ٹیگ بال پر ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں کی اجارہ داری
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کھیل کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہئے نہ ہی اسے مخصوص لوگوں تک محدود رکھنا چاہئیے کیونکہ کھیل انسانی صحت کیساتھ ساتھ مثبت سرگرمیوں کے فروغ کیلئے اہم ہے لیکن ٹیگ بال کے کھیل کو محدود رکھا جارہا ہے ' کیوں اس کی وجہ کیا ہے ' یہ وہ سوال ہے کہ جو کھیلوں کے سنجیدہ حلقے پوچھ رہے ہیں اور اس سوال کو وزیراعلی خیبر پختونخواہ جو کھیلوں کی وزارت کے نگران وزیر بھی ہیں سمیت سیکرٹری سپورٹس اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کو بھی پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کھیلوں کی دنیا میں بڑے دھوم دھام سے آنیوالے اس نئے کھیل پر خاموشی اور یکسانیت کیوں چھائی ہوئی ہیں.یکسانیت اس لحاظ سے کہ اگر کل کلاں ٹیبل ٹینس اور ٹیگ بال کے ایک ہی جگہ پر ایک ہی تاریخ میں ہونگے تو پھر ٹیبل ٹینس کے کھلاڑی جو اس وقت ٹیگ بال کھیل رہے ہیں وہ کونسے کھیل کے مقابلوں کو ترجیح دینگے اور کونسا کھیل کھیلیں گے |
|
بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ دو کشتیوں پر سواری کبھی نہیں کرنی چاہئیے کیونکہ دو کشتیوں کے سوار ہمیشہ ڈوب جاتے ہیں. سننے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن عملی زندگی میں دو کشتیوں کے سوار ہمیشہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں . ہمارے ایک سینئر ہیں وہ جب کسی سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کی بات بھی ٹھیک ہے تاہم ان کے مخالف کو بھی یہی بیان دیتے ہیں کہ دوسرے کی بات بھی غلط نہیں ہے. اور وہ ماشاء اللہ کامیاب ہیں. اسے سیاست کہئیے منافقت کہئیے یا کچھ اور لیکن اس کاروبار زندگی میں سب کو خوش رکھنا بہت مشکل ہے ہاں منافقت کرکے بہت سارے لوگو ں کو خوش کیا جاسکتا ہے لیکن.. یہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک قول یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے منافقت کے حوالے سے کہا تھا کہ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوگا. سو بہت سارے دوستوں کو یہ باتیں بھی بری لگیں گی لیکن سچ یہی ہے کہ ہم سے اس عمر میں منافقت ہو بھی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی سچ کے ننگے الفاظ کوہم پمپر پہنانے کے عادی ہیں. کیونکہ ننگا سچ سب سے برداشت نہیں ہوتا اور پمپر میں سچ تو چھپ جاتا ہے لیکن پھر اس کی بدبو دور تک پہنچتی ہے اس لئے بروقت ننگا سچ ہی بہتر ہے. ننگا سچ تو یہ ہے کہ کھیلوں کی دنیا میں آنیوالا بین الاقوامی کھیل ٹیگ بال کم و بیش چھ ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ملک تو کیا خیبر پختونخواہ میں بھی صحیح طریقے سے متعارف ہی نہیں ہوسکا . اس کی وجہ کرونا کی بیماری بھی ہے لیکن ایک حد تک ہے کیا دوسرے کھیل صوبے میں کھیل نہیں جارہے ' تو جواب بھی مثبت میں آتا ہے تو پھر ٹیگ بال کا بین الاقوامی کھیل جس کی ایک ٹیبل کی قیمت پاکستانی روپے میں چھ لاکھ روپے بنتی ہے کیوں صرف پشاور سپورٹس کمپلیکس تک محدود ہو کر رہ گیا ہے .