قُرآن ہی کتابِ نبوت و علمِ نبوت اور مُعلّمِ نبوت !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالحج اٰیت ، 75 ، 76 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اللہ
یصطفی
من الملٰئکة
رسلا ومن الناس
ان اللہ سمیع بصیر
75 یعلم مابین ایدیھم
وما خلفھم والی اللہ ترجع
الامور 76
اللہ تعالٰی جو وقت کے ہر ایک لَمحے میں اپنی جُملہ مخلوقات کے مکالمات کو سُنتا ھے اور جو وقت کے ہر ایک لَحظے میں اپنی جُملہ مخلوقات کے حالات کو دیکھتا ھے وہ اپنی ہر ایک مخلوقات میں اپنے ارشادات پُہنچانے کے لیۓ فرشتوں میں سے بھی اپنے فرمان بردار فرشتے مُنتخب کرتا ھے اور انسانوں میں سے بھی اپنے فرمان بردار انسان مُنتخب کرتا ھے اور وہ اپنی ہر ایک مخلوق پر ظاہر ہونے والے اُن تمام حالات کو بھی اُن کے اُس وقت کے آنے سے پہلے جانتا ھے جو حالات جس آنے والے وقت میں جس آنے والی قوم پر آنے ہوتے ہیں اور جو اپنی ہر مخلوق کے اُن تمام حالات کو بھی جانتا ھے جو حالات جس مخلوق پر جس گزرے ہوۓ وقت پر گزر چکے ہوتے ہیں اور وہ اپنی جس جس مخلوق پر اپنی جو جو وحی نازل کرتا ھے اپنی اُس وحی میں وہ اپنی ہر ایک مخلوق کو اپنا یہ پیغام بھی دیتا رہتا ھے کہ تُم میں سے جس جس مخلوق نے اپنے جس جس جہان سے لوٹ پلٹ کر واپس آنا ھے تو اُس نے میرے پاس ہی آنا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں جو تین قُرآنی ضابطے بیان کیۓ ہیں اُن تین ضابطوں میں سے پہلا ضابطہ اللہ تعالٰی کے اُس علمِ بیکراں کے بارے میں ھے جو اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کے عربی متن کے اختتامِ کلام پر آیا ھے اور جس کے اُردو مفہوم کو ھم نے اِس مضمون کا افتتاحِ کلام بنایا ھے ، قُرآنِ کریم نے اپنے اِس قُرآنی ضابطے میں اللہ تعالٰی کے اُس علمِ بیکراں کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ھے کہ اللہ تعالٰی کا علمِ بیکراں زمان و مکان کے سارے گزرے ہوۓ لَمحات پر ، زمان و مکان کے سارے گزرنے والے لَمحات پر اور زمان و مکان کے سارے آنے والے لَمحات پر ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ حاوی ھے اور عقل میں آنے والے اِن تین زمان و مکان میں سے کوئی ایک زمان و مکان بھی اللہ تعالٰی کے دائرہِ علم سے باہر نہیں ھے ، قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں دُوسرا قُرآنی ضابطہ یہ بیان کیا گیا ھے کہ اللہ تعالٰی کے اِن لاشمار جہانوں کی لاشمار مخلوقات میں جہاں جہاں پر جس جس مخلوق کے درمیان جس جس زمان و مکان میں جو جو مکالمات ہوتے رہتے ہیں اللہ تعالٰی اُن سارے زمان و مکان کی اُن ساری مخلوقات کے سارے مکالمات کو ہر لَحظہ و ہر آن سُنتا رہتا ھے اور اللہ تعالٰی کے اِن بیشمار جہانوں کی اِن بیشمار مخلوقات میں جہاں جہاں پر جس جس مخلوق کے جو جو حالات ہوتے ہیں وہ اُن سارے حالات کو بھی ہر لَحظہ و ہر آن دیکھتا رہتا ھے اور قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں تیسرا ضابطہ یہ بیان کیا گیا ھے کہ اللہ تعالٰی چونکہ اپنی ساری مخلوقات کے سارے مکالمات ، اپنی ساری مخلوقات کے سارے حالات اور اپنی ساری مخلوقات کے سارے جانی و بدنی اور اپنی ساری مخلوقات