#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ،
اٰیت 1 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
سورة
انزلنٰہا و
فرضنٰہا و
انزلنا فیھا
اٰیٰت بینٰت
لعلکم تذکرون 1
ھم نے اپنے تمام جہان کو اپنے تمام اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی جاۓ پناہ
بنادیا ھے اور ھم نے اپنے تمام جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی قانُون
بناکر اُس قانُون کو اپنے جُملہ جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک ایسا قانُون
راہ بنا دیا ھے جو ھمارا ایک مُفصل بیانیہ ھے اور ھم نے اپنے اِس بیانیۓ کا
اہتمام اِس لیۓ کیا ھے کہ شاید تُم اِس قدیم قوم کے اِس قدیم اور فطری
قانُونِ جہان کو اپنے فکر و خیال میں لا سکو اور شاید تُم اِس قدیم اور
فطری قانُونِ جہان سے اپنے موجُودہ زمان و مکان میں ایک مُتمدن انسانی
معاشرہ بنا سکو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سے قبل اِس عُنوان کے زیرِ عُنوان اہلِ روایت کی طرف سے سیدہ عائشة
صدیقہ کے نام سے منسُوب کی گئی قُرعہ اندازی کی جو روایتِ حدیث ھم نے نقل
کی تھی اُس روایتِ حدیث کے بانی مبانی ابنِ شہاب زھری ہیں اور ابنِ شہاب
زھری نے اُس کذبِ روایت کا جو دُوسرا حصہ سیدہ عائشة صدیقہ کے نام سے
منسُوب کیا ھے وہ یہ ھے کہ { فسرنا حتٰی اذا فرغ رسول اللہ من غزوتهٖ تلک و
قفل دنونا من المدینة قافلین ، اٰذن لیلة بالرحیل ، فقمت حین اٰذنوا
بالرحیل فمشیت حتٰی جاوزت الجیش فلما قضیت شاْنی اقبلت الٰی رحلی فلمست
صدری ، فاذا عقد لی من جزع ظفار قد انقطع ، فرجعت فالتمست عقدی فحبسنی
ابتغاءه ، قالت : واقبل الرھط الذی کانوا یرحلونی فاحتملوا ھودجی فرحلوہ
علٰی بعیری الذی کنت ارکب علیه وھم یحسبون انی فیه ، وکان النساء اذا ذاک
خفافالم یھبلھن ولم یغشھن اللّحم انما یاکلن العلقة من الطعام فلم یستنکر
القوم خفة الھودج حین رفعوه وحملوه وکنت جاریة حدیثة السن ، فبعثواالجمل
فساروا ووجدت عقدی بعد ما استمرالجیش ، فجئت منازلھم ولیس بھا منھم داع
ولامجیب ، فتیممت منزلی الذی کنت بهٖ وظننت انھم سیفقدونی فیرجعون الیَّ }
یعنی جب ھم جھاد سے لوٹ کر مدینے کے قریب پُہنچے تو ایک رات آپ نے قافلے کو
کوچ کا حُکم دے دیا لیکن جب کوچ کا اعلان ہوا تو میں حوائجِ ضروریہ سے
فراغت کے لیۓ لَشکر گاہ سے کُچھ دُور چلی گئی اور واپس آنے کے بعد جب میں
نے اپنا سینہ چُھوا تو معلوم ہوا کہ میرے گلے سے اظفار کے نگینوں کا ہار
ٹُوٹ کر کہیں گر گیا ھے اور میں اُنہی قدموں پر ہار ڈھونڈنے کے لیۓ واپس
چلی گئی جہاں پر ٹوٹ کر بکھرا ہوا ہار ڈھونڈنے میں مُجھے کُچھ دیر لگی ،
اِس دوران میرا ھودج اُٹھانے والے جو لوگ آۓ تو اُنہوں نے مُجھے اُس میں
موجُود جان کر میرا ھودج اُٹھا کر اُس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار تھی
، ھودج اُٹھانے والوں کو اِس کے ہَلکے پَن کا خیال نہیں آیا کیونکہ اُس
زمانے میں عورتیں زیادہ خوش خوراک نہیں تھیں اِس لیۓ ہَلکی پُھلکی ہوا کرتی