کسی بھی کھیل کو متعارف اور مشہور کرنے میں کھلاڑیوں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے ٹھیک ہے کہ ٹیگ بال کا کھیل بین الاقوامی کھلاڑی کھیلتے ہیں لیکن یہاں پاکستان میں ان بین الاقوامی کھلاڑیوں کو صرف چند شہروں کے ایلیٹ کلاس کے لوگوں کے علاوہ کون جانتا ہے. کوئی نہیں. ٹیگ بال کو پاکستان میں متعارف کرانے کیلئے عجیب و غریب کھیل شروع کیا گیا پہلے کھیل ہوتا ہے ' کھلاڑی دیکھے جاتے ہیں ' ان کی پرفارمنس دیکھی جاتی ہیں لیکن اس کھیل کو پاکستان میں متعارف ہوئے عرصہ گزر گیالیکن کھلاڑی تو نہیں آسکے البتہ فیڈریشن بن گئی اور فیڈریشن بھی بین الاقوامی امداد سے بن گئی ہیں اور یہ فیڈریشن بھی پشاور تک محدود ہے.اب ایسوسی ایشنز بنائی جارہی ہیں. جو کہ الٹ ہورہا ہے. کھلاڑی ابھی تک اس کھیل کے نہیں پیدا کئے جاسکے ' نہ ہی نئے کھلاڑی آئے .وجہ یہ ہے کہ فیڈریشن بھی ان لوگوں کو دی گئی جنہوں نے امریکہ کے مخصوص سکالرشپ کے پروگرام میں شرکت کی تھی اور پھر سفارت خانوں کے مخصوص لوگوں نے مخصوص لوگوں کو ہی منتخب کرکے فیڈریشن بنانے کی اجازت دیدی ' خوش آئند بات یہ ہے کہ ٹیگ بال کی فیڈریشن نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن ان نوجوانوں کی کارکردگی بھی دوسروں کی طرح بیانات اور چند مخصوص جگہوں کی تصاویر شیئر کرنے تک ہی محدود ہے. ٹیگ بال بنیادی طور پر فٹ بال سے ملتا جلتا کھیل ہے تاہم یہاں پشاور میں کھیلے جانیوالے اس کھیل پر ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں کا قبضہ ہے جنکی صبح کے سیشن ٹیبل ٹینس کھیلتے ہوئے گزرتی ہیں تو پھر شام کے اوقات میں وہ ٹیگ بال کھیلتے نظر آتے ہیں.اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ٹیبل ٹینس میں ٹاپ پوزیشن ہولڈر کھلاڑی بھی اسی ٹیگ بال کے کھلاڑی ہیں. اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانچ سو یورو مہینہ امداد لینے والی فیڈریشن نے ابھی تک صوبے کے کس حصے میں کسی سکول میں ' کسی کالج میں کسی یونیورسٹی میں ٹیگ بال کے حوالے سے کوئی پریذینٹیشن کی ہیں ' کوئی تربیتی سیشن کیا ہو تو جواب نفی میں ہی آتا ہے ' ان چند ماہ کی کھیلوں کی کارکردگی بس اتنی سی ہے کہ ٹیبل ٹینس کے کھلاڑی صبح ٹیبل ٹینس کھیلتے ہیں اور شام کو ٹیگ بال ' کیا دوسرے لوگوں کو اس کھیل میں نہیں لیا جاسکتا ' کیا ان کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہوتا ' ہاں چند مخصوص سکول جہاں پر فیڈریشن کے عہدیداروں کی رسائی ہے اس کے علاوہ ٹیگ بال کی کوئی کارکردگی کہیں پر نظر نہیں آتی ' لیکن اگر کارکردگی نظر آتی ہے تو پھر اخبارات میں بڑے بڑے تصاویر کے ذریعے ہی نظر آتی ہے جسکی کٹنگ کرکے سفارت خانوں تک پہنچانے کا اعلی انتظام موجود ہے جس کی بنیاد پر غیر سرکاری تنظیم بہت کچھ لیتی ہے . کھیل کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہئے نہ ہی اسے مخصوص لوگوں تک محدود رکھنا چاہئیے کیونکہ کھیل انسانی صحت کیساتھ ساتھ مثبت سرگرمیوں کے فروغ کیلئے اہم ہے لیکن ٹیگ بال کے کھیل کو محدود رکھا جارہا ہے ' کیوں اس کی وجہ کیا ہے ' یہ وہ سوال ہے کہ جو کھیلوں کے سنجیدہ حلقے پوچھ رہے ہیں اور اس سوال کو وزیراعلی خیبر پختونخواہ جو کھیلوں کی وزارت کے نگران وزیر بھی ہیں سمیت سیکرٹری سپورٹس اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کو بھی پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کھیلوں کی دنیا میں بڑے دھوم دھام سے آنیوالے اس نئے کھیل پر خاموشی اور یکسانیت کیوں چھائی ہوئی ہیں.