کی ساری قلبی و رُوحانی ضروریات کو جانتا ھے اِس لیۓ وہ اپنے ہر ایک جہان کی ہر ایک مخلوقِ جہان کی ھدایت کے لیۓ کبھی اپنے فرشتوں میں سے فرشتوں اور انسانوں کے لیۓ اور کبھی صرف انسانوں میں سے انسانوں کے لیۓ اپنے ھادی مُنتخب کرتا ھے اور وہ اپنے جس جہان میں جب تک اپنے جس ھادی کو مامُور کرنا چاہتا ھے اُس کو مامُور کر دیتا ھے اور جس جہان سے جب اپنے جس ھادی کو معزول کرنا چاہتا ھے اُس کو معزول کر دیتا ھے ، یہ بات ھم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ عُلماۓ روایت کی فکری پرواز چونکہ قُرآن و دینِ قُرآن اور نبوتِ قُرآن کے بجاۓ روایات و دینِ روایات اور اپنی روایتی امامت ھے اِس لیۓ وہ تو اِن اٰیات میں آنے والے صیغے "یصطفی" کو مُؤثر علی الماضی بنا کر خاموشی کے ساتھ گزر گۓ ہیں لیکن مُنکرینِ قُرآن و مُنکرینِ نبوتِ قُرآن نے اِس اٰیت میں وارد ہونے والے اِس صیغہِ "یصطفی" سے یہ سوال اُٹھایا ھے کہ یہ فعل مضارع کا صیغہ ھے جو حال اور مُستقبل دونوں کا معنٰی دیتا ھے اور جس کا مطلب یہ ھے کہ اللہ تعالٰی جس طرح ماضی میں اہلِ زمین میں اپنے رسُول بہیجتا رہا ھے اسی طرح مُستقبل میں بھی اہلِ زمین کی طرف اپنے رسُول بہیجتا رھے گا ، مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالٰی کے اُن پہلے رسُولوں سے تو ھم واقف ہو چکے ہیں جو ھمارے ماضی میں اہلِ زمین کے پاس آچکے ہیں اور اَب ہمیں اللہ تعالٰی کے اُن رسولوں کا انتظار ھے جنہوں نے ھمارے مُستقبل میں اہلِ زمین کے پاس آنا ھے ، اِن لوگوں نے چلتے چلتے مضارع کا یہ صیغہ تو ضرور تلاش کر لیا ھے اور عُلماۓ روایت کا یہ قاعدہ بھی دریافت کر لیا ھے کہ مضارع کا صیغہ حال اور مُستقبل دونوں کی نمائندگی کرتا ھے لیکن وہ قُدرت کا یہ قاعدہ بُھول گۓ ہیں کہ قُدرت کے اِس عالَم میں ہر چیز کی ایک طبعی عُمر ہوتی ھے اور جب تک جس چیز کی وہ طبعی عُمر قائم رہتی ھے تب تک اُس کی عُمر کے یہ حال و مُستقبل مُؤثر علی الحال رہتے ہیں لیکن جب اُس چیز کی وہ طبعی عُمر پُوری ہو جاتی ھے تو اُس کے بعد اُس کے زمان و مکان میں اُس کے لیۓ آۓ ہوۓ اَحکام کی عملی صورت بدل جاتی ھے ، آدم عیہ السلام جس زمانے میں اہلِ زمین کے نبی بناۓ گۓ تھے اُس زمانے میں اہلِ زمین کا جو ایک دین تھا ادریس و نُو ح ، ہُود و صالح ، ابراھیم و لُوط ، اسماعیل و اِسحاق ، یعقوب و یُوسف ، اَیُوب و شعیب ، موسٰی و ھارون اور مسیح و محمد علیہ السلام کے زمانے میں بھی اہلِ زمین کا وہی ایک دین تھا لیکن اِن کے زمان و مکان اور اُن کے اہلِ زمین کے زمان و مکان کے حال و مُستقبل ہمیشہ ہی بدلتے رھے ہیں اور فطرت کے اسی فطری اصول کے مطابق سیدنا محمد علیہ السلام اپنی نبوت کے زمان و مکان میں جس نبوت و علمِ نبوت کے مُعلّم تھے اَب اُس نبوت و علمِ نبوت کا مُعلّم قُرآن ھے اور ماضی میں جس منصبِ نبوت و رسالت پر اَنبیاۓ کرام مامُور ہوا کرتے تھے اَب اُس منصبِ نبوت و رسالت پر قُرآنِ کریم کے اَحکامِ نازلہ مامُور ہیں اور قیامت تک قُرآن کے اَحکامِ نازلہ ہی مامُور رہیں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557952 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More