اَموالِ میراث و اَعمالِ میراث !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُ النُور ، اٰیت 4 تا 20 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
الذین
یرمون
المحصنٰت
ثم لم یاتوا
باربعة شھداء
فاجلدوھم ثمانین
جلدة ولاتقبلولھم شھادة
ابدا واولٰئک ھم الفاسقون 4
الاالذین تابوا من بعد ذٰلک واصلحوا
فان اللہ غفور رحیم 5 والذین یرمون ازواجھم
ولم یکن لھم شھداء الاانفسھم فشھادة احدھم اربع
شھٰدٰت باللہ انهٗ لمن الصٰدقین 6 والخامسة ان لعنت اللہ علیه
ان کان من الکٰذبین 7 ویدرء عنہاالعذاب ان تشھد اربع شھٰدٰت باللہ
انهٗ لمن الکٰذبین 8 والخامسة ان غضب اللہ علیہا ان کان من الصٰدقین 9
ولو لافضل اللہ علیکم ورحمتهٗ وان اللہ تواب حکیم 10 ان الذین جاءو بالافک
عصبة منکم لاتحسبوہ شرلکم بل ھو خیرلکم لکل امرئ منہم مااکتسب من الاثم و
الذی تولٰی کبرهٗ منہم لهٗ عذاب عظیم 11 لولااذسمعتموه ظن المومنون والمؤمنٰت بانفسھم
خیرا وقالواھٰذاافک مبین 12 لولاجاءو علیباربعة شھداء فاذلم یاتوابالشھداء فاولٰئک عنداللہ ھم
الکٰذبون 13 ولولا فضل اللہ علیکم ورحمته فی الدُنیا والاٰخرة لمسکم فی ماافضتم فیه عذاب عظیم
14 اذتلقونه بالسنتکم وتقولون بافواھکم مالیس لکم بهٖ علم وتحسبونه ھینا وھو عنداللہ عظیم 15 ولو
لااذسمعتموہ قلتم مایکون لنا ان نتکلم بھٰذا سبحٰنک ھٰذا بھتان عظیم 16 یعظکم اللہ ان تعودوالمثله ابدا ان
کنتم مؤمنین 17 ویبین اللہ لکم الاٰیٰت واللہ علیم حکیم 19 ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشة فی الذین اٰمنوالھم
عذاب الیم فی الدنیا والاٰخرة واللہ یعلم وانتم لا تعلمون 19 ولولافضل اللہ علیکم ورحمتهٗ وان اللہ رءوف رحیم 20
قُرآنی معاشرے میں قُرآنی معاشرت کی جس مُخالف جماعت اور قُرآنی معاشرے میں قُرآنی معاشرت کے جس مُخالف فردِ جماعت کا دوسری اور تیسری اٰیت میں ذکر ہوا ھے اگر اُس مُخالف جماعت و فردِ جماعت کا کوئی فتنہ قلعہِ اسلام میں آنے اور رہنے والی جماعت تک آپُنہچے اور وہ فتنہ پرور جماعت و فردِ جماعت اپنی کہی ہوئی بات کے حق میں چار اضافی شہادتیں پیش نہ کر سکے تو اُس جماعت و فردِ جماعت کے فتنے سے متاثر ہونے والی مُسلم جماعت و مُسلم فردِ جماعت کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کیا جاۓ اور الزام لگانے والے اِن اَفراد کی بے اعتبار بات کو عُمر بھر کے لیۓ رَد کردیا جاۓ تاکہ وہ فاسق اَفراد اِس مُسلم جماعت و فردِ جماعت کو کوئی نقصان نہ پُہنچا سکیں ، اگر تُمہاری اپنی جماعت کے افراد تُمہاری اپنی جماعت کے خلاف یہی الزام تراشی کریں تو وہ بھی اپنی کہی ہوئی بات کے حق میں چار اضافی گواہ پیش کریں اور اگر وہ چار گوہ پیش نہ کرسکیں تو پھر چار بار اپنی کہی ہوئی بات پر قسم کھائیں اور پانچویں بار خود کو اللہ تعالٰی کی دُھتکار پِھٹکار کا حق دار بھی قرار دیں