منگل 15 جون کی شام اک دلخراش ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
ہوتی ہے، اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد سے سکتہ سا طاری ہوا، رات بمشکل ہی سے
سو پایا، کیونکہ بات ہی کچھ ایسی تھی، اس ویڈیو میں ہونے والے ظلم کو یہاں
دہرانے کی جراٗت نہیں ہوپارہی، بہرحال برائی کے اوپر خاموشی اختیار کرنا
بھی برائی کا ساتھ دینے والی بات ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ
وبارک وسلم کی حدیث مبارکہ ہے جسکا ترجمہ یہ ہے کہ: تم میں سے جو شخص خلاف
شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا
ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے
اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(بحوالہ مسلم، ابی
داؤد،المسند احمد)۔درج بالا حدیث مبارک کی روشنی میں بزور بازو تو اس قبیح
فعل کو روکنے کی استعداد نہیں رکھتے کیونکہ یہ قانون کو ہاتھ میں لینے کے
مترادف ہیں مگر زبان (قلم) سے رد کرنے اور دل میں برا جاننے کی سعی ضرور کی
جاسکتی ہے۔ اسلئے قلم اُٹھاکر اس قبیح حرکت اور ظلم پر آواز اُٹھانے کی
کوشش کی جارہی ہے۔ویڈیو دیکھنے کے بعد یہ سمجھا کہ شائد یہ فیک ویڈیو ہے یا
کسی بڑی مذہبی شخصیت کوزمانہ میں بدنام کرنے کو مذموم سازش ہے مگر جب صحافی
اور اینکر جمیل فاروقی کے آفیشل ٹیوٹر اکاؤنٹ سے جاری اک ویڈیو پیغام کہ جس
میں اُسی ظالم مفتی عزیز (جس کو مفتی کہنا بھی مفتی کے مقام کی توہین ہے)
کے مدرستہ الاسلام لاہور کے ناظم خلیل اللہ ابراہیم جو کہ اسی مدرسہ کے
مہتمم حافظ اسد اللہ فاروق کے بھائی ہیں کو دیکھا جاسکتا ہے کہ جس میں وہ
صابر شاہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے دیکھائی دیتے
ہیں۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ مظلوم نوجوان انکے پاس آیا تھا اور مفتی عزیز
کی شکایت لگائی لیکن انہوں نے اسکا یقین نہ کیا مگر جب ویڈیو سامنے آئی تو
انہوں نے تحقیق کرنے کے بعدمفتی عزیز الرحمن کو برطرف کردیا گیا - مزید کہا
کہ انتظامیہ مفتی صاحب سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔اسی طرح مدرسے کی جانب
سے مبینہ طور جاری کردہ ایک خط بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا کہ جس میں مفتی
عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”مسمی مفتی عزیز الرحمن صاحب“۔ آپ کے
متعلق طالب علم کے ساتھ بدفعلی کی نازیبا ویڈیو لے کر رات بارہ بجے محلے کے
کچھ لوگ آئے جو آپ کے گھر بھی آئے اور انہوں نے آپ کے بیٹے کو یہاں چلے
جانے کا میسج دیا اور ان کی شکایت کی بنیاد پر ادارہ نے اپنی انتظامیہ کی
مشاورت کی اور انتظامیہ کے متفقہ فیصلے کے بعد آپ کو مورخہ 03 جون 2021 کو
ادارہ سے فارغ کیا جاتا ہے۔ آپ یہاں سے اپنا سامان اٹھا کر چلے جائیں اور
آج سے ادارہ آپ کے کسی قول و فعل اور آپ کے اس عمل سے مکمل برات کا اعلان
کرتا اور۔ آپ اپنے ذاتی فعل کے خود ذمہ دار ہیں۔ جاری کردہ (مولانا) اسد
