پاکستان سپورٹس بورڈ ' اٹھارھویں ترمیم کے بعد رہ جانیوالا غیر قانونی سفید ہاتھی

چلیں ری نویشن تو ہوگئی ' لیکن ری نویشن کے بعد وزارت کے ذمہ داران یہ پوچھنے کی ہمت کرتے ہیں کہ کروڑوں روپے تنخواہوں ' مراعات ' ری نویشن کے نام پر خرچ ہونے کے بعد اس ادارے کی کارکردگی کیا رہی ہے ' کیا اس سے صوبوں کو کوئی فائدہ ملا ہے ' کوئی نیا کھلاڑی پیدا کیا گیا ' کیاجتنے اخراجات کئے گئے ا س کے بدلے میں صوبے کے عوام کو کچھ ملا ' یقینا جواب نفی میں ہوگاکیونکہ ا س ادارے کا بنیادی کام صرف ایک مخصوص کھیل جو کہ ایلیٹ کلاس تک ہی محدود ہے کے کھلاڑیوں اوران کے بچوں کو مراعات دینا شامل ہیںجن کی کارکردگی بھی ماشاء اللہ ہی ہے ' اور اگر کسی کو اس بارے میں شک ہے تو خود کم از کم پشاور کوچنگ اینڈ ٹریننگ سنٹر میں جا کر پتہ کریں کہ یہاں پر کس کھیل پر پی ایس بی کے افسران مہربان ہیں اور کب سے لوگ اس کھیل کے کوچنگ کے نام پر تنخواہیں لے رہے ہیں
پاکستان سپورٹس بورڈ کھیلوں کی وزارت کا واحد ادارہ ہے جو اٹھارھویں ترمیم اور صوبوں کو خو د مختاری ملنے کے باوجود ابھی تک قائم ہے اور کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا آٹھ آنے کے مصداق کام اس کے کرنے کے کچھ نہیں لیکن اخراجات اتنے ہیں کہ اس ادارے کے اخراجات سے چاروں صوبوں کے کھیلوں کے اپنی اپنی وزارتیں چل سکتی ہیں. لیکن کیا کیجئے اسٹبلشمنٹ کی اپنی بدمعاشی اور اپنوں کو ان نفع بخش اداروں میں مواقع دیکر انہیں خوش کرنے کی عادت نے ' جس نے نہ صرف پی ایس بی جیسے کئی اداروں کا بیڑہ غرق کردیا ہے. رہی سہی کسر حکمران بھی پوری کردیتے ہیں اب بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ جس وزارت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اس کی بھی الگ وزیر ہے . جس کے پروٹوکول تو الگ اس وزارت کے الگ نخرے ہیں بقول پشتو مثل کے " زور ئے کجے خر نہ شی اوڑے " ..پاکستان سپورٹس بورڈ کے پاس نہ صرف اسلام آباد میں کھیلوں کے الگ گرائونڈز ہیں بلکہ چاروں صوبوں میںجمنازیم اور الگ جگہیں قائم کی گئی ہیں اور یہ تمام جگہیں شہریوں کو کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کیلئے بنائی گئی ہیں جو کہ لیز پر لی گئی ہیں پشاور میں قائم پی ایس بی کوچنگ ٹریننگ سنٹر کا لیز تو کب کا ختم ہو چکا ہے اور نئے لیز پر خاموشی ہیں نہ توزمین دینے والے ادارے نے اس پر ابھی تک کوئی آواز اٹھائی ہیں اور نہ ہی زمین لینے والے ادارے نے اس پر بات کی ہیں اور خاموشی سے کام جاری و ساری ہے .

