کھیل کا شعبہ ' پی ایس بی دوغلی پالیسی اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی چوری میں تعاون

قائد اعظم والے نوٹ میں کتنا زور ہوتا ہے یہ تو سنا بھی تھا اور دیکھا بھی لیکن اس نوٹ کی بدولت پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور کی انتظامیہ نے جشن آزادی کے موقع پر وہ کام بھی کئے جسے کرنے کیلئے کبھی روادار بھی نہیں تھے ' اولمپک میں حالیہ ہونیوالی اعلی کارکردگی کے بعد پی ایس بی پر اٹھنے والے انگلیوں اور تنقید کو کم کرنے کیلئے پی ایس بی نے ملک بھر کے سنٹرز میں تمام کھیلے جانیوالے کھیلوں کے مقابلے منعقد کروانے اور اس میں حصہ لینے والوں کیلئے رقم دینے کا اعلان کیا تھا جسکے حصول کیلئے دیگر سنٹرز میں کیا ہوا یہ تو اللہ ہی جانے لیکن پی ایس بی پشاور کوچنگ اینڈ ٹریننگ سنٹر کی انتظامیہ نے کئی ماہ سے بند کراٹے کے کھلاڑیوں پر بند ہال بھی کھول دیا جسے اس وقت بطور سٹور استعمال کیا جاتا رہا حالانکہ کراٹے فیڈریشن اور ایسوسی ایشن کے نمائندے کئی مرتبہ ان کے پاس آئے کہ کھلاڑیوں کی ٹریننگ کیلئے بڑا مسئلہ ہے لیکن پی ایس بی پشاور کی انتظامیہ نے منی ہال کو دینے سے انکار کیا.
مزے کی بات تو یہ ہے کہ بیڈمنٹن کے جن کھلاڑیوں کو تربیتی سیشن دینے کیلئے وقت دینے سے انکار کیا گیا تھا صرف ایک لاکھ روپے کی خاطر انہی بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کو بڑی عزت کیساتھ بلا کر منی ہال میں بیڈمنٹن کے مقابلے بھی کروائے گئے تاکہ نہ صرف ہیڈ کوارٹر سے فنڈز بھی ملے اور ریکارڈ میں بھی یہ بھی ظاہر ہو کہ پی ایس بی پشاور سنٹر کی انتظامیہ کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں ہے ' جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہیں جس کی تصدیق بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں سمیت یہاں کے ملازمین سے بھی کی جاسکتی ہیں سب سے حیرانگی کی بات یہ تھی کہ جشن آزادی کے موقع پر منعقد کئے جانیولے ان مقابلوں میں پی ایس بی پشاور کی انتظامیہ نے چند مخصوص ملازمین کو مدعو کیا تھا جو اس سے قبل فوتگی کے باعث چھٹیوں پر تھے تاہم " باہمی مفاد" کی غرض سے چھٹیاں کینسل کرکے آئے اور چند مخصوص لوگوں کے مقابلے کروا کر یہ ظاہر کیا گیا کہ بڑ ی سطح کے مقابلے پی ایس بی پشاور کی انتظامیہ نے کروائے ہیں.
ملک میں کھلاڑیوں کو کھیلوں کی سہولت کی فراہمی کیلئے بننے والے ا س ادارے کا حال یہ ہے کہ حال ہی میں آٹھ کروڑ کا بجٹ ری نیویشن کے نا م پر صرف پشاور سنٹر کیلئے منظور کیا گیا ہے اس سے قبل ہونیوالی ری نیویشن میں الماریاں توڑ کر باتھ رومز بنا دئیے گئے تھے جبکہ اب دوسری مرتبہ باتھ رومز توڑ کر الماریاں بنانے کا کام جاری ہے یعنی عوامی ٹیکسوں کے پیسوں کو اڑانے کیلئے پی ایس بی کی انتظامیہ کو صرف بہانوں کی ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف حال یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل پی ایس بی پشاور کی عمارت کی حفاظتی دیوار گر گئی تھی جسے ابھی تک تعمیر نہیں کیا گیا اور پشاور صدر کے حساس علاقے میں گرنے والی دیوار نہ صرف سیکورٹی کیلئے بڑا رسک ہے بلکہ اس کے باعث سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں کھیلنے کیلئے آنیوالے کھلاڑیوں کی زندگیوں کو بھی خطر ہ ہے تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر سیکورٹی کیلئے دیوار ابھی تک کام شروع نہیں کیا گیا.
