بسم الله الرحمن الرحيم
عنوان
سیرت مبارکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی کی قبر عمان اردن میں ھے,صحابی رسول صلی اللہ
علیہ وسلم ہیں.
تاریخ پیدائش 580 میں مکہ کے اندر ہے,
تاریخ وفات 652 (عمر 72)
قابل احترام ہیں اہل اسلام کے لیے
مؤثر شخصیات میں سے ہیں ,
سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی تھے اور
عبدالرحمن بن عوف کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے لقب تاجر
الرحمن ملا تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔
حدیث میں ذکر!
ان 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ
تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا :
ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،
عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ، علی رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں،
طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،
سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،
ابوعبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔
حالات زندگی!
ان کا نام زمانۂ جاہلیت میں عبدالکعبہ تھا۔ وہ ان پانچ خوش نصیبوں میں سے
تھے جنہوں نے ابتدا ہی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کی دعوت پر اسلام
قبول کیا تھا۔ ان کے علاوہ اس وقت تک سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ ‘ زبیر
بن العوام رضی اللہ ‘ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ اور سعد بن ابی وقاص رضی
اللہ مسلمان ہوئے تھے۔
ابھی تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم دارِ ارقم نہیں گئے تھے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا نام تبدیل فرمایا ,
اور ایک روایت کے مطابق عبد عمرو کی جگہ ان کا نام عبدالرحمن رکھ دیا۔
آپ رضی اللہ کے والد عوف کا تعلق بنو زہرہ سے تھا۔ آپ رضی اللہ کی والدہ کا
نام شفاء تھا۔ ان کا تعلق بھی بنو زہرہ سے تھا۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کے والدین آپس میں چچا زاد تھے۔ یہ ہجرت
سے 44 سال پہلے پیدا ہوئے۔ قبول اسلام کے وقت ان کی عمر کم وبیش 30 سال
تھی۔ عمر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے 10 سال چھوٹے تھے۔
قریشی تھے۔ ان کا حسب نسب چھٹی پشت پر جا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
والہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عشرہ مبشرہ رضی اللہ میں سے تھے اور شروع
ہی سے پاکیزہ نفس انسان تھے۔ اپنی سلامت روی کی بدولت زمانۂ جاہلیت ہی میں
شراب چھوڑ دی تھی۔ ان کے والد عوف تاجر تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں وہ تجارت کے
لیے یمن گئے ہوئے تھے کہ راستے میں ان کے دشمنوں نے انہیں قتل کر دیا۔ ان
کی والدہ شفاء بنت عوف اسلام کی نعمت سے مالا مال ہوئیں اور ہجرت بھی کی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ کا تعلق بھی
بنو زہرہ سے تھا۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کا بھی اپنے والد کی طرح تاجر پیشہ تھے۔
ان کا خاندان بنو زہرہ کثرت تعداد اور دولت وثروت کے لحاظ سے زیادہ نمایاں
نہ تھا‘ اس لیے ان لوگوں کو مناصب حرم میں سے کوئی منصب نہ مل سکا۔
سیرت نگاروں کے مطابق اسلام قبول کرنے والوں میں ان کا تیرھواں نمبر تھا۔
اسلام لانے کے سبب انہیں بھی بہت ستایا گیا‘ اس لیے یہ بھی حبشہ کی طرف
ہجرت کرنے والے پہلے قافلے میں شامل ہو گئے۔ لیکن بعد میں واپس مکہ آگئے
اور 13 نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔
مدینہ آئے تو اپنا گھر بار اور تجارت ہر چیز حتی کہ بیوی بچے بھی مکہ میں