اور اسی طرح اِس جماعت یا فردِ جماعت نے جس جماعت و فردِ جاعت پر الزام لگایا ہو تو وہ مُلزم جماعت و فردِ جماعت بھی چار بار اسی طرح پر اپنی صفائی پیش کرنے کے لیۓ اللہ کی قسم کھاۓ اور پانچویں بار خود کو اللہ کی دُھتکار پِھٹکار کا مُستحق قرار دے تو اُس جماعت و فردِ کی اِس قَسم کو بھی قبُول کیا جاۓ ، اگر تُم لوگوں کے پاس دینِ حق قبُول کرنے کی فضیلت نہ ہوتی اور تُم پر اللہ اپنی مہربانی سے مہربان نہ ہوتا تو تُم کو تُمہارے معاشرتی معاملات کے تصفیۓ کا اتنا آسان راستہ نہ دکھایا جاتا ، اگر اِس وقت تُمہاری اپنی جماعت کے اپنے افراد تُمہاری اپنی جماعت کے کسی فردِ جماعت کے بارے میں شر کی کوئی خبر لے آۓ ہیں تو تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ھے کیونکہ اُن کی اِس خبرِ شر میں بھی تُمہارے لیۓ خیر ہی خیر ھے ، اِس شر انگیز خبر میں جس نے جتنا کم یا زیادہ حصہ لیا ھے اُس کو اُس کی اتنی ہی کم یا زیادہ سزا ملنی ھے لیکن بہتر ہوتا کہ تُم میں سے جو شخص جس وقت یہ بات سُنتا تو وہ اُسی وقت کہہ دیتا کہ یہ جُھوٹے لوگوں کی جُھوٹی بات ھے کیونکہ اگر یہ بات جُھوٹ نہ ہوتی تو یہ بات کرنے والے شہادت کے رائج اُصول کے مطابق اپنی بات کے حق میں چار اضافی شہادتیں بھی اپنے ساتھ لاتے جو وہ نہیں لاۓ ہیں اِس لیۓ یہ لوگ سَچے نہیں ہیں بلکہ جُھوٹے ہیں ، اگر اللہ نے دُنیا و آخرت دونوں میں تُمہارے لیۓ فضیلت نہ رکھ دی ہوتی تو اِس افواہ کے سُننے کی تمہیں یہ کہہ کر سزا دی جاتی کہ تُمہارے سب مرد و زن نے یہ بات سُنتے ہی یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ تو ایک بُہتانِ عظیم ھے جو کُچھ بُرے لوگوں نے اَچھے لوگوں پر لگا دیا ھے اور اللہ اَب تمہیں اِس اَمر کی ھدایت کرتا ھے کہ تُم اِس پہلی غلطی کے بعد دو بارہ کبھی بھی سب کُچھ سُننے اور کُچھ نہ بولنے کی یہ غلطی نہ کرنا اور اللہ اپنے علم و حکمت کی یہ نشانیاں تم پر اِس لیۓ واضح کر رہا ھے تاکہ تُم جان جاؤ کہ جو لوگ لوگوں کو دینِ حق کے اَحکامِ حق سے روکنے کے لیۓ فتنہ پروری یہ کے راستے نکال رھے ہیں وہ دُنیا و آخرت دونوں میں اللہ سے اپنے ہر کیۓ کی ہر سزا پائیں گے کیونکہ اللہ تعالٰی انسان کے معاشرتی ماحول کے وہ سارے اَحوال جانتا ھے جو انسان نہیں جانتا اور یاد رکھو کہ اگر تمہارے حال میں اللہ کا فضل شاملِ حال نہ ہوتا تو تُم پر تُمہارے اِس تساہلِ زبان و بیان کے نتیجے میں سزا کا نفاذ کردیا جاتا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں جو وضاحت طلب الفاظ وارد ہوۓ ہیں اُن وضاحت طلب الفاظ میں جو پہلا وضاحت طلب لفظ وارد ہوا ھے وہ لفظِ "رمی" ھے جو اُنگلی سے کیۓ گۓ اشارے ، ہاتھ سے اُچھالے ہوۓ پَتھر کنکر اور زبان سے نکالے ہوۓ مُثبت و مَنفی مفہوم کے حامل الفاظ کے علاوہ بھی اُن اَن گنت مفاہیم کا حامل ھے جو آۓ دن انسانی سماعت