پی ایس بی اسلام آباد سمیت پورے ملک کے سنٹروں میں اتنے اہلکار ہیں کہ اندازہ نہیںہوتا کہ ان لوگوں کو لینے والے افراد کے پاس خوف خدا نام کی کوئی چیز بھی ہوگی کیونکہ آسامیاں تخلیق کرکے لوگوں کو رکھا گیا اب اس کی کوئی تک بنتی ہے کہ ہاسٹل میں ویٹر تک کے عہدوںکیلئے لوگ لئے گئے ہیں جن کا کام تو کچھ نہیں لیکن صاحب لوگوں کے آگے پیچھے پھر کر "خوشامد ی" بن کر اپنی نوکری بچانا شامل ہے. ایسے صفائی والے بھی ہیں جنہیں مخصوص لوگوں کی سفارش پر بھرتی توکیا گیا مگر انہوں نے عمر بھر میں کبھی صفائی تک نہیں کی .بس صاحبان کے آتے ہی بقول پالش لیکر کھڑے ہو جاتے ہیں اور " چیری " کیساتھ " مکھن" لگانے کا وہ کام کرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ شائد یہ لوگ صرف اس کام کیلئے پیدا ہوئے تھے اور اسی کیلئے بھرتی کئے گئے ہیں.پی ایس بی کا بنیادی کام کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی ہے لیکن اس ادارے نے گذشتہ دس سالوں میں کتنے کھلاڑی پیدا کئے کتنوں کو سہولیات دی اور ان سہولیات کی نتیجے میں کتنے کھلاڑی کسی بھی کھیل میں آگے آئے ہیں یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کو سوچنے کی ضرورت ہے .قرضوں پر چلنے والے اس ملک میں پی ایس بی کے پاس سہولیات تو موجود ہیں مگر انہیں کس طرح استعمال کیا جارہا ہے کیا کبھی کسی نے اس بارے میں سوچا ہے ' کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش ہے کہ صبح سے شام تک دفاتر میں بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لیکر وقت گزارنے والے ان اہلکاروں کی کارکردگی کیا ہے ' کیا یہ لوگ حلال رزق اپنے بچوں کیلئے لے کر جارہے ہیں ' میڈیکل بلوں سے لیکر اورٹائم تک ان ملازمین کو ملتا ہے لیکن کارکردگی ندارد .

اخراجات اتنے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ آخر اس وزارت کی قانونی حیثیت ختم ہونے کے بعد اس پر اتنے اخراجات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.آج سے کم و بیش پچیس سال قبل پشاور میں واقع پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کی ری نویشن پر پچھتر لاکھ روپے لگا دئیے گئے تھے اور یہ ری نویشن بھی کیسی تھی کہ اس وقت پشاور کے ہاسٹل میں الماریاں توڑ کر یہاں پر باتھ رومز بنائے گئے .جمنازیم میں باسکٹ بال ' والی بال کے کھلاڑیوں کیلئے بنائے گئے گرائونڈ پرنئی لکڑی لگائی گئی جو کہ اس وقت بھی قیمتی اور مہنگی تھی ساتھ میں جوڈو ہال پر اسی طرح سب سے زیادہ اخراجات آئے لیکن پچھتر لاکھ روپے ہضم ہوگئے.اور اب بھی کم و بیش آٹھ کروڑ روپے صرف ری نویشن کے نام پر الگ رکھے گئے ہیں اب یہ آٹھ کروڑ روپے کیسے خرچ ہونگے یہ اللہ ہی جانتا ہے. لیکن کمیشن در کمیشن در کمیشن کے بعد اگر ٹھیکیدار کو کچھ بچے گا تو وہ بھی پی ایس بی کا ٹھیکیدار ہے اس نے اپنا پیٹ بھی بھرنا ہے تو کام کیسے ہوگا. یہ اللہ ہی جانتا ہے...کسی بھی سرکار ی ادارے میں سرکار کی جانب سے بھیجے گئے فنڈز کو ٹھکانے لگانے کیلئے زیادہ تر کام بشمول ری نویشن مارچ س جون تک کے مہینے میں ہوتا ہے لیکن پی ایس بی واحد سست اور نااہل سرکاری ادارہ ہے کہ یہاں پر اس طرح کے کام نئے مالی سال کے آغاز میں کئے جاتے ہیں لیکن فنڈز وہیں پرانا جو واپس جانا ہوتا ہے استعمال ہوتا ہے جس کیلئے بہانے یہاں تک بنائے جاتے ہیں کہ کھیلوں کے مقابلے آنیوالے ہیں اور ان کھیلوں کی تیاری کیلئے ری نویشن ضروری ہے اور پھر عوام کے خون پسینے کی کمائی ٹھکانے لگا دی جاتی ہیں.

