اہلِ روایت کی رسُول دُشمنی !! { 2 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالحج ، اٰیت 49 تا 54 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
یٰایھاالناس
انما انالکم نذیر
مبین 49 فالذین اٰمنوا
وعملواالصٰلحٰت لھم مغفرة
ورزق کریم 50 والذین سعوافی
اٰیٰتنامعٰجزین اولٰئک اصحٰب الجحیم
51 وماارسلنا من قبلک من رسول ولانبی
الّا اذا تمنٰی القی الشیطٰن فی امنیتهٖ فینسخ
اللہ مایلقی یلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ اٰیٰتهٖ و
اللہ علیم حکیم 52 لیجعل مایلقی الشیطٰن فتنة
للذین فی قلوبھم مرض والقاسیة قلوبھم وان الظٰلمین
لفی شقاق بعید 53 ولیعلم الذین اوتواالعلم انه الحق من
ربک فیؤمنوابهٖ فتخبتلهٗ قلوبھم وان اللہ لھادی الذین اٰمنوا
الٰی صراط مستقیم 54
اے ھمارے رسُول ! آپ سارے جہان کے سارے انسانوں کو اِس اَمر سے آگاہ کردیں کہ میں تُم کو اللہ تعالٰی کی طرف سے تُمہارے مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج سے آگاہ کرنے کے لیۓ مامُور کیا گیا ہوں ، جو لوگ مُجھ پر نازل ہونے والے اَحکامِ اِلٰہی پر ایمان لائیں گے تو اُن کی خطا پوشی اور عزت کی روزی کا اللہ تعالٰی نے وعدہ کیا ھے اور جو لوگ اللہ تعالٰی کے اِن اَحکامِ نازلہ کا انکار کریں گے تو اُن کو اُن کے اِس انکار کی پاداش میں وادیِ دوزخ میں ڈالا جاۓ گا اور اے ھمارے رسُول ! آپ سے پہلے ھم نے اہلِ زمین کی طرف اپنا کوئی ایک رسُول اور اپنا کوئی ایک نبی بھی نہیں بہیجا سواۓ اُس ایک وجہ کے کہ اُس زمانے میں جب کبھی بھی انسان کی حق آگاہی کی فطرت حق آگاہی کی آرزُو کرتی تھی تو شیطان اُس کی اُس آرزُو میں اپنے خُبثِ باطن کی وہ شیطانی آمیزش بھی کر دیتا تھا جس شیطانی آمیزش کو انسانی آرزُو سے اَلگ کرنے کے لیۓ اللہ تعالٰی اُس زمانے میں اپنے اُس رسُول یا اُس نبی کو مامُور کر دیتا تھا جو انسانی حق آگاہی کی اِس رُوحانی آرزُو سے شیطان کی شیطانی آمیزش کو جُدا کر کے اللہ تعالٰی کی اٰیات کو مُستحکم کر دیتا تھا اِس لیۓ کہ اللہ تعالٰی انسان کے مُثبت خیالات میں داخل ہونے والے شیطان کے مَنفی خیالات کو جانتا ھے اور اپنے اُس وسیع علم و حکمت کو اپنے عمل میں بھی لاتا ھے جس وسیع علم و حکمت سے انسان کے مُثبت خیالات سے شیطان کے مَنفی خیالات کو اَلگ کیا جاتا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی تو انسان کی انسانی فطرت کے سارے کَھرے خیالات اور شیطان کی شیطانی سرشت کے سارے کھوٹے خیالات کو اِس طرح اَلگ اَلگ طور پر جانتا اور پہچانتا ھے جس طرح کہ ایک ماہر سُنار کھٹالی سے نکلے ہوۓ سونے کے کھرے پَن اور کھوٹے پَن کو اَلگ اَلگ طور پر جانتا اور پہچانتا ھے اور اللہ تعالٰی کے نظامِ عالَم میں یہ اَمر جان لیا جاتا ھے کہ اِس نظامِ عالَم میں اِس وقت کس سَنگ دل اور ظالم انسان کے دل میں کون سا شیطانی یا نفسانی روگ پرورش پا رہا ھے اور کون سا شیطانی یا نفسانی روگ انسانی معاشرے کی رُوح و جان کو گھائل کرنے کے لیۓ انسانی سماج کی طرف چلا آرہا ھے ، یہ تجزیہ اِس لیۓ کیا جاتا ھے تاکہ ہر انسان جان جاۓ کہ اُس کے اختیاری نظریات میں