جب سے کرونا حملہ آور ہوا ہے کوئی چیز ہمارے ملک میں اگر
اس حملے سے مکمل پسپا ہوئی ہے تو وہ ہے ہمارا نظام تعلیم۔دو سالوں میں ہم
نے جو نسل تیار کی ہے ان سے بات کریں تو وہ لوگ آج بہت خوش ہیں کہ تعلیم کی
اس لوٹ سیل کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور کسی بھی کوشش بلکہ کسی
بھی ہلکی سی سعی کے بغیر ڈگریاں ،سرٹیفیکیٹ اور ڈپلومے گھر بیٹھے مزے سے
وصول پائے ہیں۔ طالب علم سمجھتے ہیں کہ اس لوٹ سیل کے رو ح رواں آج کے وزیر
تعلیم جناب شفقت محمود ہیں۔ انہوں نے کرونا کے ڈر سے وہ عظیم پالیسی ترتیب
دی کہ طلبا کی خوب موجیں ہو گئیں۔کبھی کبھار کسی کالج یا کسی تعلیمی ادارے
میں چند طلبا اگر اکٹھے ہو جائیں تو نعرے لگاتے ہیں، جب تک سورج چاند رہے
گا شفقت تیرا نام رہے گا۔یقیناً رہے گا مگر اس نام کے گرد جو کالے رنگ کا
ہالا ہو گا وہ شاید ساری قوم کے لئے شرمندگی کا باعث ہو۔ہمارے ملک میں
سمارٹ لاک ڈاؤن تھا۔ کاروبار اور زندگی کے امور کسی نہ کسی طرح چل رہے تھے
مگر تعلیمی ادارے مکمل بند تھے۔ برطانیہ اور مغربی ممالک میں مکمل لاک ڈاؤن
تھا مگر ان کے تعلیمی ادارے کسی نہ کسی طرح اپنا نظام جاری و ساری رکھے
تھے۔کرونا کے اس ابتلا کے دور کو بہت جلد ختم ہونا اور زیست کے اس کارواں
کو بہر حال چلنا ہے اس لئے کہ زندگی کا سفر کبھی رکتا نہیں ، ہزار مشکلوں
کے بعد بھی یہ رواں دواں رہتا ہے۔ مگر کل جب کہیں ہمارے ان طالب علموں کو
فیلڈ میں خود کو مقابلے کے لئے پیش ہونا ہو گا تو یہ مکمل کورے ہونے کے سبب
ہر میدان میں مات قرار پائیں گے۔ہمارا یہ نظام تعلیم جو آج فرسودگی کی حدوں
کو چھو رہا ہے۔ مکمل گرنے کے لئے جناب شفقت صاحب کی ایک شفقت کا محتاج ہے۔
جناب وزیر تعلیم صاحب!اگر آپ تعلیم کے ساتھ کچھ بھلائی نہیں کر سکتے تو
تعلیم کی اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک ہلکا سا دھکا لگا دیں کہ جسے کل ڈوبنا
ہے اس کے ڈوبنے میں تاخیر کیسی۔
سرکار کی ان غلط پالیسیوں کا تعلیمی اداروں نے بھرپور فائدہ اٹھایاہے۔
پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے ایک ہی ہلے میں سٹاف آدھے سے بھی کم کر دیاہے۔ان
اداروں میں کسی کلاس کے اگر دس سیکشن تھے اور انہیں دس مختلف استاد پڑھا
رہے تھے،وہاں اب ایک استاد آن لائن لیکچر ریکارڈ کرا رہا ہے،ساری کلاسیں
اسی لیکچر پر گزارا کر رہی ہیں۔ پندرہ دن بعد ایک آن لائن انٹر ایکشن ہر
کلاس کے طلبا کی ضروریات پوری کر دیتا ہے۔دس اساتذہ کی ضرورت ایک دو استاد
پوری کر دیتے ہیں۔ باقی استاد فارغ کر دئیے گئے ہیں ۔ان اداروں کے طلبا کو
بھی امتحان سے کچھ لگاؤ نہیں ہوتا۔ انہیں پیسے دے کر ڈگری لینے سے غرض ہوتی
ہے اور ادارے ، تو انہیں پیسوں سے غرض ہوتی ہے ۔ یہ ادارے ڈگریاں تو وہ
پہلے بھی بیچتے تھے اب بیچنا آسان اور زیادہ منافع ٍبخش ہو گیا ہے۔کرونا کا
دباؤ اس قدر ہے کہ حکومت کسی کو چیک کرنے کا سوچتی بھی نہیں۔سوچے بھی تو
چیک تو انسانوں نے ہی کرنا ہے اور انسانوں کے ساتھ باہمی تعاون اور جوڑ توڑ
کا فن تو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا خاصہ ہے۔ چیکنگ کے آرڈرز سے کچھ نہیں