اللہ فاروق، مہتمم جامعہ منظور الاسلامیہ لاہور کینٹ ”۔دوسری طرف مظلوم
نوجوان اپنی طرف سے جاری وائرل ویڈیو میں یہ تذکرہ کرتا ہوا دیکھائی دیتا
ہے کہ اس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان اپنے والدین اور استاذہ کو
بھی بتائی مگر انہوں نے اسکا یقین نہیں کیا، کیا ہی بدبختی اور ظلم کی
انتہا ہے کہ مظلوم نوجوان کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو ثابت کرنے کے لئے
اک مرتبہ پھر اسی ظالم عزیز نامی شخص کے ظلم کا نشانہ بننا پڑا جب تک کہ
مظلوم نوجوان اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے ثبوت کے لئے ویڈیو نہ بناپایا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔راقم کی نظر میں سب سے بڑا ظلم یہ بھی ہے کہ
مدرسہ کے ناظمین نے اک خط موصوف عزیز جس میں وہ بہت ہی عزت کے ساتھ انکو
”مسمی مفتی عزیز الرحمن صاحب“ لکھ رہے ہیں، یعنی مفتی اور صاحب۔ اللہ معاف
فرمائے یہ کیسی منافقت ہے، کہ انکے ادارہ کی اپنی تحقیق کے مطابق اک ثابت
شدہ مجرم کو مفتی اور صاحب جیسے قابل عزت و تکریم والے القابات سے پکارا جا
رہا ہے۔اور کیسی ہی منافقانہ چال بازی کے ساتھ انکو یہ حکم جاری کیا جاتا
ہے کہ آپ یہاں سے اپنا سامان اُٹھا کر چلے جائیں، آج سے ادارہ آپ کے کسی
قول و فعل اور عمل سے مکمل برات کا اعلان کرتا ہے، آپ اپنے ذاتی فعل کے خود
ذمہ دار ہیں۔ یہا ں پر ادارے کے منتظمین اور مہتمم صاحب سے یہ سوال پوچھنا
ضرور بنتا ہے کہ کیااگر کوئی چور مدرسہ میں آکرکسی کی جوتی، مدرسہ کا پنکھا،
کلاک، کتب، فرنیچر یا کسی شخص کی کوئی قیمتی چیز، نقدی وغیرہ چوری کرتے
ہوئے پکڑا جاتا تو کیا اس ادارہ کے منتظمین اور مہتمم صاحب اس چور کو بھی
اتنی ہی عزت و تکریم کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ”جناب چور صاحب“، چونکہ آپ رنگے
ہاتھوں چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں آپ ایسا کریں کہ چوری شدہ مال یہاں رکھ
کا عزت کے ساتھ اپنے گھر چلے جائیں۔ادارہ آپ کی اس حرکت سے مکمل برات کا
اعلان کرتا ہے۔ نہیں ہر گز نہیں ایسا بالکل بھی نہ ہوتا کیونکہ آپ نے چور
کی سب سے پہلے خود ٹھکائی کرنی تھی پھر پولیس کے حوالہ کرنا تھا۔ یہ کیسی
منافقت ہے کہ اک شخص اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دین اسلام کی چوری نہیں بلکہ
سرعام دین اسلام پر ڈاکہ مارتا ہوا پکڑا جاتا ہے اور آپ اسے عزت و تکریم کے
ساتھ گھر جانے کا رستہ فراہم کرتے ہیں۔ مدرسہ والے جو اس کو عزت کے ساتھ
جانے کا بول رہے ہیں اس کو فورا پولیس کے حوالے کرنا چاہے تھا کیونکہ ان
بدبختوں ہی کی وجہ سے ہم دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ غیر مذہب،
غیر مسلم لبرل افرادانہی بدبختوں کو بنیاد بنا کرمذہب اسلام اور ہمارے نبی
صلی اللہ علیہ والہ وبارک وسلم کی ناموس پر حملے کرتے ہیں۔اللہ سبحانہ و
تعالی نے مختلف سورتوں میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا ذکر فرمایا ہے۔
