محترم جناب وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان انچارج وزیر کھیل خیبر پختونخواہ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ویسے حیات آباد میں نئے بننے والے تھری ڈی سکواش کورٹ کی لاگت کتنی ہے اس کا آپ کو اندازہ ہے اس بارے میں ماہرین سے رابطہ کریں کہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ آپ کو کس طرح ماموں بنانے کی کوشش کی جارہی ہیں ' ٹھیک ہے تھری ڈی میں شیشے لگتے ہیں لیکن یہ شیشے دس کروڑ کے ہوتے ہیں.. بے شک وزیراعلی صاحب آپ ماموں بن جائیں لیکن عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ماموں بننے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ سیاستدان ہیں اور پھر پھندا یہی بیورو کریسی آپ کے گردن کے آگے فٹ کریگی. |
|
جناب عالی! امید ہے مزاج گرامی بخیریت ہونگے.چونکہ آپ کے پاس وزیر کھیل کا اضافی عہدہ بھی ہے اس لئے کھیلوں کے حوالے سے ہونیوالی مختلف بے قاعدگیوں کے بارے میں آگاہ ہونا آپ کی ذمہ داری ہے ' یہ بات خوش آئند ہے کہ اس وزارت کیلئے آپ نے اضافی فنڈز جاری کئے مختلف منصوبے شروع کئے تاکہ نوجوان نسل مثبت سرگرمیوں میں مشغول ہو اور منفی سرگرمیوں کے خاتمے کیساتھ ساتھ صوبے کے نوجوان نسل کھیلوں کے میدان میں آگے آسکیں.سب سے اچھی بات یہ بھی ہے کہ کھیلوں کے اس وزارت میں وابستہ افراد کو آپ نے اوپن ہینڈ دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت سارے منصوبے سرخ فیتے کا بھی شکار نہیں ہورہے اور کام جاری ہے. جناب عالی! سب سے پہلے آپ کو ایک اہم ایشو کے بارے میں آگاہ کرنا اپنی ذمہ دار ی سمجھتا ہوں . آپ کی حکومت نے حال ہی میں بجٹ سال 2021-22 منظورکیا صوبائی وزیر فنانس نے اعلان کیا کہ فنڈز جاری کیا گیا ہے لیکن فنڈز کسی بھی وزارت کو جاری نہیں کیا گیا بشمول کھیلوں کی وزارت کے ' جس کی وجہ سے مختلف منصوبے کھٹائی کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں ' بیورو کریٹ تو مجبوری اور ڈر کی وجہ سے بات نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں تبادلوں سمیت اعلی حکام سے تادیبی کارروائیوں کا ڈر رہتا ہے . لیکن اپنے پیراشوٹروزیر فنانس سے آپ یہ تو پوچھ سکتے ہیں کہ فنڈز کے ریلیز ہونے کے حوالے سے انہوں نے کیا اقدامات کئے . فنڈز صرف ٹویٹ اور فیس بک پر جاری ہونے سے متعلق بیان جاری کرنے سے جاری نہیں ہوتے.برائے مہربانی اس اہم مسئلے پر توجہ دیں ورنہ سہ ماہی گزر جائیگی تو پھر مختلف سکیمیں بھی متاثر ہونگی اور نئے کام اور سکیمیں بھی بروقت نہیں ہوسکیں گے. محمود خان صاحب!آپ کی ہی وزارت یعنی نظام کھیل میں ایک انجنیئرنگ ونگ بھی موجود ہے جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مختلف منصوبوں کی براہ راست نگرانی کرتا ہے اور ایسے منصوبے بھی دیکھتا ہے جو مختلف پراجیکٹ کے ذریعے مکمل ہوتے ہیں اور انکی منظوری کے بعد متعلقہ منصوبوں کے کنٹریکٹرز کو فنڈز بھی جاری ہوتے ہیں اور سکیمیں مکمل ہوتی ہیں. کبھی آپ نے اس انجنیئرنگ ونگ میں کام کرنے والے اہلکاروں کی کارکردگی چیک کی ہیں.کہ انہو ں نے اب تک جتنے بھی سکیموں کی فائنل منظوری دی ہے اور فنڈز ریلیز کئے ہیں کیا وہ معیاری ہیں اور اب اس کی حالت کیسی ہے کیونکہ کروڑوں کی لاگت سے بننے ان منصوبوں کیلئے فنڈز عوام کے خون پسینے کی کمائی استعمال ہوتی ہیں لیکن اس قدر غیر معیاری مختلف سکیموں کا منظور کیا گیا ہے کہ اسے دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے کہ عوامی ٹیکسوں کے پیسوں سے تنخواہیں لینے والے انجنئیرنگ ونگ سمیت متعلقہ سکیمیں منظور کرنے والے افراد کے آنکھوں پر کونسی پٹیاں بندھی ہوتی ہیں کہ انہیں غیر معیاری کام بھی معیاری نظر آتا ہے. جناب وزیر کھیل خیبر پختونخواہ! غیر معیاری کام کے حوالے سے مختلف سکیموں کی رپورٹ آپ کے ساتھ پہلے بھی شیئر کی جاچکی ہیں لیکن چند چید ہ چیدہ سکیموں کے بارے میں آپ کی آگاہی کیلئے ایک مرتبہ پھر آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں. سال 2019 میں حیات آباد سپورٹس کمپلیکس جو کہ پوش علاقے میں واقع ہے میں