میں آتے رہتے ہیں لیکن اِس مقام پر اِس "رمی" سے مُراد وہ سَچا یا جُھوٹا الزام ھے جو ایک انسان دُوسرے انسان پر لگاتا ھے یا لگا سکتا ھے ، اٰیاتِ بالا میں دُوسرا وضاحت طلب لفظ "محصنٰت" ھے جو "مُحصن" کی جمع ھے اور جس کا ایک معنٰی کسی فرد یا جماعت کا قلعہ بند ہو کر خطرات محفوظ ہوجا نا اور ایک معنٰی کسی انسان کا پاکیزہ سیرت و کردار کا مالک ہونا ھے ، عُلماۓ روایت قُرآنِ کریم کی اِس اصطلاح کو علی الاطلاق شادی شُدہ عورتوں کے لیۓ استعمال کرتے ہیں جس کا بادی النظر میں ایک مطلب یہ ہوتا ھے کہ عورت شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد پاک باز ہوتی ھے اُس سے پہلے پاک باز نہیں ہوتی اور عُلماۓ روایت جو اسی اٰیت کے اسی لفظ سے یہ استدلال بھی کرتے ہیں کہ اِن شادی شدہ اور پارسا عورتوں پر الزام لگانا بَد اَخلاقی کی بات ھے تو اُن کے اِس دُوسرے استدلال سے بھی یہ دُوسرا جواز خود بخود ہی نکل آتا ھے کہ غیر شادی شدی اور غیر پارسا عورتوں پر کوئی الزام عائد کر دینے میں کوئی حرج نہیں ھے حالانکہ عورت شادی کے بعد ہی شوہر کی حفاظتی قلعے میں بند ہو کر با عصمت و باحیا نہیں ہوتی بلکہ شادی سے پہلے بھی اپنی حیا کے قلعے میں بند رہ کر باعصمت و با حیا ہی رہتی ھے اِس لیۓ جو عورت اِن معروف روایتی معنوں میں پارسا نہیں ہوتی تو اُس پر بھی کوئی بیہُودہ الزام عائد کرنا ایک بیہُودہ عمل ہوتا ھے ، موجُودہ اٰیات سے پہلی اٰیات میں چونکہ ایک جماعت"الزانیة" کا ذکر ہوا ھے اِس لیۓ اِس اٰیت کے اِس مقام پر بھی اِس سے مُراد شادی شدہ خواتین کی جماعت نہیں ھے جیساکہ عُلماۓ روایت نے سمجھا ھے بلکہ اِس سے مُراد مُطلقاً وہ انسانی جماعت ھے جس جماعت میں معاشرے کے سارے ہی شادی شدہ و غیر شادی شدہ افرادِ مرد و زن شامل ہوتے ہیں ، اٰیاتِ بالا میں آنے والا تیسرا وضاحت طلب لفظ "افک" ھے جس کی جمع "افائک" ھے اور جس کا ایک معنٰی کسی کا جُھوٹ بولنا ، ایک معنٰی کسی کا خیر سے محروم ہونا اور ایک معنٰی کسی کا عقل و خرد سے عاری ہونا ھے اور یہاں پر اِس سے مُراد افرادِ معاشرہ کی وہ اجتماعی افواہ سازی ھے جو افواہ سازی مُختلف قومیں اپنی مُختلف مُخالف قوموں کو نقصان پُہنچانے کے لیۓ کرتی رہتی ہیں اور مُختلف افراد بھی اپنے مُخالف افراد کو نقصان پُہنچانے کے لیۓ اُس افواہ سازی کو فروغ دیتے رہتے ہیں ، اٰیاتِ بالا میں چوتھا توضیح طلب لفظ "ثمانین" بروزنِ مضامین ھے جو "ثمن" کی جمع ھے اور جس کا ایک معروف معنٰی قیمت ھے اور ھم نے اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں مضمونِ کلام کے معنوی سیاق و سباق کی رعایت سے اسی مفہوم کو ترجیح دی ھے مگر سُوۓ اتفاق یہ ھے کہ عُلماۓ روایت کے نزدیک اللہ کی اِس وسیع دُنیا میں ہر جگہ پر یا تو صرف نماز قائم ہوتی رہتی ھے یا پھر ہر جگہ پر صرف زنا ہی ہوتا رہتا ھے اِس لیۓ پہلے تو