تھیں اور میں تو ویسے بھی کم سن تھی ، ھودج اُٹھانے والوں نے ھودج اُٹھا کر
اونٹ پر رکھا اور چل دیۓ ، میں ہار ڈھونڈ کر واپس آئی تو وہاں پُکارنے اور
پُکار کا جواب دینے والا کوئی انسان موجُود نہیں تھا ، پھر میں اُس مقام پر
جا بیٹھی جہاں پر میرا قیام تھا اِس خیال سے کہ قافلے والے جب مُجھے قافلے
میں موجُود نہیں پائیں گے تو وہ میری تلاش کے لیۓ اسی مقام پر واپس آئیں گے
، سیدہ عائشہ صدیقہ کی طرف منسُوب کی گئی اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی زبان سے
بیان کی گئی اِس حدیث میں اِس حدیث کے راوی نے جُھوٹ کے جو پہاڑ بناۓ ہیں ،
بُہتان کے جو طوفان اُٹھاۓ ہیں اور اپنے تبرّے کے جو گھاؤ لگاۓ ہیں اُن کی
تفصیل اگرچہ بہت طویل ھے لیکن اگر ھم اُس تفصیل کو اختصار کے ساتھ بیان
کرنا چاہیں تو اِس حدیث کے راوی کا جو طریقہِ واردات ھمارے سامنے آتا ھے وہ
یہ ھے کہ سب سے پہلے یہ مُفتری اور کذاب راوی نبیِ اکرم علیہ السلام کے
سفرِ جھاد کے نام پر اپنی کہانی کی ایک بساط بچھاتا ھے ، پھر وہ اِس سفر
میں نبی و زوجہِ نبی کو اِس طرح بے تعلق دکھاتا ھے کہ گویا قُرعہِ فال میں
زوجہِ نبی کا نام نکلنا ہی اِس سفر میں اُن کے نبی کے ساتھ ہَم سفر بننے کا
واحد سبب بنا تھا ورنہ جہاں تک نبی و زوجہِ نبی کے تعلق کا تعلق ھے تو اِس
سفر کے دوراِن ان کے درمیان کوئی تعلق موجُود تھا ہی نہیں کیونکہ اگر اِن
کے درمیان تعلق و سلسلہِ تکلم موجُود ہوتا تو عائشہ صدیقہ شب کی تاریکی میں
لَشکر سے دُور جانے کی صورت میں نبیِ اکرم سے اجازت لیتیں اور آپ کو اطلاع
دے کر حوائجِ ضروریہ کے لیۓ لَشکر سے باہر جاتیں کیونکہ اِس قسم کی غیر
معمولی صورتِ حال میں شوہر کی ہستی ہی وہ واحد ہستی ہوتی ھے جس ہستی کے
ساتھ بیوی بات کرتی ھے تاکہ اگر وہ کسی مُمکنہ خطرے سے دوچار ہوجاۓ تو شوہر
اُس کو اُس خطرے سے بچاۓ ، اِس حدیث کے اِس راوی نے اِس حدیث میں کذب و
افترا کا دُوسرا پیوند یہ لگایا ھے کہ عائشہ صدیقہ کو اِس مُسافر قافلے کی
ایک تنہا خاتونِ سفر کے طور پر دکھایا ھے کیونکہ اگر اِس مُسافر قافلے میں
کُچھ دُوسری خواتین بھی شریکِ سفر ہوتیں تو سیدہ عائشہ صدیقہ حوائجِ ضروریہ
سے فراغت پانے کے لیۓ تنِ تنہا لَشکر سے دُور نہ جاتیں اور نہ ہی دُوسری
خواتین اُن کو شب کی تاریکی میں تَنِ تنہا لَشکر سے دُور جانے دیتیں بلکہ
کُچھ خواتین خود سے خود ہی اُن کے ساتھ ہو جاتیں ، اِس حدیث میں اِس حدیث
کے اِس خبیث راوی نے اپنے اِس افترا کے بعد سیدہ عائشہ صدیقہ کی عقل و دانش
پر بھی طنز کے تیر چلاۓ ہیں کیونکہ راوی کی اِس روایت کے مطابق عائشہ صدیقہ
پہلے تو لَشکر کی روانگی کا اعلان ہونے کے بعد کسی کو اطلاع دیۓ بغیر ہی
لَشکر سے دُور نکل گئیں اور واپس آئیں تو گلے کا ہار گلے میں موجُود نہ
پاکر کسی کو مطلع کیۓ بغیر دوبارہ ہار کی تلاش کے لیۓ چل پڑیں اور آنے جانے
کے اِس دورانیۓ میں میں اِن کو لَشکر کے لَشکر گاہ سے نکل جانے اور اپنے
