔اس میں روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے۔اور معمول سے زیادہ عبادات کیا کرتے۔اس ماہ مبارک کو حج کے آغاز کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔پوری اسلامی دنیا میں میں اسی زی قعدہ کے مہینے سے حج کی سرگرمی کا آغاز ہو جایا کرتا تھا۔پوری دنیا سے مسلمانوں کے قافلے چل پڑتے۔اور کشاکش ان سوئے حجاز کی طرف روانہ ہو جاتے۔جس دور میں فضائی سفر اور دیگر ذرائع آمدورفت کی سہولیات میسر نہ تھیں اس دور میں بھی اسی ماہ مبارک سے ہی لوگ حج کے ماحول میں ڈھل جاتے۔سر زمین حجاز پر پوری دنیا سے مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔اور جو لوگ حج کے لئے حجاز مقدس کا سفر نہ کر سکتے مجھے وہ اپنے اپنے گھروں میں ہی عبادات کثرت کیا کرتے۔اور زیادہ سے زیادہ وقت اﷲ کی یاد میں اور اس کے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کے درود و سلام پڑھنے میں بسر کیا کرتے ہیں۔

بعض نا سمجھ لوگ اس ماہ مبارک کو خالی مہینہ بھی کہتے ہیں۔اس کو غالبا خالی مہینہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو اس میں عید الاضحی ہے اور نہ ہی اس میں عید الفطر ہے۔لیکن اس مہینے کے اندر اﷲ تعالی کی رحمتیں عروج پر ہوتی ہیں۔حج کے مسافروں کو اﷲ تعالی اپنی رحمت کے حصار میں لیے ہوتا ہے۔۔اسی طرح اس مہینے میں بعض لوگ شادیاں کرنے سے بھی احتراز کرتے ہیں۔۔عوام کی اکثریت شوّال کے مہینے میں یہ سارے فرائض سرانجام دیتی ہے۔لیکن یہ سب کچھ کچھ لوگوں کی لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہے شریعت محمدی میں کوئی ایسی بات نہیں۔نہ ہی اس طرح کی کوئی قدغن ہے۔بلکہ جس طرح باقی t3 حرمت والے مہینوں کو فضیلت حاصل ہے اسی طرح اسی ماہ مبارک ہو بھی سال کے دیگر مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ماہ ذیقعدہ سن 5 ہجری میں میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ام المومنین حضرت زینب سے نکاح فرمایا تھا۔(البدایہ والنہایہ)وزیر اعظم قادری کہنے میں سن 7 ہجری میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالی عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔لہذا اس ماہ مبارک میں میں بزرگان دین کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کا اہتمام کرنا چاہیے آئے۔نوافل کثرت سے ادا کرنے چاہیں۔فرائض کی ادائیگی کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔حقوق اﷲ اور حقوق العباد اولاد کے معاملے میں زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔حرمت والے مہینوں میں چونکہ یہ پہلا مہینہ ہے لہذا جو معمول اس ماہ مبارک میں متعین کرلیا جائے اس سے حرمت والے باقی چار دن جاری رکھنی چاہیے۔اﷲ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے
 

Muhammad Saleem
About the Author: Muhammad Saleem Read More Articles by Muhammad Saleem: 8 Articles with 7071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.