چھوڑ آئے۔ یہاں پہنچے تو بالکل قلاش تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ
وسلم نے ان کے اور سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی کے مابین مواخات کا
رشتہ قائم کیا۔
آپ رضی اللہ کے اسلامی بھائی نے بے مثال ایثار سے کام لینا چاہا۔ لیکن
سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ کی بے نیاز اور غیور طبیعت نے شکریہ کے ساتھ ان
کی پیشکش نامنظور کی۔ سیدنا سعد رضی اللہ کا کہنا تھا کہ میں مدینہ طیبہ کے
امیر ترین لوگوں میں سے ہوں۔ میرے کئی باغات اور زرعی زمینیں ہیں‘ دو
بیویاں ہیں۔ میں اپنا آدھا مال آپ رضی اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ دونوں
بیویاں دیکھ لیں جو آپ رضی اللہ کو پسند آئے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں جب
عدت گزر جائے تو اس سے نکاح کر کے اپنا گھر بسا لیں۔
مگر اس قریشی نوجوان نے ان کے جواب میں کہا: ’’اللہ آپ رضی اللہ کے مال میں
برکت عطا فرمائے۔ مجھے آپ رضی اللہ بازار کا راستہ بتا دیں جہاں خرید
وفروخت ہوتی ہو۔‘‘ سیدنا سعد رضی اللہ نے کہا کہ بنو قینقاع کا بازار بڑا
مشہور ہے۔ یہ بازار’’البقیع‘‘ کے بائیں جانب کچھ فاصلے پر تھا۔
آپ رضی اللہ صبح سویرے بازار گئے۔ شام کو واپس آئے تو ان کے پاس کچھ فاضل
پنیر اور گھی تھا۔ اس کے بعد وہ روزانہ بازار جاتے اور سامان خرید کر فروخت
کرتے۔ ایک دن ان کے لباس پر حجلہ عروسی کی بشاشت جھلک رہی تھی‘ یعنی
زعفرانی رنگ کا اثر تھا۔ اللہ کے رسول نے دیکھا تو پوچھا:
’’عبدالرحمن! کیا ماجرا ہے؟‘‘ عرض کیا: میں نے ایک انصاری عورت سہلہ بنت
عاصم یا ام ایاس بنت ابی الحیسر انس بن رافع بن امرئ القیس سے شادی کر لی
ہے۔ ارشاد ہوا: ’’اس کو مہر کیا دیا؟‘‘ عرض کیا: کھجور کی گٹھلی کے برابر
سونا۔ فرمایا: ’’ولیمہ ضرور کرو‘ چاہے ایک بکری ہی ہو۔‘‘
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کی تجارت دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ ایک مرتبہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں چار ہزار درہم لے کر
حاضر ہوئے۔ ان کے پاس اس روز آٹھ ہزار درہم تھے۔ فرماتے ہیں: میں نے چار
ہزار درہم اپنے گھر والوں کے لیے چھوڑے ہیں اور چار ہزار اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے حاضر ہو گیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعا فرمائی:
[بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْمَا أَمْسَکْتَ وَفِیْمَا أَعْطَیْتَ] ’’اللہ
تمہارے اس مال میں بھی برکت دے جو تم نے گھر میں رکھا اور اس میں بھی جو تم
نے اللہ کی راہ میں دیا۔‘‘ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعا
کی برکت تھی کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ میں سے امیر ترین شخص بن گئے۔ جیسے
جیسے آپ رضی اللہ کے مال و دولت میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے وہ اللہ کی
راہ میں زیادہ خرچ کرتے چلے گئے۔ آپ رضی اللہ کی سخاوت کے بارے میں سیرت
نگاروں نے بہت سے واقعات بیان کیے ہیں۔ ایک موقع پر جہاد کے لیے انہوں نے
پانچ سو گھوڑے اور پندرہ سو اونٹ پیش کیے۔ دو مرتبہ چالیس چالیس ہزار دینار
اللہ کی راہ میں دیئے۔ ان کی ایک قیمتی زمین مدینہ میں تھی وہ زمین سیدنا
عثمان بن عفان رضی اللہ کے ہاتھ چالیس ہزار دینار میں فروخت کر کے ساری رقم
فقراء بنی زہرہ اور امہات المؤمنین رضی اللہ میں تقسیم کر دی۔ سیدنا
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ بڑے جری اور بہادر تھے۔
آپ رضی اللہ بدر سمیت تمام غزوات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کے ساتھ شریک ہوئے۔ بدر میں ابوجہل کو قتل کرنے والے دو انصاری نوجوانوں نے
ابوجہل کا اتا پتا انہی سے پوچھا تھا۔