حق کیا ھے اور باطل کیا ھے اور یہ حقیقت جاننے کے بعد انسانی دل حق کی طرف جُھک جائیں اور زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمان و مکان میں راستی چاہنے اور راستی پر چلنے والوں کی مُکمل رہنمائی کرتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کی توضیحِ بالا کے بارے میں ابتدائی خیال یہ تھا کہ سب سے پہلے اہلِ روایت کی رسُول دُشمن روایات کا ذکر کیا جاۓ اور سب سے آخر میں لُغاتِ اٰیات کا جائزہ لیا جاۓ لیکن بعد ازاں مناسب معلوم ہوا کہ لُغاتِ اٰیات کا آغازِ کلام میں ہی جائزہ لے لیا جاۓ تاکہ اہلِ روایت کی رسُول دُشمنی کا مقصد آغازِ کلام میں ہی واضح ہو جاۓ ، اٰیاتِ بالا کی چوتھی اٰیت کا پہلا معرُوف لَفظِ "تمنٰی" ھے جو فعل ماضی معرُوف کا صیغہ ھے اور جس کا معرُوف معنٰی اُمید و آرزُو ھے اور اٰیاتِ بالا کی اس اٰیت کا دُوسرا معرُوف لَفظ "اَلقٰی" ھے جس کا معنٰی کسی چیز کا کسی چیز سے ملنا ، کسی چیز کو کسی چیز میں ملانا اور کسی چیز کا کسی چیز میں مل جانا وغیرہ ہوتا ھے اور اٰیاتِ بالا کا تیسرا معرُوف لَفظ "امنیة" ھے جو اسمِ واحد "امانی" کی جمع کثرت ہونے کے علاوہ ھے ایک حاصل مصدر بھی ھے اور اِ س کا معرُوف معنٰی بھی اُمید و آرزُو ہوتا ھے اور سلسلہِ کلام میں اِس لَفظ سے مُراد شیطان کا انسان کی حق طلبی کی آرزُو میں اپنی باطل طلبی کی اُمید و آرزُو کو ملانا اور انسان کو اپنے شیطانی نظریات کا حامی بنانا ھے ، اٰیتِ بالا کی اسی چوتھی اٰیت کا چوتھا لَفظ فعل "ینسخ" ھے جو مضارع معرُوف کا ایک معرُوف صیغہ ھے اور جس کا معنٰی خیال میں آنے والے خیال کو الفاظ و اَقوال کے حصار میں لانا یا غیر تحریری خیال و اَقوال کو احاطہِ تحریر میں لانا اور محفوظ بنانا ہوتا ھے لیکن عُلماۓ روایت نے پہلے تو قُرآنِ کریم کی اِس اٰیت کی اِس اصطلاح کے کاغز و کتاب میں لاۓ جانے والے خیال و اَقوال کے مفہوم کو کاغز و کتاب سے مٹاۓ جانے والے خیال و اَقوال کا حامل مفہوم بنایا ھے اور اِس کے بعد اُنہوں نے اپنے اِسی خانہ ساز خیال کے مطابق قُرآنِ کریم کی 6666 اٰیات میں سے 4430 اٰیات کو منسوخ قرار دیا ھے جن کی تفصیل ھم نے سُورَةُالبقرة کی اٰیت 106 میں درج کی ھے اور اُس تفصیل میں ھم نے یہ اَمر بھی واضح کیا ھے کہ "نسخ" کا معنٰی کاغز و کتاب میں لکھی ہوئی تحریر کو مٹانا نہیں ہوتا بلکہ کاغز و کتاب سے کسی محو کی گئی تحریر کو بارِ دِگر تحریر میں لاکر محفوظ بنانا ہوتا ھے ، ایک ڈاکٹر یا حکیم کے نُسخے کو بھی اسی "نسخ" کی مناسبت سے نُسخہ کہا جاتا ھے کہ وہ ڈاکٹر اور حکیم اُس نُسخے کو احاطہِ خیال سے نکال کر دائرہِ تحریر میں لاتا ھے تاکہ مریض اُس نُسخے کو اپنے کام میں لاۓ اور اُس کا جسمانی روگ اُس کے جسم سے دُور ہو جاۓ ، اللہ تعالٰی نے بھی اپنے کلامِ حکمت کو اسی قابلِ فہم حکیمانہ نُسخے کی صورت میں لکھ کر انسان کے سپرد کیا ھے تاکہ جو انسان شرک و بدعت کے مرض کا شکار ھے وہ اِس کو اپنے عمل میں لاۓ اور اپنے تَن و جان کو صحت مند بناۓ ، نسخ کا یہ مفہوم جو ھم نے پیش کیا ھے سُورةُالاَعراف کی اٰیت 154 میں اللہ تعالٰی نے اِس مفہوم کو اپنے