زندگی کا مشن ہی تبدیل ہو گیا

سکول اور کالج میں گزرے دن انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر یاد آتے ہیں ، زندگی کے کسی بھی موڑ پر جیسے ہی کوئی ساتھی ملتا ہے لڑکپن کے وہ قصے یاد آتے ہیں راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ انسان کے کلاس فیلو حقیقی زندگی میں سب سے زیادہ سپورٹ کرتے ہیں یہ دنیا کا واحد رشتہ ہے جس میں دوسرے دوست کو دیکھ کر جیلسی نہیں بلکہ خوشی ہوتی ہے، ہر طالبعلم کے والدین کی اپنے بچے سے بہت سی توقعات ہوتی ہیں،ان کو پورا کرنے کے لیے بچے بھی بڑی کوشش کرتے ہیں اور والدین بھی لیکن انسان کی زندگی میں ایسے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں جو انسان کی ساری منصوبہ بندی ہی تبدیل کردیتے ہیں لیکن ایمان کا تقاضاہے کہ جو بھی ہوتا ہے اس میں اﷲ کی ذات کی کوئی بہتری ضرور ہوتی ہے اﷲ کی ذات نے ہر انسان سے جو کام لینا ہوتا ہے اس کی حکمت کو اﷲ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے ،20سال قبل گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول اوکاڑہ کا شمار ضلع کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہو تا تھا جہاں سے پڑھ لکھ کر طالب علموں نے مختلف شعبہ زندگی میں اپنا لوہا منوایا بڑے بھائی مرزا شاہد حسین نے گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول سے میٹرک کیا تھا اسی وجہ سے مجھے بھی اسی سکول میں داخل کروایا گیا ۔ جب ہم جماعت ہفتم میں ہوئے تو ہمارے گروپ کا شمار پڑھنے والے طلباء میں ہوتا تھا۔کلاس میں موٹا سفید چشمہ پہنے والا طالب علم جس کا نام افضل تھا اس کے ہمیشہ ہر ٹیسٹ میں نمبر تو مشکل سے ہی آتے تھے لیکن وہ ہر طالبعلم کو تنگ کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا، ان دنوں سٹیج ڈراموں کا بڑا عروج تھا وہ کسی اداکار کی طرح جگت بازی کرتاپوری کلاس کو تنگ کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی نہ پڑھتا تھا نہ وہ دوسروں کو پڑنے دیتا تھا اگر کوئی لڑکا اس کے ساتھ لڑائی کرتا تو میٹرک میں پڑھنے والے اپنے دوستوں کو بلاکر کلا س کے طلباء پر تشدد کرواتا اس لیے سب خاموش ہوجاتے ایک دن جب کلاس انچارج لیاقت صاحب چھٹی پر تھے تو اس نے تنگ کرنے کی حد ہی کردی جس پر میرے ساتھ زبیر مغل اور فضل بٹ نے اس کی خوب مرمت کی اور مکمل طور پر اس کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا ماضی کی طرح جب اس کے میٹرک میں پڑھنے والے دوست ہم کو مارنے کے لیے آئے تو ہم نے ان طالبعلموں کو میدان چھوڑ کر فرارہونے پر مجبور کر دیا ، اس لڑائی نے ہم کو لڑائی جھگڑے کے ایسے مسائل میں دھکیل دیا جس کی وجہ سے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا ،نہم جماعت میں ہم نے سائنس گروپ کا انتخاب کیا اس وقت تک طالبعلموں کوجبری ٹیوشن پڑھانا عام ہو چکا تھا، سکول کے بہت سے سینئر اساتذہ جبری ٹیوشن پڑھانا اپنا حق سمجھنے لگے تھے ، ان اساتذہ کے پاس ٹیوشن نہ پڑھنے والے طلباء کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا استاد ہر روز ایسے طریقے استعمال کرتے تھے کہ طلباء ٹیویشن پڑھنے پر مجبور ہو جائے۔