بدر کے میدان میں وہ دشمن سے کچھ زرہیں چھین کر لے جا رہے تھے کہ ان کے
زمانۂ جاہلیت کے ایک دوست امیہ بن خلف نے انہیں دیکھ کر کہا:
کیا تمہیں میری ضرورت ہے؟ میں تمہاری ان زرہوں سے بہتر ہوں۔… اور جب امیہ
اور اس کے بیٹے علی کو سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ گرفتار کر کے لے جا
رہے تھے تو اچانک سیدنا بلال رضی اللہ کی نظر امیہ پر پڑی۔ بے ساختہ بولے:
اوہو! کفار کا سرغنہ امیہ بن خلف‘ اب یا تو یہ رہے گا یا میں‘ پھر انہوں نے
انصار کی مدد سے دونوں باپ بیٹے کو واصل جہنم کر دیا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی
اللہ فرمایا کرتے تھے:
’’اللہ بلال پر رحم کرے! میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدیوں کا بھی صفایا
ہو گیا۔
‘‘ اُحد کے میدان میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ نے اپنی بہادری کے
جوہر دکھائے۔ آپ رضی اللہ ان صحابہ رضی اللہ میں سے تھے جو اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ انہوں نے لڑتے لڑتے منہ پر
چوٹ کھائی۔ ان کا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا۔ انہیں اس جنگ میں بیس یا اس سے
زیادہ زخم آئے جن میں سے بعض کاری زخم پاؤں پر لگے‘ یوں وہ ساری زندگی کے
لیے لنگڑے ہو گئے۔ آپ رضی اللہ کی زندگی کا ایک اور روشن پہلو اس وقت سامنے
آتا ہے جب شعبان 6ہجری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی
قیادت میں ایک لشکر اپنے سامنے بٹھا کر خود اپنے دست مبارک سے آپ رضی اللہ
کے سر پر پگڑی باندھی‘ پیچھے شملہ چھوڑا اور ہاتھ میں علم عنایت فرمایا۔
ان کو لڑائی میں سب سے اچھی صورت اختیار کرنے کی وصیت فرمائی۔ ارشاد
فرمایا: ’’اگر وہ تمہاری اطاعت کر لیں تو تم ان کے بادشاہ کی بیٹی سے شادی
کر لینا۔‘‘ انہوں نے دومۃ الجندل پہنچ کر تین دن تک دعوت اسلام دی۔ قبیلہ
بنو کلب کا بادشاہ اصبغ بن عمرو عیسائی تھا‘ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس
کے ساتھ اس کی قوم کے بہت سارے لوگ بھی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کے حسب فرمان اصبغ کی بیٹی سیدہ تماضر رضی اللہ سے شادی کر لی اور انہیں
اپنے ساتھ مدینہ لے آئے۔
مشہور راوی حدیث ابوسلمہ اسی خاتون کے بطن سے تھے۔ کسی قریشی کی بنو کلب
میں یہ پہلی شادی تھی۔ آپ رضی اللہ نے متعدد شادیاں کیں۔ آپ رضی اللہ کے
ہاں بیس بیٹے اور آٹھ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ آپ رضی اللہ کے ایک بیٹے کا نام
عثمان رضی اللہ تھا جس کی والدہ کسریٰ کی بیٹی غزال تھی۔ جو مدائن کی فتح
کے موقع پر لونڈی بنی تھی۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ اس لشکر کے قائد
تھے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ بڑے صائب الرائے تھے۔ وہ نہ صرف اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ اقدس میں نمایاں صحابہ میں سے
تھے بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ کے دور
میں بھی ان کے مشیر خاص تھے۔ وہ ان کی موجودگی میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ کے دور میں عراق پر لشکر کشی کا مسئلہ سامنے آیا
تو صحابہ کرام رضی اللہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ کا نام بطور سپہ سالار
پیش کیا۔
شوریٰ کا اجلاس جاری تھا۔ اجلاس میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ بھی
موجود تھے‘ انہوں نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی۔ اس موقع پر انہوں نے جو
دلائل پیش کیے آئیے ذرا ان کو پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ رضی اللہ
یہیں ٹھہریں‘ لشکر عراق بھیج دیں۔ اللہ نہ کرے اگر اسلامی لشکر نے شکست