ارشاد فرمایا ہے: ”اور لوط (علیہ السلام) کو یاد کریں جب انھوں نے اپنی قوم
سے کہا: بے شک تم بڑی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو، اقوام عالم میں سے کسی
ایک قوم نے بھی اس برائی میں تم سے پہل نہیں کیا۔ کیا تم شہوت رانی کے لئے
مردوں کے پاس جاتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور اپنی مجلس میں ناپسندیدہ
کام کرتے ہو، تو ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے: تم
ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ لوط علیہ السلام نے کہا: اے میرے
رب! تو فساد انگیزی کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد فرما“ (سورۃ
العنکبوت۔آیت نمبر 28 تا 30)۔اسکے علاوہ قرآن مجید میں اور مقا مات پر بھی
لوط علیہ السلام کی قوم کی بداعمالیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔
ویسے اس جیسے درندے کی سزا کے لئے خود اس نام نہاد ’’مفتی“ بدبخت ہی سے
فتویٰ لیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے اس قبیح جرم کی ''قرآن و حدیث'' کے مطابق
سزا تجویز کرے، تاکہ ریاست پاکستان اس پر آسانی سے عملدرآمد کرسکے۔ سب سے
اہم بات کہ کیا ریاست پاکستان کوئی ایکشن لے گی؟ کیا علماء کرام اس ''بدبخت''
کے خلاف فتوے جاری کریں گے؟ کیا علماء کرام جمعہ کی نماز کے بعد احتجاجی
مظاہرے کریں گے؟کیا اس بدبخت کو قرار واقعی سزا بھی ملے گی؟ یا فیر مٹی پاؤ
پروگرام چلے گا؟ کیونکہ اس فتوے دینے والی مشین نام نہاد مفتی نے 70 سال کی
عمر میں اگر کسی کو نہیں چھوڑا تو اندازہ لگائیں کہ اس بد بخت نے اپنی
جوانی سے لیکر اب تک نہ جانے کتنے صابر شاہ جیسے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے
ہونگے۔بچپن سے ہم یہ دعا سیکھتے آئے ہیں کہ شیطان سے بچنے کے لئے ''اعوذ
باللہ من الشیطٰن الرجیم'' پڑھا جاتا ہے۔ مگر کوئی ہے جو ہمیں کوئی ایسی
دعا سیکھائے کہ اس طرح کے درندوں سے بچنے کے لئے کون سی دعا پڑھنی چاہئے؟
دوسری طرف ان موصوف کی ویڈیو بھی جاری ہوئی کہ جس میں وہ اپنے اوپر لگے
الزام سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نوجوان نے مجھے کوئی نشہ آور چیز
کھلا دی تھی، میں ہوش میں نہیں تھا (انکے جھوٹے ہونے کے لئے اتنا ہی کہا
جاسکتا ہے کہ موصوف اپنا بیان صفائی کاغذ پر لکھے ہوئے مسودے سے دیکھ کر
پڑھ رہا تھا اور اگر یہ حق پر ہوتا تو انکے اپنے ادارہ کے منتظمین انکو
ادارہ سے نوٹس برخاستی جاری نہ کرتے)۔
نوٹ: اس تحریر میں کسی بھی قسم کی غلطی بشمول قرآنی آیت، حدیث مبارکہ کے
ترجمہ،معنی،املاء، لفظی یا پرنٹنگ کی غلطی پر اللہ کریم کے ہاں معافی کا
طلبگار ہوں، اور اگر کسی مسلمان بھائی کو اس تحریر میں کسی بھی قسم کا
اعتراض یا غلطی نظر آئے تو براہ کرم معاف کرتے ہوئے اصلاح کی خاطر نشان دہی
ضرور فرمادیجئے گا۔اس تحریر کا مقصد علماء کرام کی توہین کرنا مطلوب نہیں
ہے بلکہ علماء کرام کے بھیس میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا
مقصد ہے۔ واللہ تعالی اعلم
|