اِن الفاظ میں بیان کیا ھے کہ { ولما سکت عن موسی الغضب اخذ الالواح و فی نسختھا ھدی } یعنی جب مُوسٰی کا غُصہ کم ہو گیا تو اُس نے غُصے کی حالت میں زمین پر پھینکی ہوئی تورات کی وہ تختیاں زمین سے اُٹھالیں جن پر خُدا خوفی رکھنے والے لوگوں کے لیۓ اللہ تعالٰی کا لکھا ہوا کلام درج کیا گیا تھا ، اسی طرح ھم سُورَہِ جاثیہ کی اٰیت 29 میں بھی اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد دیکھتے ہیں کہ { ھٰذاکتٰبنا ینطق علیکم بالحق انا کنا نستنسخ ماکنتم تعملون } یعنی ھماری یہ کتاب تُمہارے بارے میں سب کُچھ سَچ سَچ بتا رہی ھے کیونکہ تُم دُنیا میں جو کُچھ بھی کرتے رہتے تھے وہ سب کُچھ ھم اِس کتاب میں لکھتے رہتے تھے ، اللہ تعالٰی کے اِن ارشادات کے مطابق اِن اٰیات کا مقصد اِن اٰیات کو ماضی کے پوشیدہ گوشوں سے نکال کر اپنے اعمالِ حال میں لانا ھے اِن کو مٹانا یا منسوخ کرنا نہیں ھے اور یہی بات اٰیتِ بالا میں کہی گئی ھے کہ { وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الّا اذا تمنٰی القی الشیطان فی امنیتهٖ فینسخ اللہ مایلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ اٰیٰتهٖ } یعنی ھم نے آپ سے پہلے اہلِ زمین کی طرف جب بھی اپنا جو رسُول اور جو نبی بھی بہیجا ھے تو اُس کے بہیجے جانے سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا ھے کہ انسان کے دل نے حق کی کوئی آرزُو کی ہو اور شیطان نے حق کی اُس آرزُو میں باطل کی کوئی آرزُو شامل نہ کی ہو اور ایسا بھی کبھی نہیں ہوا ھے کہ جس زمانے میں انسان کی آرزُو میں شیطان نے اپنی کوئی آرزُو شامل کرنے کی کوشش کی ہو تو اللہ تعالٰی نے اُس زمانے میں اپنے کسی رسُول یا اپنے کسی نبی کو بہیج کر اپنی اٰیات کو مُستحکم نہ کیا ہو ، موجُودہ اٰیات سے پہلی اٰیات اور اُن پہلی ساری اٰیات سمیت موجُودہ ساری اٰیات کا نفسِ موضوع عالَم اور عالَم میں خالقِ عالَم کے اَحکام کا حامل انسان ھے اور اِس موضوع کے حوالے سے اِس موضوع کے کلام میں آنے والے اِشارہِ "اُس" کا مشار الیہ اُس زمانے کا انسان ھے لیکن اہلِ روایت نے اپنی رسُول دُشمنی اور اپنی نبی دُشمنی کے تحت اُس زمانے کے حوالے سے کیۓ گۓ اِس کلام کے اِس اشارہِ " اُس" کا مشار الیہ انسان کے بجاۓ اللہ تعالٰی کی رسُولوں اور اللہ تعالٰی کے نبیوں کو بنایا ھے اور پھر اِن رسولوں اور نبیوں کا مُبلغانہ کردار ختم کر کے اللہ تعالٰی کی اٰیات کو مُستحکم کرنے کا کام بھی براہِ راست اللہ تعالٰی کی ذمہ داری بنا دیا ھے حالانکہ اللہ تعالٰی ہر زمانے میں اپنی اٰیات کو مُستحکم کر نے کا کام اپنے اَنبیاء و رُسل سے لیتا رہا ھے ، اگر اللہ تعالٰی نے اپنی اٰیات کو مُستحکم کرنے کا کام آپ ہی کرنا ہوتا تو اُس کو اپنے کسی رسُول یا اپنے کسی نبی کو اہلِ زمین کی طرف مامُور کرنے کی ضروت ہی نہ ہوتی ، اِن ساری اٰیات میں اہلِ روایت کے لیۓ چونکہ یہ ساری مُشکلات موجود تھیں اِس لیۓ اُنہوں نے اپنی دین دُشمنی و ایمان دُشمنی اور اپنی نبوت و رسالت دُشمنی کے اظہار کے لیۓ پہلے تو اپنے دماغوں سے یہ شطانی روایت تیار کی ھے کہ ایک بار نبی علیہ السلام کے