کھائی تو وہ اسلام کی شکست نہ ہو گی بلکہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی شکست ہو
گی۔
اگر آپ رضی اللہ جنگ کے میدان میں اتر گئے اور شکست کھا گئے تو مسلمانوں کی
ترقی رک جائے گی اور اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ان کی اس مدلل تقریر نے
تمام ارکان شوریٰ کی آنکھیں کھول دیں اور سب نے پر زور الفاظ میں اس کی
تائید کی۔ اب سوال پیدا ہوا کہ مسلمانوں کی قیادت کون کرے؟ یہ مسئلہ بھی اس
دانشور شخصیت نے حل کر دیا۔ انہوں نے مجلس میں کھڑے ہو کر فرمایا: ’’میں نے
پا لیا۔‘‘ سیدنا عمر فاروق نے پوچھا: ’’وہ کون ہے؟‘‘ آپ رضی اللہ نے کسے پا
لیا؟ بولے: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ اس حسن انتخاب پر ہر طرف سے صدائے
تحسین بلند ہوئی۔
بیت المقدس کی فتح مسلمانوں کو لڑے بغیر ہی نصیب ہو گئی۔ اس موقع پر
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس کے گواہوں میں سیدنا
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ بھی شامل تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ شام کے
دورے پر تھے۔ اسی دوران ان کو اطلاع ملی کہ وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔
انہوں نے پلٹنا چاہا تو سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ نے اس کی بھر
پور مخالفت کی اور کہا کہ ’’آپ رضی اللہ شام ضرور جائیں‘ کیا آپ رضی اللہ
تقدیر الٰہی سے فرار ہونا چاہتے ہیں؟‘‘ اس موقع پر سیدنا عبدالرحمن بن عوف
رضی اللہ آگئے۔ آپ رضی اللہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی
حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم کسی شہر میں وبا کی خبر سنو تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم وہاں (پہلے
ہی) موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔‘‘
سیدنا سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں: شام سے واپس پلٹنے کی
وجہ صرف سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کی روایت کردہ حدیث تھی۔
اگر ان کے حالات زندگی کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعی
نہایت زیرک اور صائب الرائے شخصیت تھے۔ ان کو امیر المؤمنین عمر فاروق رضی
اللہ کا بے حد قرب اور اعتماد حاصل تھا۔ بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ اپنے بعد خلافت کی ذمہ داریاں انہی کو سونپنا
چاہتے تھے مگر وہ اس پر قطعاً راضی نہ ہوئے۔ بلاشبہ وہ نہایت متقی اور
پرہیزگار انسان تھے۔ انتہائی مالدار ہونے کے باوجود وہ بڑے منکسر المزاج
تھے۔
"ایک مرتبہ روزے سے تھے‘ افطاری کے وقت ان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو
فرمایا: مصعب بن عمیر رضی اللہ کو اُحد کے میدان میں شہید کر دیا گیا وہ
مجھ سے بہتر تھے۔ ان کو ایک ایسی چادر میں کفن پہنایا گیا کہ اگر اسے سر پر
ڈالا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے اور اگر پاؤں پر ڈالتے تو سر ننگا ہو
جاتا تھا۔ میں نے ان کو اس حالت میں دیکھا۔
سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ شہید ہوئے‘ وہ مجھ سے بہتر اور افضل تھے‘
پھر ہمیں دنیا سے وہ کچھ دیا گیا جو کچھ دیا گیا۔
(یعنی ہمیں بے حد وحساب دولت دی گئی)حتی کہ ہمیں ڈر لگا کہ ہماری نیکیوں کا
بدلہ ہمیں فوراً (دنیا ہی میں) دے دیا گیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ زار وقطار رونے
لگے اور کھانا چھوڑ دیا"۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ امہات المؤمنین رضی اللہ کا بے حد احترام
کرتے تھے۔ امہات المؤمنین رضی اللہ کو بیت المال سے معقول مقدار میں خرچ
ملتا تھا‘ اس کے باوجود بہت سارے غنی صحابہ رضی اللہ ان کے ایک ادنیٰ اشارے
