جمعہ نامہ :ایمان اور بخل یکجا نہیں ہوسکتے(حدیث)

 ارشادِ ربانی ہے:’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے‘‘۔ انسان جب اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اس کے پاس مو جود مال و متاع اللہ تعالیٰ کی عطا ہے تو اس کے لیے راہِ خدا میں انفاق مشکل ہوجاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے:’’ تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو‘‘ ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال صر ف وہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کردیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا۔ فرمانِ ربانی ہے:’’ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘۰۰اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے‘‘۔

انفاق و جہاد کے اجر وثواب کا تعلق حالات سے بھی ہوتا ہے۔ اس کا اشارہ اگلی آیت میں ہے فرمایا :’’ تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے‘‘۔ یعنی مشکل حالات میں دین کے تقاضوں کو پورا کرنا ۔ اقامت دین کے لیے اپنی جان و مال کو کھپا دینے کا اجر وثواب غلبہ و سربلندی کے بعدپیش کی جانے والی قربانی سے زیادہ ہے۔ آگے سوال کیا جاتا ہے :’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر ہے‘‘۔ اس کمال کے اسلوبِ ترغیب کو سن کرپہلے تو انسان چونک پڑتا ہے اور پھر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔کیا اس کائنات کا بے نیاز مالکِ لاشریک انسان سے قرض مانگ سکتا ہے ؟ اس انسان سے جس کے پاس پر ہر شئے رب کائنات کی عطا کردہ ہے۔ یہ تو صرف اور صرف عزت افزائی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

اس آیت کو سن کر صحابہ کسی فلسفیانہ یا منطقی موشگافی میں نہیں الجھے کہ اللہ کو قرض کی حاجت کیوں پیش آئی وغیرہ بلکہ اقامتِ دین اسلام کی خاطر اپنے خزانے کھول دیئے۔ اس بابت حضرت ابو دحداح انصاری ؓ کا واقعہ بہت مشہور ہے ۔ اس آیت کو سن کروہ حضوراکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور استفسار کیا کہ کیا ہمارا رب ہم سے قرض مانگتا ہے ؟ آپﷺ نے بھی انہیں یہ سمجھانے کی سعی نہیں کی کہ یہاں پر قرض سے کیا مراد ہے؟ اور کسی انسان اور اللہ تعالیٰ سے کیے جانے والے قرض کے لین دین میں کیا فرق ہے بلکہ فرمایا ہاں۔ یہ سن صحابیٔ رسول ﷺ نے استدعا کی یارسول اللہ ذرا اپنا ہاتھ تو دیجئے ۔ آپ ﷺ نے ہاتھ بڑھایا تو اس ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر بولے میں نے اپنا 600 کھجور کے درختوں والا باغ اپنے رب کو دیا ۔

اس موقع پر حضرت ابو دحداح انصاریؓ کے بیوی بچے باغ کے اندر تھےآپؓ نے باغ کے دروازے پر کھڑے ہوکر اپنی زوجہ سے کہا بچوں کو لے کر چلی آؤ میں نے یہ باغ اپنے رب عزوجل کو قرض دے دیا ہے۔ وہ خوش بخت خاتون اپنے خاوند کو مبارکباد دے کر بولیں آپ نے بہت نفع کی تجارت کی اور بال بچوں کے ساتھ گھر کا اثاثہ لے کر باہر چلی آئیں۔ حضور ﷺ نے بشارت دی اللہ تعالیٰ نے کو جنت کے باغات میں میوؤں سے لدے درختوں سے ابو دحداح ؓ کو نوازدیا ۔ ان درختوں کی شاخیں یا قوت اور موتی کی ہیں ۔ حضرت ام دحداحؓ کا ایمان افروزرویہ اس آیت کی عملی تفسیر ہے جس میں فرمایا گیا :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی‘‘ ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2128 Articles with 1478918 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.