یکسانیت اس لحاظ سے کہ اگر کل کلاں ٹیبل ٹینس اور ٹیگ بال کے ایک ہی جگہ پر ایک ہی تاریخ میں ہونگے تو پھر ٹیبل ٹینس کے کھلاڑی جو اس وقت ٹیگ بال کھیل رہے ہیں وہ کونسے کھیل کے مقابلوں کو ترجیح دینگے اور کونسا کھیل کھیلیں گے .اور کیا یہ کھیل صرف چند لوگوں کیلئے ہے اسکے ٹیبل کو پشاور سپورٹس کمپلیکس کے بجائے شاہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم میں کیوں نہیں لایا جاتا ' جہاں پر کھیلوں کے شوقین بھی بہت ہیں اور غریب لوگ کھیلوں کی طرف ویسے بھی زیادہ آتے ہیں بہ نسبت بابو ٹائپ لوگوں کی ' یقین نہیں آتا تو پشاور سپورٹس کمپلیکس اور حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں آنیوالے کھلاڑیوں کا موازیہ کیا جائے. پشاور سپورٹس کمپلیکس میں پروفیشنل کھلاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ ا س کے مقابلے میں حیات آباد میں آنیوالے افراد زیادہ ہے لیکن وہا ں پر آنیوالے زیادہ تر افراد اپنی صحت ' پیٹ یا ورزش کی خاطر آتے ہیں انہیں کسی بھی کھیل کو بطور پروفیشنل اپنانے کی کوئی ضرور ت نہیں ہوتی. اسی طرح پشاور کے شہری علاقے میں واقع شاہ طہماس سٹیڈیم میں آنیوالے کھلاڑیوں کی تعداد پشاور سپورٹس کمپلیکس کے مقابلے میں آنیوالوں کی تعداد کے مقابلے میں زیادہ ہے کیونکہ پشاور سپورٹس کمپلیکس کینٹ میں واقع ہے اور مخصوص لوگ وہاں جاتے ہیں جبکہ شاہ طہماس سٹیڈیم پشاور شہر میں واقع ہونے کی وجہ سے ہرطرف سے نوجوان یہاں پر زیادہ آتے ہیں. سیکرٹری سپورٹس خیبر پختونخواہ عابد مجید نے ٹیگ بال کے کھیل کیلئے آنیوالے دو ٹیبل میں ایک ٹیبل سوات تو بھیج د ی لیکن وہاں پر ٹیگ بال کے اس ٹیبل سے کیا فائدہ اٹھایا گیا ' کتنے کھلاڑی نئے آئے ' اس بارے میں خاموشی ہے' اگر ٹیگ بال کی فیڈریشن جو کہ پشاور میں ہے کی اپنے صوبے میں یہی کارکردگی ہے تو پھر ملک کے دیگر صوبوں میں کیسی کارکردگی ہوگی اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے . ویسے میم زرما ٹول زما کے بجائے اگر اس کھیل کو غیر سرکاری تنظیم / اور ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں اور کوچ کی اجارہ داری سے نکالا جائے اور اس کھیل کو سکولوں کی سطح پر متعارف کروایا جائے کیونکہ یہ کھیل ایک کمرے میں بھی کھیلا جاسکتا ہے تو امکان ہے کہ اگلے چھ ماہ میں نئے کھلاڑی بھی آئیں گے اور کھیل بھی ترقی کرپائے گا. ورنہ یہ کھیل بھی اجارہ داری نظام میںصرف بیٹھنے کی حد تک ' تقریروں کی حد تک اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں فنکشنز کی حد تک رہ جائیگا جس کی ذمہ داری نہ صرف اس کھیل کے ذمہ داروں بلکہ صوبے میں کھیلوں کی ترقی کے دعویدارحکمران اور بیوروکریسی پر عائد ہوگی.
|