ہو گا سوائے چند آدمیوں کا روزگاروسیع ہونے کے۔
چھوٹے پرائیویٹ تعلیمی ادارے البتہ انتہائی مشکل کا شکار ہیں ۔ انہیں اپنا
وجود برقرار رکھنا دشوار ہو رہا ہے۔ ان اداروں میں پڑھنے والے بچوں کا تعلق
لوئر کلاس یا لوئر مڈل کلاس سے ہوتا ہے۔ان کے والدین موجودہ حالات میں ایک
تو مالی مسائل کا شکار رہے، دوسرا کم مالی وسائل کے سبب وہ ان دنوں، جب بچہ
سکول جا ہی نہیں رہا ہوتا ، وہ فیس دینا نہیں چاہتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب
کلاسیں شروع ہونگی، بچے کو کسی دوسرے پرائیویٹ سکول میں داخلہ لے دیں
گے۔والدین کے اسی رویے کے سبب چھوٹے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور ان میں کام
کرنے والے اساتذہ مسلسل مشکل کا شکار ہیں اور موجودہ حالات میں جب حکومت نے
بہت سے لوگوں اور اداروں کے بارے سوچا اور ان کی مدد بھی کی۔ ان مظلوموں کی
بد قسمتی کا یہ عالم ہے کہ نہ توکسی کوان کا کوئی خیال آیا اور نہ ہی یہ
چھوٹے ادارے حکومت کی کوئی مدد یا توجہ حاصل کر پائے۔ بہت سے تو بلڈنگ کے
کرائے اور اساتذہ کی تنخواہ نہ دینے کے سبب بند ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات کہ
ایسے تعلیمی ادارے پڑھانا چاہتے اور ان کے طلبا پڑھنا چاہتے ہیں مگر کوئی
سنتا ہی نہیں۔
سرکاری یونیورسٹیاں نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے انتہائی زبوں حالی کا شکار
ہیں۔ حکومت کا پہلا فیصلہ تھا کہ یونیورسٹیوں میں فقط ریسرچ ہو گی۔ یہ ایک
غلط فیصلہ تھا مگر جناب عطاالرحمن کی سرکردگی میں پی ایچ ڈی مافیہ نے پہلے
تو خوب بغلیں بجائیں اور پھر ایک ایک کرکے یونیورسٹیوں سے تمام قابل ،
محنتی اوراچھے اساتذہ کوباقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یونیورسٹیوں
سے فارغ کر دیا کہ یہ اساتذہ ریسرچ نہیں کرا سکتے حالانکہ وہ لوگ پی اٰیچ
ڈی کے طلبا کو بھی بہترین انداز میں گائڈ کر رہے تھے۔کسی زمانے میں پروفیسر
ہونا ایک بہت بڑی بات تھی اور پی ایچ ڈی ہونا بڑی معمولی۔اب تو کاغذی دور
ہے جس میں فقط کاغذ کی قیمت ہے چاہے کسی۔۔۔ کے ہاتھ میں ہو۔ہمارے نام نہاد
پالیسی سازوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں تجربے کا کچھ متبادل نہیں۔
لیکن وہ خود بھی نا تجربہ کار ہیں ایسی حماقتیں تو ہوں گی۔اب یونیورسٹیوں
میں خالص ریسرچر بھرتی ہو رہے ہیں جن سے پندرہ منٹ کی گفتگوان کی علمیت کو
عیاں کر دیتی ہے۔ نئے بھرتی بھی حوالوں کی محتاج ہے۔ سب نئے بھرتی ہونے
والے بھی انہی ریسرچرزکے بیٹے، بیٹی، بہو، داماد یا عزیز ہوتے ہیں۔نالائقوں
کا اک جم غفیر یونیورسٹیوں کا رکھوالا ہے، قوم کا کیا بنے گا کوئی نہیں
سوچتا۔ دوسری غلطی جو حکومتی سطح پر پالیسی سازوں نے کی وہ اساتذہ کو ختم
کرنے کے بعد یونیورسٹیوں میں بی ایس کلاسوں کا اجرا ہے۔ اگر چند جز وقتی
اساتذہ نہ ہوں تو عملاً پڑھانے کے معاملے میں یونیورسٹیاں مکمل فارغ ہیں۔اس
ساری صورت حال کی ذمہ داری وزیر تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ امید ہے وہ اس بارے
کچھ غور و فکر کریں گے کہ آج کے حالات میں پوری قوم ان کی شفقت کی منتظر
ہے۔
تنویر صادق
|