کیونکہ ہم سکول کا کام پوری ایمانداری سے کرتے تھے اس لیے ہم اس سے ہمیشہ بچ جاتے تھے لیکن اگر کوئی سزا ملتی بھی تو اس کو استاد کا حق سمجھ کر بھول جاتے تھے ،اسی طرح وقت گزرتا رہا گرمی کی چھٹیاں ہوگئیں ہوم ورک ملا وہ مکمل کرلیا سکول کھلے تو اگلے ہی ہفتہ میں ستمبر ٹیسٹ شروع ہوگے ریاضی اور مطالعہ پاکستان کی تیاری دوسرے مضامین کے مقابلہ میں بہتر تھی اس لیے ہمیشہ ریاضی میں میرے پورے پورے نمبرہی ہوتے تھے ۔ ریاضی کا پرچہ کل 5 سوالوں پر مشتمل تھا مجھے یقین تھا کہ میرے تمام تر سوالات درست ہیں لیکن جب پرچہ واپس ملا تو50نمبروں والے تمام پرچہ جات تقسیم ہوگے، 40اور30والے بھی تقسیم ہو گے اب میں پریشان تھا کہ میرا پیپر گم ہوگیا ہے میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ میرا پرچہ ہی گم ہو گیا ہو ٹیچر جس کا نام میں اب بھی اس لیے نہیں لکھ رہا کہ یہ اس کا ذاتی فعل تھا لیکن پھر بھی معاشرے میں وہ ایک استاد کی پہچان رکھتا ہے اس کو اپنے شاگردوں اور اولاد کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے20 اور 10 نمبروں والے طلباء جب مارکھاچکے تو مجھے پکا یقین ہوگیا کہ میرا پرچہ گم ہوگیا ہے لیکن جب صفر والے پرچے شروع ہوئے تو پہلا پرچہ ہی میرا تھا لیکن جب میں سزا کے لیے نکلا تو میں نے استاد سے کہا کہ میرے پرچہ کے تمام سوالات درست ہیں لیکن اس نے جواب دیا کہ سوال تو ٹھیک ہیں میں مختلف طریقے سے کرواتا ہو ں اور تم نے کتاب والے طریقہ سے کیئے ہوئے ہیں اس وقت تک حق پرستی کا جذبہ مکمل طور پر آچکا تھا جس وجہ سے اپنے اور مظلوم افراد کے حقوق کی آواز کو بلند کر نا اپنا فرض سمجھتا تھا جس وجہ سے میں نے یہ زیادتی برداشت کرنے سے انکار کردیا اس نظام کے خلاف اعلان بغاوت کردیا کیونکہ اس نظام کی سرپرستی میں محکمہ تعلیم کے بڑے بھی شامل تھے اس وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن وقتی طور پر جیت ہما رے ہی حصہ میں آئی تمام تر سکولوں میں لکھ کر لگا دیا گیا کہ کوئی سرکاری ٹیچر اپنی کلاس کے طلباء کو ٹیویشن نہیں پڑھائے گا اس نظام کے خلاف تاریخ میں پہلی اور آخری بار سکول کی سطح پر آئی ایس ایف کی تنظیم سازی ہوئی حق وسچ کی اس جنگ میں جھوٹے مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔گورنمنٹ کالج اوکاڑہ میں بھی تنظیم کے چکر میں رہے جس وجہ سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اپنی ڈگری مکمل کی لیکن آنکھوں کے سامنے کئی ساتھی اس نظام کی نظر ہوگے ، دو واقعات نے زندگی کے سارے مشن کو ہی تبدیل کردیا اﷲ کی ذات کا بہت شکرہے کہ بے پناہ عزت سے نوازا ہے لیکن جو اس نظام کی نظر ہوئے ان کے مجرم نظام کو خراب کرنے والے ایسے اساتذہ بھی ہیں اور افضل جیسے طالب علم بھی ہیں ۔
 

Abid Hussain Mughal
About the Author: Abid Hussain Mughal Read More Articles by Abid Hussain Mughal: 15 Articles with 11985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.