وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی میڈیا کو انٹر ویو دیتے ہوئے خواتین کے لبا س اور جنسی بے راہ روی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ملک میں ایک بار پھر سے یہ بحث چھٹرگئی کہ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں لباس کا کتنا کردار ہے۔ حسب معمول لبرلز اور خود لباس کا خیال کرنے نہ والے اس بیان کی مخالفت میں تیر تلوار سے لیس ہوکر میدان میں آگئے۔میڈیا جو ادھورے لباس کا ایک بڑا ذریعہ ہے اس نے کئی پروگرام کر ڈالے، شوبز کی خواتین نے اس بیان پرخوب واویلاکیا اور عام خواتین میں سے بھی کچھ نے اسے خواتین کے خلاف سازش قرارد دے دیا۔میڈیا چینلز نے معاملے کو تکنیکی رنگ دینے کے لیے ماہرین نفسیات کو بھی مدعو کیا تاکہ اپنے موقف کو زیادہ قابل بھروسہ بنا سکیں۔انسانی حقوق کے علمبردار وں کو بھی دعوت دی گئی جنہوں نے اسے خواتین کے حقوق بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردینے کے لیے زور بیان سرف کیا،ہاں کوئی مذہبی عالم نظرنہ آیا جن کو ضرور ہونا چاہیئے تھا۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ وزیراعظم خواتین کو برقع پہنانا چاہتے ہیں اگرچہ اس میں بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن انہوں نے کہیں بھی برقع پہننے کے لیے نہیں کہا۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے اور کہتے ہوئے مذہب کے احکامات کو یکسر نظر انداز کیا گیا یہ خواتین کے حقوق کے تمام علمبردار وغیرہ یہ بھول گئے کہ ہمارے مذہب کے کیا احکامات ہیں اور کیوں۔اللہ تعالیٰ نے جب پردے کی آیات مبارکہ نازل فرمائیں اور حکم دیا کہ عورتیں خود کو ڈھانپ کر نکلیں تو ساتھ ہی فرمایادیا ”تاکہ وہ پہچانی جائیں اور ستائی نہ جائیں“۔ اگرچہ دین کے دوسرے احکامات سے انحراف کی طرح اس حکم سے بھی انحراف کر لیا جاتا ہے اور ایسی خواتین کے ساتھ بھی یہ واقعات ہوجاتے ہیں لیکن اس کا محرک بھی دین سے انحراف کرنے والے ہی بنتے ہیں۔وہ جب ایسی خواتین کو ٹی وی، فلم،یوٹیوب،ٹک ٹاک اور بے شمار دوسرے ذرائع سے دیکھتے ہیں جو مختصر اور قابل اعتراض لباس میں ہو تی ہیں تو وہ ایسی حرکات کے لیے محرک بنتی ہیں اورکوئی مانے یا نہ مانے لیکن ان چیزوں کے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں۔ ہم موبائل کے دیگر اثرات کو مانتے ہیں یہ مانتے ہیں کہ اس پر کھیلی جانے والی ویڈیو گیمز بچوں اور نوجوانوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان میں تشدد کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، ہم پر تشددپروگراموں پر بات کرتے ہیں کہ یہ معاشرے میں تشدد کو فروغ دیتے ہیں ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ خوش کُن مناظر انسانی نفسیات کو مثبت طور پرمتاثرکرتے ہیں،ہم اس بات تک کو بھی مانتے ہیں کہ بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی ماں کے لیے میسر ماحول بھی ا س بچے پر اثر انداز ہوتا ہے تو پھر اس بات کو کیوں نہیں مانتے کہ قابلِ اعتراض مناظر اور لباس انسانی نفسیات کو متاثر کرتا ہے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے تو اس نے آخر ایک ایسا حکم کیسے دے دیا جو انسانی نفسیات کو متاثر نہ کرتاہو۔ بحیثیت مسلمان مکمل اور با حیا ء لباس پہننا ہم پر فرض ہے کم از کم اتنا ضرورجتنے کے لیے لازمی حکم ہے۔”میرا جسم میری مرضی“قسم کی خواتین کو اسلام کا یہ حکم یاد نہیں رہتا کہ ان کا پہناوا کیسا ہو ہاں یہ ضرور یاد رہتا ہے کہ مرد اپنی نگاہ نیچی رکھے۔ بالکل مرد اپنی نگاہ نیچی ہی رکھے لیکن عورت بھی اپنا جسم ضرور ڈھانپے باالفاظ قرآن پاک اپنی زینت کی حفاظت کرے اس کا اظہار نہ کرتی پھریں جہاں اس کی اجازت ہو صرف وہاں ظاہر کریں۔ ہمارا میڈیا معاشرے کے بناؤاور بگاڑ میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اور اسی میڈیا پر جن اقسام کے لباس میں خواتین نظر آتی ہیں وہ نفسیاتی اور مذہبی طور پر کمزور انسان کو بہت جلد برائی کی طرف راغب کرتی ہیں۔اگر فلمیں اور ڈرامے نہ بھی دیکھے جائیں تو اشتہارات میں پہنے گئے لباس ہی جذبات کو ابھارنے کے لیے کافی ہیں اور چونکہ ان خواتین تک تو ہر ایک پہنچ ہوتی نہیں ہے تو مناسب اور موزوں لباس پہنے والی خواتین بھی زد میں آجاتی ہیں۔ ایک اور بات جو کی جاتی ہے کہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ بد سلوکی کیوں کی جاتی ہے تو اس کی وجہ بھی پہنچ اور دسترس ہے۔ لباس کو اہم نہ سمجھنے والے وہ لوگ ہیں جو خود اپنے آپ کو بھی ان حدود قیود کا پابند نہیں سمجھتے۔ایک اور اہم بات کہ چند ایک ٹاک شوز اس موضوع پر میں نے دیکھے ان میں ایسے ہی لوگوں کو مدعو کیا گیاجو لباس کو اہمیت نہیں دیتے دوسرا نظریہ رکھنے والوں کوکم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ لباس واحد محرک ہے۔بہت سی جگہوں پر نفسیات بھی کام کرتی ہے لیکن لباس ایک اہم محرک ضرور ہے اور یہی کم لباسی آہستہ آہستہ نفسیات کو اس سانچے میں ڈھال دیتی ہے جہاں سے خرابی جنم لیتی ہے۔ماحول کے اثر سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا ہوتا تو بُری صحبت سے بچنے کی تلقین نہ کی جاتی۔ بات در اصل یہ ہے کہ برائی کے لیے کچھ نہ کچھ وجوہات ضرور ہوتی ہیں ہر بار نفسیاتی بیماری نہیں ہوتی لہٰذا ہر بار اس کے لیے اس کی آڑ نہ لی جائے ورنہ تو پھر چاہیئے کہ ہم دہشت گردی کو بھی نفسیاتی بیماری کہیں اور قتل چوری اور ڈاکے کو بھی اور جیلیں ختم کر دی جائیں اور نفسیات کے ہسپتال کھول دیے جائیں،قاتل اور چور کو بیمار سمجھ کر چھوڑ دیا جائے، مجرم کو پناہ دی جائے اس پر ترس کھایا جائے، سزا اور جزا ختم کردی جائے اور تربیت کی کوشش ختم کردی جائے اوراصلاح کا تردد چھوڑ دیاجائے پھر دیکھئے معاشرے اور جنگل میں کیا فرق رہتا ہے۔ میری میڈیا سے بھی درخواست ہے اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار وں سے بھی اور حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں سے بھی کہ حقائق کو تسلیم کریں اپنا معیار ایک رکھیں اپنی خواش کے مطابق اسے تبدیل نہ کریں صرف اپنی نوکری بنائے رکھنے کے لیے دین کے اصولوں اور احکامات کو پامال نہ کریں۔اسلام اگر مرد کی نگاہ نیچی رکھنے پر زور دیتا ہے تو عورت کے مکمل لباس کا حکم بھی دیتا ہے ان احکامات کا تمسخر نہ اڑائیں ورنہ بے راہ روی کرنے والے ہی نہیں اسے پھیلانے اور اسے سپورٹ کرنے والے بھی برائی میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
|