اِن عُلماۓ روایت نے اِس سُورت کی دُوسری اور تیسری اٰیات کو عمل زنا کی وضاحت و سزا کی اٰیات سمجھا ھے اور بعد ازاں موجُودہ اٰیات میں بیان ہونے والے مضامین کو بھی الزامِ زنا کا مضمون سمجھا اور سمجھایا ھے حالانکہ انسانی معاشرے میں اور بھی بہت سے وہ بُہتان ہیں جو ایک انسان دُوسرے انسان پر لگاتا ھے اور قُرآن اپنے اِس فرمان کے ذریعے انسان کو ہر اُس بہتان سے بچاتا ھے جو ایک انسان دُوسرے انسان پر لگاتا ھے اور اِن اٰیات میں بھی انسان کی اُسی بُہتان بازی کا ذکر ہوا ھے اور اُس ذکر کے ضمن میں انسان کو یہ نصیحت کی گئی ھے کہ بُہتان بازی ایک مَنفی رویہ ھے اور انسان کو یہ مَنفی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیۓ تاہَم اِن اٰیات سے یہ بات ضرور معلوم ہوتی ھے کہ عھد نبوی میں کوئی ایسا ہی سیاسی ، معاشرتی یا کوئی حربی واقعہ رونما ہوا تھا جس سے مُسلم جماعت کے کُچھ افراد ذہنی طور پر متاثر ہوۓ تھے لیکن اللہ تعالٰی نے اُن کی بر وقت رہنمائی کر کے اُن کو اِس واقعے کے بُرے نتائج سے بچالیا تھا اور چونکہ اُس واقعے کو اللہ تعالٰی نے خود کسی خاص انسان کے ساتھ منسوب نہیں کیا ھے اِس لیۓ کسی بھی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ھے کہ وہ قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ ایک عام معاشرتی معاملے کو عھدِ نبوی کے پاک معاشرے کے کسی خاص انسان سے منسوب کرے جیساکہ اِن عُلماۓ روایت نے کیا ھے تاہم اِن اٰیات میں بیان کیۓ گۓ اِس واقعے کو سمجھنے کے لیۓ اِس اَمر کا سمجھنا لازم ھے کہ انسانی معاشرے کی کُچھ قدیم رسوم و قیود انسانی تجربے و مُشاھدے کی بنا پر انسان کے لیۓ یقینی ہوجاتی ہیں لیکن کُچھ رسوم و قیود جو نئی نئی عائد کی گئی ہوتی ہیں وہ آگے بڑھتے وقت کے ساتھ آگے جا کر سمجھ میں آتی ہیں قُرآنِ کریم میں اِن نئی رسوم و قیود کی پہلی مثال سُورةُالنساء کی اٰیت 11 تا اٰیت 13 میں بیان کیا گیا مسئلہِ وراثت ھے جو حرفِ"اِن" کی 16 مشروط شرائط کے ساتھ بیان کیا گیا ھے تاکہ وراثت کی جو جو صورت جس جس وقت پر سامنے آۓ تو اُس کا اُس وقت اُس آمدہ صورت کے مطابق فیصلہ کیا جاۓ اور اِن نئی رسوم و قیود کی دُوسری مثال یہی اٰیات بالا ہیں جن میں 6 حروفِ شرط "لو" کے ساتھ ایک نئی رسم و قید کے ساتھ ایک نیا معاشرتی مسئلہ بیان کیا گیا ھے اور اِس غرض سے بیان کیا گیا ھے کہ انسانی معاشرے میں جب بھی کوئی نئی معاشرتی صورتِ حال پیش آۓ تو اُس کو بھی اُس کے موجُود وقت کے موجُود تقاضوں کے مطابق اُس صورتِ حل کیا جاۓ اور جس طرح سے انسان کے اَموالِ میراث کو عقل و شعور کے ساتھ سمجھا جاتا ھے اسی طرح سے انسان کے اَعمالِ میراث کو بھی عقل و شعور کے ساتھ سمجھا جاۓ !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 561117 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More