دوسرں کے حقوق کی جدوجہد بے شک ایک عظیم کام ہے اپنے لیے
تو ہر بندہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن مزہ تو دوسروں کے لیے کچھ
کرنے میں ہے جو لوگ دوسرے کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں حق وسچ کی آواز
بلند کرتے ہیں ان کو صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہے لیکن تمام تر مسائل
اور کم ترین وسائل کے ساتھ جو حق و سچ پر کھڑا رہتے ہیں وہ تاریخ میں امر
ہو جاتے ہیں تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے، دوسروں کے حقوق کی آواز بلند
کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ اﷲ کی ذات ہوتی ہے اسی لیے وہ بڑے سے بڑے جابر
ظالم کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ جنوبی پنجاب
کے شہر لودھراں کی تحصیل دنیا پور کے رہائشی شاہ محمد کے گھر پیدا ہونے
والے عبد الحمید شاد نے ابتدائی تعلیم دنیا پور میں حاصل کی اور بعد میں
اوکاڑہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی باقی تعلیم مکمل کی زمانہ طالب علمی میں وہ
انجمن طلباء اسلام سے منسلک رہے ، 1988میں ٹی ایم اے اوکاڑہ میں ملازمیت
حاصل کی جہاں سے انہوں نے ملازمین کی خدمت کا بیڑا اٹھایا 30سال میں وہ
10بارٹی ایم اے ملازمین کی سی بی اے یونین کے صدر منتخب ہو ئے،وہ آل
پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن ضلع اوکاڑہ کے چیئرمین اورصدر بھی رہے 30سال میں
انہوں نے خدمت کی جو اعلیٰ مثال پیش کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں دی
جاسکتی ،ٹی ایم اے ہی نہیں بلکہ کسی بھی محکمہ میں اگر کسی ملازم کے ساتھ
زیادتی ہوتی تو اس کی آواز ہمیشہ عبد الحمید شاد ہی بلند کرتا جب تک اس کو
انصاف نہ مل جاتا اس کے ساتھ کھڑا رہتا تھا ۔ کئی بار الیکشن کے ذریعے
مقامی ارکان اسمبلی اور سیاست دانوں نے ٹی ایم اے کی سیاست سے باہر کرنے کی
کوشش کی لیکن ہمیشہ قدرت نے کامیابی عبد الحمید شاد کے پلڑے میں ہی ڈالی
ملازمین سے ان کا راشتہ اس قدر مضبوط تھا کہ بڑی سے بڑی طاقت بھی ان کو الگ
نہ کرسکی وہ مسلم کرسچن کے درمیان بہترین تعلقات کے سب سے بڑے حامی تھے ٹی
ایم اے میں کام کرنے والے کرسچن برادری کے لوگ ہی ان کی اصل طاقت ہوا کرتے
تھے راقم کا عبد الحمید شاد سے تعلق 2009سے تھا انہوں نے ہمیشہ بھائیوں کی
طرح عزت کی ہر قدم پر قدم ملا کر ساتھ دیا جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا
جاسکتا ہے 2015میں سٹی پریس کلب اوکاڑہ (رجسٹرڈ) کے انتخابات کے سلسلہ میں
ایک اعلیٰ آفیسر کے ساتھ تلخ گفتگو ہو گی تو اسی دوران کمرے میں عبد الحمید
شاد بھی آگے انہوں نے اپنے اعلیٰ آفیسر کے سامنے جو الفاظ ہمارے حق میں
بولے ان کی اس دلیری کی شہر میں دوسری کوئی مثال نہیں دی جاسکتی جب میں نے
ان کو کہا کہ آپ نے تو اپنے آفیسر کے سامنے ہمارے حق میں بہت سخت الفاظ
بولے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو چھوٹا بھائی کہا ہے کوئی میرے
سامنے آپ کے ساتھ سخت رویہ اپنائے اورمیں خاموش رہوں ایسی دوستی اور بھائی
بندی کا کیا فائدہ ہے ایسے بے شمار واقعات ہیں لیکن یہ سب ان کی میرے ساتھ
محبت کی ایک جھلک تھی ان کے سامنے کو ئی جابر سے جابر آفیسر بھی کسی چھوٹے
سے چھوٹے ملازم کے ساتھ بدکلامی نہیں کرسکتا تھا ضلع اوکاڑہ میں عبد الحمید
شاد وہ واحد شخص تھا جس نے قانونی طریقہ کار کے تحت سینکڑوں ملازمین
کونوکری پر مستقل کروایا سینکڑوں ملازمین کے گھروں کے چولہے روشن کرنے میں
ان کا بنیاد ی کردار تھا ۔اس جدوجہد کے لیے ان کے خلاف اعلیٰ افسران کی طرف
سے انتقامی کاروائیوں کا سامنا بھی رہا لیکن ہر بار جیت اسی مرد قلندر کے
حصہ میں آئی وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ملازمین کے دلوں سے مجھے دنیا کی کوئی
طاقت نہیں نکال سکتی میری قبر بھی ان جاگیر داروں ، سرمایہ داروں سے زیادہ
طاقت وار ہوگی ان کو بلدیہ کے ملازمین سے عشق تھا صبح نماز فجر سے رات
12بجے تک ان کو ہمیشہ اپنے دفتر میں ملازمین کے لیے جدوجہد کرتے ہی دیکھا
گیا ملازمین کے دکھ کو اپنا دکھ اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی کہنے والے عبد
الحمید شاد مسلسل کام کی وجہ سے کئی سالوں سے شوگر ، ہائی بلڈ پریشر اور دل
کے عرضہ میں مبتلا تھے اسی وجہ سے کئی روز سے مئیو ہسپتال لاہور میں زیر
اعلاج تھے جو خالک حقیقی سے جاملے ان کی نماز جنازہ میں ارکان صوبائی و
قومی اسمبلی ، سیاسی ،سماجی کاروباری ، مذہبی ، صحافتی شخصیات وکلاء ،
ملازمین سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کی ان
کے بارے میں گفتگو ہی ان کی عمر بھر کی کمائی ہے جس انداز میں مسلم تو مسلم
کرسچن برادری کے لوگوں نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ایسے الفاظ کسی کے
حصہ میں کم ہی آتے ہیں ۔عبد الحمید شاد جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہو تے ہیں
جو اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کردیتے ہیں ان کی وفات سے ضلع بھر میں
مزدوروں اور چھوٹے ملازمین کے حقوق کی ایک مضبوط آواز ہمیشہ کے لیے خاموش
ہو گئی ہے لیکن تاریخ ہمیشہ ان کو یاد رکھے گی ۔
|