مولانا عمر گوتم کی گرفتاری کے بہانے اسلام کی دعوت نشانے
پر ہے۔ رسول اکرم ﷺ نہایت دلسوزی کے ساتھ اسلام کی دعوت دیتے تو نہ صرف
انکار بلکہ مذاق اڑایا جاتا اور اس کے خلاف ریشہ دوانیاں کی جاتیں ۔ یہ
رویہ آپ ﷺ کو غمگین کردیتا ایسے میں ڈھارس بندھانے والا ارشادِ ربانی ہے
:’’ اے نبیؐ، اِن کے حال پر رنج نہ کرو اور نہ اِن کی چالوں پر دل تنگ ہو‘‘۔
معلوم ہوا دشمنان اسلام کی سازشوں سے مومنین کا دل تنگ ہوسکتا ہے لیکن اس
سے بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اس لیے کہ دعوت دین کا کام جاری رکھنے کے
لیے یہ ضروری ہے۔ قرآن حکیم میں منکرین اسلام کی نفسیات اس طرح بیان کی
گئی ہے کہ :’’لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزا
چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر
دیتے ہیں ان سے کہو ’اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے
تمہاری سب مکّاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں ‘‘۔
آگے بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر تے ہوئے یکایک بادِ مخالف ، موجوں
کے تھپیڑوں اورطوفان میں گھرجانے پر کی جانے والی دعا کا ذکر اس طرح ہےکہ:
’’ اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دُعائیں مانگتے
ہیں کہ ’اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے‘۔
مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں
بغاوت کرنے لگتے ہیں ‘‘۔ اس رویہ کی بابت منکرین حق کو خبردار کیا گیا ہے
کہ :’’لوگو، تمہاری یہ بغاوت اُلٹی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے دنیا کے چند
روزہ مزے ہیں (لُوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت ہم
تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو ‘‘۔ قرآن حکیم میں منکرین حق
کی حاضری کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ : ’’اے محمدؐ، اُس دن سے تم
اِنہیں ڈراؤ جبکہ عذاب اِنہیں آلے گا اُس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ "اے ہمارے
رب، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے، ہم تیری دعوت کو لبیک کہیں گے اور
رسولوں کی پیروی کریں گے‘‘۔ مہلت عمل گزر جانے کے بعد یہ پشیمانی بے سود
ہوگی۔
یوم الحساب کے دن :’’(انہیں یہ جواب دے دیا جائے گا) کیا تم وہی لوگ نہیں
ہو جو اِس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی
نہیں ہے؟ حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے
اوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا سلوک کیا اور
اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے ۔ انہوں نے اپنی ساری
ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن
کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں ‘‘۔ اس آیت سے پتہ
چلتا ہے ظالموں اور جابروں کی یہ خطرناک چالبازیاں نئی نہیں ہیں لیکن یہ
بشارت بھی ہے کہ :’’ آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ اپنے نبیوں سے وعده
خلافی کرے گا، اللہ بڑا ہی غالب اور بدلہ لینے واﻻ ہے‘‘۔
دعوت دین کی راہ میں مومنین بھی ان مراحل سے گزریں گے جن سے انبیائے کرام
گزرے ارشادِ حق ہے :’’ اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین
نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا
رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں
سے بھی پورا واقف ہے اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں
پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بےشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے۔ آپ
صبر کریں بغیر توفیق الٰہی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر
رنجیده نہ ہوں اور جو مکر وفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں‘‘۔
پھر چالبازیوں پر تنگ دلی سے بچنے کی تلقین اور بشارت :’’یقین مانو کہ اللہ
تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے‘‘۔
|