واکنگ ٹریک بنایا گیا ہے جس پر لاکھوں روپے آپ ہی کی حکومت نے خرچ کئے لیکن اس واکنگ ٹریک کو صرف چھ ماہ ہی استعمال کیا جا سکا کیونکہ پھر کرونا کی صورتحال کی وجہ سے کھیلوں کی سرگرمیاں بند رہی اور آج سال 2021 میں یہ واکنگ ٹریک استعمال کے قابل نہیں. آخر اس واکنگ ٹریک پر غیر معیاری کام کا ذمہ دار کون ہیں اور اس سکیم کو منظور کرنے والے افراد سمیت انجنیئرنگ ونگ کے آنکھوں پر "کیا ڈالروں کی پٹی " بندھی ہوئی تھی جو انہیں یہ نظر نہیں آیا. اگر آپ کو اس میں شک ہے تو بے شک کسی بھی دن آپ خود چکر لگا کر واکنگ ٹریک کا چکر لگا کر دیکھ لیں اور پتہ کریں کہ اس غیر معیاری کام کا ذمہ دار کون ہے. اگر کنٹریکٹرہے تو پھر کنٹریکٹر کو سپورٹ کرنے والے کون ہیں. اسی طرح شاہی باغ میں لان ٹنیس کیلئے سنتھیٹک کورٹ بنانے کا اعلان کیا گیا جس پر بھی کروڑوں روپے کی لاگت آئی لیکن وہاں پر سنتھیٹک کورٹ کے نام پر صرف پینٹ لگا کر کام چلا یاگیا صرف ایک سال استعمال کے بعد لان ٹینس کے کورٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور کھلاڑی مجبوری کے عالم میں وہاں پر کھیلنے پر مجبور ہیں. یہی صورتحال پشاور سپورٹس کمپلیکس میں دو ماہ قبل بننے والے بیڈمنٹن کے سنتھیٹک کورٹ کی بھی ہے ' جس میں ہوا بھر آنے کے باعث ببل بننے کاسلسلہ شروع ہوگیا ہے دو مرتبہ غیر معیاری کام کیا گیا ' اور اب ٹرخائو پالیسی جاری ہے حالانکہ کنٹریکٹر نے پانچ سال کی گارنٹی /وارنٹی دی ہے لیکن کام معیاری نہیں کیا گیا ' جس کی وجہ سے بیڈمنٹن کورٹ خراب ہورہا ہے اور اس کا اثر کھلاڑیوں اور ان کے کھیل پر پڑ رہا ہے. محترم محمود خان صاحب! بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کیلئے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں بیڈمنٹن کورٹ بنایا گیا لیکن اتنا بند بیڈمنٹن کورٹ بنایا گیا ہے کہ پندرہ منٹ کھیلنے کے بعد کھلاڑیوں کے دل خراب ہونا شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ صاف ہوا کے آنے کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے حبس ' گرمی کی وجہ سے کھلاڑی اب بیڈمنٹن کے حیات آباد میں بننے والے بیڈمنٹن کورٹ میں کھیلنے سے گریزاں رہتے ہیں جبکہ ببل بننے کا سلسلہ یہاں بھی شروع ہوگیا ہے .اور لگتا ہے کہ تین ماہ قبل افتتاح ہونیوالے اس بیڈمنٹن ہال کو اگلے تین ماہ بعد بند غیر معیاری کام کرنے کی وجہ سے بند کرنا پڑے گا. ویسے حیات آباد میں نئے بننے والے تھری ڈی سکواش کورٹ کی لاگت کتنی ہے اس کا آپ کو اندازہ ہے اس بارے میں ماہرین سے رابطہ کریں کہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ آپ کو کس طرح ماموں بنانے کی کوشش کی جارہی ہیں ' ٹھیک ہے تھری ڈی میں شیشے لگتے ہیں لیکن یہ شیشے دس کروڑ کے ہوتے ہیں.. بے شک وزیراعلی صاحب آپ ماموں بن جائیں لیکن عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ماموں بننے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ سیاستدان ہیں اور پھر پھندا یہی بیورو کریسی آپ کے گردن کے آگے فٹ کریگی. میرے اس خط کا بنیادی مقصدکھیلوں کی وزارت میں ہونیوالی بعض بے قاعدگیوں کے بار ے میں آپ کو آگاہ کرنا ہے ' میرے بعض صحافی دوست" باڑ میں کوگ لرگے" یعنی ٹیڑھی لکڑی سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن میری مجبوری ہے کہ آنکھیں بند کرکے کام کرنے کی میری عادت نہیں اور ان چیزوں کے بارے میں آگاہی دینا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں. کیا آپ کے وزارت کھیل میں افسران کی کمی ہے جو ایک ہی اہلکار کو چار مختلف ایڈیشنل چارجز دئیے گئے ہیں ' اکائونٹ سے لیکر انجنیئرنگ ونگ کی ذمہ داری او رڈویلپمنٹ کے کام کو صرف ایک شخص کو دینا یہ کونسا انصاف ہے امید ہے کہ ان چیزوں کا نوٹس لیں گے اور تحقیقات کے حوالے سے احکامات جاری کرینگے. اس خط کی کاپی قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت نیب / انٹی کرپشن کو بھی بھیج رہا ہوں تاکہ انہیں بھی اپنے کام کا اندازہ ہواور مستقبل میں " شفاف احتساب" میں انہیں بھی آسانی رہے. شکریہ العارض ایک صحافی
|