قرآن مجید کی بعض آیات کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے
گویا آج نازل ہورہی ہیں ۔ مثلاًارشاد ربانی ہے:’’بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی
ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس
کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ)
لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے
جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا)
پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے لئے ان کے وہ اعمال (ان
کی نظروں میں) خوش نما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں‘‘۔ فی
زمانہ اقتدار کے نشے میں دھت گمراہی کے تاریکی میں بگ ٹٹ دوڑنے والے اربابِ
اقتدار پر یہ آیت من و عن صادق آتی ہے۔ ان خود پسند حکمرانوں کو ان کی ہر
بدعملی نہایت خوشنما دکھائی دیتی ہے اور ذرائع ابلاغ اسے خوب سے خوب تر بنا
کر پیش کرتا رہتا ہے۔
عالمی سطح پر فتنہ و فسادکے برپا ہونے کی وجہ قرآن کریم میں یہ ہے کہ :’’
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وڈیروں (اور رئیسوں) کو وہاں کے جرائم کا
سرغنہ بنایا تاکہ وہ اس (بستی) میں مکاریاں کریں، اور وہ (حقیقت میں) اپنی
جانوں کے سوا کسی (اور) سے فریب نہیں کر رہے اور وہ (اس کے انجامِ بد کا)
شعور نہیں رکھتے‘‘۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت کے بعد ارشاد ربانی ہے:’’ پھر بنی
اسرائیل (مسیح کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے جواب میں اللہ نے بھی اپنی
خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘۔ اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں بھی اسی کا تسلسل ہے۔ اس بابت حضرت عیسیٰؑ
اور ان کے حواریوں کو کامیابی اور بالادستی کی بشارت دینے کے بعدیہ وارننگ
بھی موجود ہے کہ :’’ جن لوگوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کی ہے انہیں
دنیا اور آخرت دونوں میں سخت سزا دوں گا اور وہ کوئی مددگار نہ پائیں گے‘‘۔
یہاں پر اخرت کے ساتھ دنیوی سزا کا بھی ذکر ہے۔
مشیت ایزدی سے بے نیا ز خوابِ غفلت میں مبتلامستکبرین کی کیفیت یوں بیان کی
گئی ہے کہ : ’’ پھر کیا وہ لوگ جو (دعوت پیغمبر کی مخالفت میں) بدتر سے
بدتر چالیں چل رہے ہیں اِس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان
کو زمین میں دھنسا دے، یا ایسے گوشے میں ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے
آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو‘‘۔ اس خیال کا تصور محال تھا کہ اتر
پردیش میں بی جے پی خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گی ۔ جس رام مندر کی بدولت
انتخاب جیتنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں وہ ان کی بدنامی کا سبب بن جائے گا؟
یعنی جہاں سے کسی مصیبت کا وہم و گمان تک نہیں تھا وہیں سے آفت آن پڑے گی
۔ ایک اور کیفیت یوں بیان ہوئی ہے کہ ’’یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے،
یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا
ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں؟‘‘ مغربی بنگال میں یہ ہوا
کہ مکل رائے کے جانے کا اندیشہ لگ گیا تھا ۔ اس کو منانے کے لیے وزیر اعظم
نے فون پر اہلیہ کی عیادت بھی کی لیکن کچھ کام نہ آیا ۔ مکل رائے اب مزید
24ارکان اسمبلی کے آ گے چارہ ڈال رہا ہے مگر مرکزی حکومت بے یارو مددگار
ہے ۔ ارشاد حق ہے:’’ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اس کو عاجز کرنے کی
طاقت نہیں رکھتے۰۰۰‘‘
حضرت صالح ؑ کے زمانے میں :’’اُس شہر کے اندر نو جتھے دار تھے جو ملک میں
فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے‘‘۔انہوں نے وقت کے نبی کو
شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تو ارشاد ہوا:’’ یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک
چال ہم نے چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی ۔ اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام
کیا ہوا؟ ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا اُن کو اور پوری قوم کو، اُن کے گھر اُس
ظلم کی پاداش میں خالی پڑے ہیں جو وہ کرتے تھے‘‘ موجودہ حکمراں بھی اگر ظلم
وجبر سے باز نہ ا ٓئیں تو اللہ کی کتاب خبردار کرتی ہے:’’ اس میں ایک نشان
عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں‘‘۔ اب بھی توبہ و استغفار
کادرکھلا ہے کہ شامل ہوجائیں ان میں جنہیں بشارت دی گئی ہے : ’’اور بچا لیا
اُن لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے ‘‘۔
|