لَشکر سے نکل جانے کا کوئی خیال ہی نہیں آیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ جب اَندھیرے
میں ٹُوٹ کر ریت میں بکھر جانے والے ہار کے دانے تلاش کر کے واپس آئیں تو
وہ لَشکر سے دُور ہوچکی تھیں اور لَشکر اُن سے دُور ہو چکا تھا ، طرفہ
تماشا یہ ھے کہ اِس سے قبل یہی کذاب راوی عائشہ صدیقہ کے اِس سفرِ جنگ کے
سفر پر جاتے ہوۓ بھی ایک ایسے مقام پر یہی ہار گُم ہونے کی کہانی سنا چکا
ھے جہاں پانی موجُود نہیں تھا اور اِس راوی کے مطابق جب اِن کا ہار گُم ہوا
تو اہلِ لَشکر شدتِ تشنگی سے تڑپ رھے تھے اور اللہ تعالٰی اُسی مقام پر
اٰیتِ تیمم نازل کی تھی اور اٰیتِ تیمم نازل ہونے کے بعد اور اُن کے بیٹھے
ہوۓ اونٹ کے اُٹھنے کے بعد دن کی روشنی میں اُن کا ہار اُسی اونٹ کے جسم کے
نیچے دَبا ہوا مل گیا تھا اور اَب جب وہ فاتح لَشکر فتح کے بعد مدینے واپس
آرہا تھا تو اِس دروغ گو راوی کی اِس روایت کے مطابق اُن کا وہی ہار شب کی
تاریکی میں گُم ہوگیا تھا ، ظاہر ھے کہ سفر پر جاتے وقت راوی نے جو کہانی
گھڑی تھی اُس سے اُس کی مطلب براری نہیں ہوئی تھی اِس لیۓ اُس نے دُوسری
بار اِسی ہار کو دُوبارہ گُم کر کے عائشہ صدیقہ کو شب کی تاریکی میں ہار کی
تلاش میں صحرا کی طرف اور اُن کے لَشکر کو مدینے کی طرف چلا دیا ھے حالانکہ
اہلِ جھاد کا یہ جھادی قافلہ جھاد سے فارغ ہو کر مدینے واپس آرہا تھا اور
مدینے پر کسی بیرونی دُشمن کے اَچانک حملے کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا کہ
اِس جھادی قافلے کو راتوں رات وہاں سے نکالنا ایک اَمرِ لازم ہوتا اور اُس
اَمرِ لازم کے تحت اِس لَشکر کو اُس کے مُستقر سے نکالا جاتا ، اِس راوی نے
یہ تمام اہتمام صرف اِس لیۓ کیا ھے تاکہ وہ عائشہ صدیقہ کو اُس قافلے سے
اَلگ اور اُس قافلے کو عائشہ صدیقہ سے جُدا ہوتے ہوۓ دکھا سکے اور نبی کے
گھرانے کے خلاف ایک نئی شرمناک کہانی بنا اور سنا سکے اور بخاری کے اِس
ذہنی بخار زدہ راوی کو یہ کہانی بنانے اور سنانے کے لیۓ پہلے نبی و زوجہِ
نبی کے درمیان ایک دُوری کا منظر تشکیل دینا تھا جس منظر کی تشکیل دینے کے
لیۓ اُس راوی نے نبی اور زوجہِ نبی کو اَلگ اَلگ دکھانے کے لیۓ اپنی اِس
کہانی میں ایک خیالی ڈولی بنائی ھے جس کو ھودج کے نام سے موسوم کیا ھے اور
پھر اِس ڈولی کو زمین سے اُٹھا کر اونٹ پر رکھنے کے لیۓ خیالی طور پر کُچھ
خیالی افراد مقرر کیۓ ہیں جن کا کام یہ بتایا گیا ھے کہ سیدہ عائشہ قافلے
کی روانگی کا اعلان سُن کر اِس ڈولی میں آجاتی تھیں اور ڈولی اُٹھانے والے
ڈولی اُٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے اور ایک روز جب سیدہ عائشہ صدیقہ قافلے
کے کوچ کے اعلان کے بعد قضاۓ حاجت کے لیۓ قافلے سے دُور چلی گئیں تو ڈولی
اُٹھانے والوں نے اِن کو ڈولی میں موجُود جانتے ہوۓ ڈولی اُٹھائی اور اونٹ
پر رکھ دی جس کی وجہ سے سیدہ عائشہ صدیقہ قافلے سے بچھڑ کر قافلے سے پیچھے
رہ گئیں اور قافلہ اُن کو پیچھے چھوڑ کر اُن سے آگے نکل گیا ، اِس کہانی کے