پر ہر قسم کی مالی قربانی دینے کے لیے ہر آن ہر گھڑی تیار رہتے تھے۔
مگر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کا معاملہ سب سے مختلف تھا۔ ان کے ایک باغ
کی قیمت چار لاکھ درہم تھی‘ انہوں نے اس کی پیداوار امہات المؤمنین رضی
اللہ پر خرچ کرنے کی وصیت فرمائی۔ انہوں نے بدری صحابہ رضی اللہ کے لیے
وصیت کی تھی کہ ان میں جو زندہ ہیں ان سب کو میری وفات کے بعد میراث سے چار
چار سو دینار دیے جائیں۔ جب ان کی وفات کے وقت بدری صحابہ کو گنا گیا تو ان
کی تعداد سو تھی۔ اس طرح چالیس ہزار دینار کی خطیر رقم صرف بدری صحابہ رضی
اللہ کو ادا کی گئی۔ ان صحابہ رضی اللہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ
بھی شامل تھے۔ سبھی کو معلوم تھا کہ وہ نہایت امیر کبیر اور مالدار انسان
ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ کے لیے یہ کوئی بڑی رقم بھی نہ تھی‘ آپ رضی اللہ
تو غنی تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ رضی اللہ بھی حسب وصیت رقم وصول
کریں گے؟ انہوں نے فرمایا: ’’ہاں! کیوں نہیں‘ میں یہ رقم ضرور وصول کروں
گا۔ میرا یہ بھائی بڑا بابرکت تھا۔ اس کا مال حلال اور برکت والا ہے۔ اس
طرح انہوں نے بھی چار سو دینار وصول کیے۔ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ کو
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ کے مجوسی غلام ابولؤلؤ فیروز نے فجر کی نماز
پڑھاتے ہوئے خنجر گھونپا تو انہوں نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کا
ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنی جگہ کھڑا کر دیا۔ لوگ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ
کی آواز نہیں سن رہے تھے۔ وہ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ کہہ رہے تھے‘ چنانجہ
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ نے مختصراً نماز پڑھائی۔ سیدنا عمر فاروق
رضی اللہ نے اپنے بعد جن شخصیات کے بارے میں فرمایا کہ ان کو میرے بعد
خلیفہ چن لینا ان میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ بھی شامل تھے۔ جب
شوریٰ کا اجلاس شروع ہوا تو یہ مسئلہ بڑا مشکل تھا کہ کس کو خلیفہ منتخب
کیا جائے۔ مگر انہوں نے یہ مسئلہ بھی بڑی خوش اسلوبی سے حل کر دیا اور آخر
کار صحابہ کے مشورے سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ کو خلیفہ قرار دینے کا
اعلان کر دیا۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ کے دور خلافت میں ان کا
مکمل ساتھ دیتے رہے۔ ان کو خیر خواہی کے ساتھ نیک مشورے دیتے رہے اور زندگی
بھر خلافت کے استحکام کے لیے کوشاں رہے۔
وفات!
آپ رضی اللہ کی وفات سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ کے عہد خلافت میں ہوئی۔
وفات کے وقت آپ رضی اللہ کی عمر 72 برس کے لگ بھگ تھی۔
آپ رضی اللہ نے وصیت کی کہ میرا جنازہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ
پڑھائیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ کی وصیت کے مطابق امیر المؤمنین عثمان بن عفان
رضی اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع الغرقد میں سپرد خاک کیا گیا۔
حوالہ جات!
↑ جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713
↑صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر1969
↑ مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 1588
↑ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1220
اللہ آپ کو اور مجھے ایمان کی حلاوت نصیب فرمائے اورحقیقی خوشیاں عطا
فرمائے اور ہمیں اِن پاک نفوس کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور اللہ پاک
سے دعا ھے ہر کمی معاف فرما کر ﺫریعہ نجات بناۓ..آمین
|