دل میں یہ آرزُو پیداہوئی کہ کیا ہی اَچھا ہو کہ اگر قُرآن میں کوئی ایسی وحی نازل ہو جاۓ کہ جس سے دین کے خلاف مُشرکین کی نفرت ہی کُچھ کم ہو جائے اور آپ کی اِس آرزُو کے بعد جب آپ پر سُورَةُالنجم نازل ہوئی اور آپ نے سُورَةُالنجم کی اٰیات { افرایتم اللّات والعزٰی ، ومناة الثالثة الاخرٰی } پڑھیں تو یَکایَک شیطان نے آپ کی زبان سے یہ الفاظ بھی ادا کرادیۓ کہ { تلک الغرانقة العلٰی ، وان شفاعتھن لترجٰی } یعنی لات و مناة نام کی یہ جو بلند مرتبہ دیویاں یہاں موجُود ہیں تو اِن کی شفاعت کی بھی توقع ھے اور جب سُورت کی آخری اٰیت پر آپ نے سجدہِ تلاوت کیا تو مُشرکین نے بھی یہ کہہ کر آپ کے ساتھ سجدہ کیا کہ اَب محمد کے ساتھ ھمارا جھگڑا ختم ہو گیا ھے کیونکہ ھم بھی تو یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ خالق و رازق تو یقیناً اللہ ہی ھے اور ھمارے یہ معبود اللہ کے درباری میں ھمارے سفارش و شفاعت کرنے والے ھمارے چنیدہ معبود ہیں اور پھر اسی روز شام کو جبریل تشریف لاۓ اور بولے کہ آپ نے یہ کہہ دیا اور کیا کر دیا کہ اِن اٰیات میں جو کُچھ پڑھا ھے وہ اُس وحی میں شامل نہیں تھا جو وحی آپ کے پاس میں لے کر آیا تھا اور نبی علیہ السلام جبریل کی یہ بات سُن کر بہت پریشان ہوۓ اور جب اِس پریشانی کے بعد اللہ تعالٰی نے آپ پر سُورَةُالاسراء کی اٰیت 73 نازل کی وعید نازل کی تو اِس کے بعد آپ کے دل میں ایک خلش سی رہنے لگی یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے آپ پر سُورَةُالحج کی یہ اٰیت نازل کرکے یہ تسلّی دی کہ آپ اپنی وحی کے دوران ہونے والی اُس شیطانی مُداخلت سے اتنے اَفسردہ دل نہ ہوں کیونکہ شیطان نے آپ پر نازل ہونے والی اِس وحی کے دوران پہلی بار مداخلت نہیں کی ھے بلکہ وہ تو آپ سے پہلے بھی اہلِ زمین کہ طرف آنے والے ھمارے سارے رسُولوں اور ھمارے سارے نبیوں پر نازل ہونے والی وحی کے دوران یہی کُچھ کرتا آیا ھے اور جس طرح اللہ تعالٰی اپنے پہلے رسُولوں اور پہلے نبیوں پر نازل ہونے والی وحی کو شیطانی الفاظ سے پاک کرتا رہا ھے اسی طرح آپ پر نازل ہونے والی وحی کو بھی اُس کی شیطانی آمیزش سے پاک کر دے گا ، اہلِ روایت کی اِس شیطان دوستی اور نبوت دُشمنی کے یہ سارے واقعات جو شیطان نے اہل روایت پر نازل کیۓ ہیں اُن میں شیطان اِن کے ساتھ بھی یہ ہاتھ کر گیا ھے کہ اِن کی اِن روایات کے مطابق زیرِ بحث واقعہ 5 نبوی میں پیش آیا ھے اور اِس پر سُورةُالاَسراء میں بیان کی جو وعید آئی ھے وہ 12ھجری کے واقعہِ معراج کے موقعے پر 6 سال بعد آئی ھے اور سُورَةُالحج کی اٰیاتِ بالا میں اِس وحی کے بارے میں جو آخری وضاحت آئی ھے تو وہ 1ھجری میں 9 سال کے بعد آئی ھے ، روایات کا یہ اختلاف بتاتا ھے کہ اہلِ روایت کی اِن روایات کی بُنیاد صرف اور صرف دین دُشمنی ، ایمان دُشمنی ، قُرآن دُشمنی اور نبوت و رسالت دُشمنی ھے ، اِن روایات میں اِن روایات کی دین دُشمنی کی اِس ایک بُنیاد کے سوا کوئی دُوسری بُنیاد موجُود نہیں ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 487364 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More