اِس حصے میں پہلا جھول یہی ڈنڈا ڈولی ھے جس میں عائشہ صدیقہ کو بٹھانے اور
پھر اِس ڈنڈا ڈولی کو اُٹھا کر اونٹ پر رکھنے کا یہ ڈرامائی منظر تشکیل دیا
گیا ھے اور اِس کہانی کا دُوسرا جھول راوی کا یہ احمقانہ بیان ھے کہ عائشہ
صدیقہ کا وزن بہت کم تھا اِس لیۓ ان کا ھودج اُٹھانے والوں کو ھودج میں اُن
کے موجُود نہ ہونے کا احساس نہیں ہوا ، مقصد یہ کہ اگر ھودج کا وزن زیادہ
ہوتا تو اُن کو عائشہ صدیقہ کے موجُود ہونے کا کُچھ گمان ہوتا لیکن ھودج کا
تو چونکہ وزن ہی کم تھا اِس لیۓ ان کو تو یہ یقین ہونا ہی تھا کہ سیدہ
عائشہ صدیقہ اِس میں موجُود ہیں ، بخاری کا یہ راوی غالبا دُنیا کا پہلا
اور آخری عقل دُشمن انسان ھے جو وزن کا وجُود موجُود نہ ہونے کو وزن موجُود
ہونے کی دلیل سمجھتا ھے ، امام بخاری کے اِس احمق راوی نے سیدہ عائشہ صدیقہ
پر بُہتان باندھنے کے لیۓ جس لَشکر سے اِن کے دُور جانے ، جانے کے بعد واپس
آنے ، واپس آکر دوبارہ جانے اور اِس اَثناء میں لَشکر کے کوچ کر جانے کی جو
کہانی بنائی ھے وہ عقلی طور بھی بے عقلی کا ایک اَچُھوتا شاہکار ھے کیونکہ
یہ غزوہِ مری سیع کا واقعہ ھے جو 2 شعبان کو پیش آیا ھے اور اِس قمری تاریخ
کی آمدہ شب چاند کی روشنی سے خالی تھی ، عیسوی تاریخ کے مطابق یہ 28 اور 29
دسمبر کی درمیانی شب تھی اور ماہِ دسمبر میں صحرا کی ریت پر اُترنے والی شب
کی سردی ماحول کو برفاب بناۓ ہوۓ ہوتی ھے اور انسان زیادہ دیر تک باہر کی
فضا میں رُک ہی نہیں سکتا ، غزوہِ مری سیع سے فاتح بن کر آنے والا جو لَشکر
اِس رات یہاں پر اُترا تھا اُس میں بنی مصطلق کی سرکوبی کر کے آنے والے 400
جنگجو تھے جو مری سیع سے 600 جنگی قیدی لے کر آۓ تھے ، اِن کے پاس مالِ
غنیمت میں آنے والے 2000 اونٹ اور 5000 بکریاں بھی تھیں ، اِس لشکر کے
درمیان آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن تھے اور اِن کی روشنی ہی شب کی تاریکی میں
اِس لَشکر کی رہنما تھی ، ھم فرض کر لیتے ہیں کہ اِس لشکر کے امیرِ لشکر نے
کوچ کا حُکم دے دیا تھا اور اہلِ لشکر اپنا اپنا اَسباب سمیٹنے میں لَگ گۓ
تھے ، اَب اگر کوئی شخص لشکر میں جلنے والی آگ کی روشنی سے باہر گیا ھے تو
اُس کے لشکر سے باہر جانے کا فاصلہ پانچ سات منٹ ہی ہوگا کیونکہ انسان عام
رفتار سے چلتے ہوۓ پندرہ منٹ میں ایک میل کی مسافت طے کرتا ھے ، اگر سیدہ
عائشہ اِس لشکر سے دُور گئی ہوں گی تو زیادہ سے زیادہ ربع میل دُور ہی گئی
ہوں گی ، اگر پہلی بار اُن کے آنے جانے میں آدھ گھنٹہ لگ گیا اور دُوسری
بار آنے جانے میں ایک گھنٹہ بھی لگ گیا ہو تو 400 افراد کا لشکر ایک ڈیڑھ
گھنٹے میں اپنا سارا سامانِ جنگ سمیٹ کر دوہزار اونٹوں ، پانچ ہزاد بکریوں
کو جمع کرکے اور اپنے بار برداری کے جانوروں پر اپنا سامان ڈال کر کوچ کر
سکتا ھے تو کیا اتنا دُور بھی جاسکتا ھے کہ عائشہ صدیقہ کوئی ھے کوئی ھے کی
صدائیں لگائیں اور اُن کی ساری صدائیں صدا بصحرا ہو کر رہ جائیں ؟ !!
|