چلیں ری نویشن تو ہوگئی ' لیکن ری نویشن کے بعد وزارت کے ذمہ داران یہ پوچھنے کی ہمت کرتے ہیں کہ کروڑوں روپے تنخواہوں ' مراعات ' ری نویشن کے نام پر خرچ ہونے کے بعد اس ادارے کی کارکردگی کیا رہی ہے ' کیا اس سے صوبوں کو کوئی فائدہ ملا ہے ' کوئی نیا کھلاڑی پیدا کیا گیا ' کیاجتنے اخراجات کئے گئے ا س کے بدلے میں صوبے کے عوام کو کچھ ملا ' یقینا جواب نفی میں ہوگاکیونکہ ا س ادارے کا بنیادی کام صرف ایک مخصوص کھیل جو کہ ایلیٹ کلاس تک ہی محدود ہے کے کھلاڑیوں اوران کے بچوں کو مراعات دینا شامل ہیںجن کی کارکردگی بھی ماشاء اللہ ہی ہے ' اور اگر کسی کو اس بارے میں شک ہے تو خود کم از کم پشاور کوچنگ اینڈ ٹریننگ سنٹر میں جا کر پتہ کریں کہ یہاں پر کس کھیل پر پی ایس بی کے افسران مہربان ہیں اور کب سے لوگ اس کھیل کے کوچنگ کے نام پر تنخواہیں لے رہے ہیں .اٹھارھویں ترمیم کے بعد تحلیل ہونیوالے وزارت کھیل میں تعینات مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ ان کے سامنے صوبائی بیورو کریسی کی بھی نہیں چلتی .یاتوصوبے اپنا موقف صحیح انداز میں وفاق کے سامنے پیش نہیں کر پاتے . صورتحال جو بھی ہو لیکن پی ایس بی کو پالنا موجودہ دور میں ہاتھی پالنے کے مترادف ہے کیونکہ ہاتھی کا جثہ بھی بڑا ہوتا ہے اور اس کی خوراک بھی غریب کا بیڑہ غرق کرتی ہے اور ساتھ میں اس کی " پوٹھی " اور بدبو غریب کی کمر توڑ دیتی ہے .

کرکٹ کے ورلڈ کپ اور تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمرانوں سے اتنی اپیل ہے کہ جس طرح انہوں نے انہوں نے کھیلوں سمیت دیگر شعبو ں میں اصلاحات کی. خدارا اپنی توجہ پاکستان سپورٹس بورڈ پر بھی دے دیںیہاں پر تعینات اہلکاروں کی فہرستیں طلب کرکے ان کی کارکردگی چیک کریں ' کس کی سفارش سے کون آیا ' ان کی کارکردگی کیا ہے اور اتنے اخراجات کے باوجودصفر کارکردگی ہونے کے باوجود یہ کیوں عوام پر مسلط ہیں اور ٹیکسوں کی مد میں جمع ہونیوالے عوام کی خون پسینے کی کمائی کیوںکام چوروں اور نالائق لوگوں کو دی جارہی ہیں جن کے پاس سوائے تقریروں اور باتوں کے کچھ نہیں ' اگر کھلاڑی اسٹبلشمنٹ کے مقابلے میں کمزور ہیں تو پھر کم از کم از اس تحلیل شدہ وزارت کوصوبوں کے حوالے تو کیا جاسکتا ہے جو کم از کم کھلاڑی تو اپنے صوبے کیلئے تو پیدا کررہے ہیں اور ان سے کم مراعات میں ان سے بہتر کام طور پر کام تو کررہے ہیں ـ

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498718 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More