وزیر اعظم پاکستان کے نام کھلا خط
محترم جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب السلام علیکم !
روز ازل سے اکثر لوگ اپنے لیے جیتے آئے ہیں جن کا تاریخ میں کوئی نام و
نشان بھی نہیں ملتا ،کچھ من چلے ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے
ہیں جو اپنی زندگی کو با مقصد اور با معنی بنا کر تاریخ کی کتابوں میں
ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح جیسے لوگوں نے ہمیں
غیر مسلم سے آزادی دلائی اور ایک الگ وطن بنا کر امر ہو گئے۔لیکن وہ وطن تا
حال غیر مسلم کی قید میں ہے۔ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہو گئے۔مگر ذہنی طور
پر آج بھی غلام ہیں۔پھر چاہے وہ لارڈ میکالے کا دیا ہوا تعلیمی پنجرہ ہو یا
پھر صہونیوں کی پاکستان اور اسلام مخالف سازشیں۔ایک استاد ہونے کی حیثیت سے
جب راقم نے پاکستان کے مسائل کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش کی تو نظر آیا کہ
پاکستان میں کوئی چوری نہیں، کوئی، زنا نہیں، کوئی ڈکیتی نہیں کوئی غر بت
اور بد عنوانی نہیں ،بلکہ اصل مسئلہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جو ہر طرح کے
جرائم کو پیدا کر رہا ہے ۔ اور ڈرپوک، کاہل، خود غرض لالچی اور غلام لوگ
پیدا کر رہا ہے۔ جس میں پاکستان کا تعلیمی نصاب، تعلیمی پالیسی ، تعلیمی
افسران ، حکومت ِ پاکستان اور اساتذہ سب اپنا اپنا کردا ربخوبی نبھا رہے
ہیں۔ اور موجودہ معاشرہ اسی تعلیمی نظام کے مرہون منت ہے۔آپکو اللہ نے اس
نظام میں اصلاحات نافذ کرنے کا موقع دیا ہے۔ جو کہ آپ بھرپور انداز میں کر
بھی رہے ہیں۔ لیکن راقم آپکی توجہ اس تعلیمی نظام کی طرف دلانا چاہتا ہے کہ
اگر آپ اس نظام کو آزاد اور خود مختار بنا دیں اور مکمل طور پر ایک جامع
اور خوبصورت نظام متعارف کرا دیں جہاں پر اس نظام سے نکلنے والی فائنل
پروڈکٹ کا اہم مسئلہ خود کے لیے نوکری تلاش کرنا نہ ہو بلکہ پاکستان کی
معاشی، سماجی، سیاسی، مذہبی بہتری کے لیے ایک بہترین شہری کا کردار ادا
کرنا ہو۔ اس کا مسئلہ کسب معاش نہ ہو بلکہ اس کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر
پاکستان کو عروج بخشنا ہو۔ تب جا کر پاکستان حقیقت میں قائداعظم محمد علی
جناح کا پاکستان بن پائے گا۔راقم کی دعا ہے جب پاکستان کی تاریخ کی بات ہو
تو قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ ایک نام عمران خان کا بھی ہو۔ کہ ایک
ہیرو نے مسلمانوں کو جسمانی آزادی دلائی اور دوسرے ہیرو نے ذہنی اور روحانی
طور پر پاکستانیوں کو آزادی اور خود مختاری سے ہمکنار کرایا۔پاکستان کے
تعلیمی نظام کے چند بہت اہم مسائل جو راقم یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نصاب رٹو طوطے اور غلام پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
جس کے 100 فیصد نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ یہ نظام کبھی بھی تخلیقی اور
تجدیدی ذہن پیدا نہیں کر سکتا۔
مار نہیں پیار تو حکومت نے متعارف کرا دیا لیکن تربیت کے لیے جتنی مار کی
ضرورت ہے وہ یا تو مل نہیں رہی یا پھر اس سے کہیں زیادہ مل رہی ہے جہاں
اساتذہ اپنے گھر کا غصہ بچوں پر نکالتے ہیں۔ آنے والے مستقبل کے معماروں کے
ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جا رہا ہے۔ تو ایسے میں اگر جانور پیدا ہوں جو
ڈنڈے کے علاوہ اور کوئی زبان نہ سمجھیں تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔
آفیسرز نے آج تک کوالٹی ایجوکیشن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ بلکہ انکی ساری
توجہ کاغذی کارروائی مکمل کرنے پر ہوتی ہے۔ جہاں پر ڈینگی کی سرگرمیاں مکمل
نہ کرنے پر اساتذہ کو معطل تو کیا جاتا ہے لیکن ایک بچہ اگر بدزبان اور بد
اخلاق ہو جائے تو اس پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
آفیسرز داخلہ مہم میں تو ایڑ ی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن تعلیمی کارکردگی
پر کبھی توجہ نہیں دیتے۔
سرکاری اساتذہ کو اپنے اوپر اتنا بھروسہ ہے کہ وہ اپنے بچے کبھی بھی سرکاری
سکول میں داخل نہیں کراتے۔
پاکستان میں موجود 70% سے زائد اساتذہ ایسے ہیں جو صرف کسب معاش کی وجہ سے
سکولوں میں موجود ہیں۔ جن کی ساری توجہ اپنا پیٹ پالنے کی طرف ہے نہ کہ قوم
کو سنوارنے پر۔
100 طلبا کی جماعت میں صرف 3 لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے اور
باقی 97 کو لالچی خود غرض، حاسد اور احساس کمتری کا شکار کیا جاتا ہے۔ اور
ان کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ اچھے نمبر لوگے تو ہی دنیا قدر کرے گی ورنہ
تمہاری کوئی اوقات نہیں۔
پاکستان میں تعلیم بچوں کو نوکری کا لالچ اور معاشرے کا خوف پیدا کر کے
دلائی جاتی ہے جس سے وہ بچہ زندگی بھر لالچی اور ڈرپوک ہی رہ جاتا ہے۔ بچوں
کو قائل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کے لیے تحریک پیدا کی
جاتی ہے۔ تبھی تخلیقی اور تجدیدی ذہن ہمارے ہاں پیدا نہیں ہو رہے۔ جو کہ
ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
عمر گزرنے کے ساتھ اساتذہ میں وہ انرجی باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنے فرائض
100 فیصد ایمانداری سے نبھا سکیں۔ جو سینئر اساتذہ ہیں انکو انتظامی امور
کے لیے منتخب کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنا تجربہ ٹھیک جگہ پر استعمال کر
سکیں۔
امتحانی نظام کابالکل بیڑا غرق ہو چکا ہے جس میں امتحانی عملہ بالکل
پاکستان کے صدر کی طرح ہوتا ہے۔ جو صرف کسی روبوٹ کی مانند محض دکھانے کے
لیے ہوتا ہے۔ سنٹر کیسا چلے گا یہ اوپر والے ٹاوٹ اور سیاسی حضرات طے کرتے
ہیں۔
یہ لسٹ بہت طویل ہے لیکن راقم آپکا مزید وقت ضائع کیے بنا اپنی بات کو یہیں
سمیٹتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تعلیمی نظام کی اصلاحات آپکے
مقدر میں لکھ دے۔ آمین!
ابن محمد یار
|