ایک طرف حال یہ ہے کہ پی ایس بی پشاور سنٹر گذشتہ کئی سالوں سے صرف سکواش پر ہی توجہ دے رہی ہیں اور ابھی تک نہ تو ڈسٹرکٹ ' نہ ہی صوبے اور نہ ہی قومی سطح کا کوئی کھلاڑی پیدا کرسکی ہیں دوسری طرف کچھ صرف کھلاڑیوں سے کمائی کیلئے نت نئے سلسلے شروع کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ وفاق کے زیر انتظام ادارے کا حال ابتر سے ابتر ہوتا جارہا ہے کچھ عرصہ قبل پی ایس بی پشاور کی عمارت میں جگہ ایک پرائیویٹ پارٹی کو ریسٹورنٹ بنانے کیلئے دیدی گئی جسے بعد میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ابھی تک یہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے تاہم اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ ابھی حال ہی میں کیاگیا جس میں پی ایس بی پشاور کی عمارت میں واقع ہال جس میں ٹیبل ٹینس کے کھلاڑی کھیلتے تھے کو چھ ماہ قبل نکال دیا گیا جس پر کھلاڑیوں نے احتجاج بھی کیا لیکن انتظامیہ نے ان کی احتجاج کو خاطر میں لائے بغیر ان سے جگہ خالی کروالی ' ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیو ں کو خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ایرینا میں جگہ فراہم کردی تاہم پی ایس بی نے متعلقہ جگہ ایک پرائیویٹ شخص کو جنہوں نے انوسٹمنٹ کی اور اس عمل میں ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایک کھلاڑی سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے بعض ملازمین بھی شامل ہیں نے سرکاری جگہ پر پرائیویٹ جیم شروع کردیا ہے جہاں پر آنیوالے افراد سے ممبرشپ کے نام پر ہزاروں روپے وصول کئے جارہے ہیں کئی ماہ سے جاری اس جیم کیلئے حال ہی میں پی ایس بی پشاور کی انتظامیہ کے ساتھ تیس ہزار روپے ماہانہ پر معاہدہ ہوگیااس معاہدے کے روز سے تیس ہزار روپے جیم پی ایس بی پشاورکی انتظامیہ کو ادا کریگی تاہم حیران کن امر یہ ہے کہ پی ایس بی کی اس عمارت کو خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے بجلی فراہم کی ہے یعنی کرائے کی مد میں پیسے اٹھارھویں ترمیم سے ختم ہونے والا ادارہ حاصل کررہا ہے جبکہ اس کے بجلی کے اخراجات صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ادا کررہا ہے جس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بعض " اہلکاروں "کا باہمی مفاد وابستہ ہے اور اسی مفاد کی وجہ سے اس غیر قانونی عمل پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی.
کیا سرکار ی پراپرٹی کو پرائیویٹ اداروں کے حوالے کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی کھیل کے شعبے میں ' یہ وہ سوال ہے جو پی ایس بی کی انتظامیہ سمیت خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دونوں ادارے عوام کے ٹیکسوں سے چلتے ہیں اور عوامی ٹیکسوں پر چلنے والے اداروں کو کسی فرد واحد کے احکامات کی نذر نہیں کیا جاسکتا ' نہ ہی اس حوالے سے ابھی تک پی ایس بی نے کوئی پالیسی بنائی ہے اور یہ اختیار بھی ایسے افراد کو حاصل نہیں جنہیں صرف " خالی جگہ" پر کرنے کیلئے تعینات کیا گیا ہو .اسی کے ساتھ ساتھ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی اس پالیسی پر بھی سردھننے کی ضرورت ہے کہ بجلی کے اخراجات کس طرح ایک پرائیویٹ جیم کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ برداشت کررہی ہیں حالانکہ ایک ماہ میں بجلی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے دو بجلی کے میٹر جل گئے اور پشاور سپورٹس کمپلیکس کی انتظامیہ نے اپنی غلطی کو چھپانے کیلئے ملازمین کو وارننگ جاری کردی ہیں کہ اگر کہیں پر کوئی لائٹ یا ائیر کنڈیشنر کھلا پایا گیا تو اس کی ادائیگی ملازم کے تنخواہ سے کاٹی جائیگی تاہم انہیں پی ایس بی کی عمارت کو دی جانیوالی بجلی نظر نہیں آرہی ' شائد اس کی وجہ چند مفاد پرستوں کا "اپنے جیبوں"کیلئے کیا جانیوالا ایکا ہے . جس سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی متاثر ہورہا ہے.
ان حالات میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ' چیف سیکرٹری ' سیکرٹری سپورٹس اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس سمیت پی ایس بی ہیڈ کوارٹر کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاملات کا نوٹس لیں ' کہ ایک طرف کھلاڑیوں کیلئے راستے بند کئے جارہے ہیں اور دوسری طرف سرکار ی پیسہ کو کتنی بے دردی سے اڑایا جارہا ہے جس کے اثرات نہ صرف ابھی موجود ہیں بلکہ آنیوالے وقتوں میں اس کا خمیازہ انہی اداروں کے بڑوں کو بھی بھگتنا پڑے گا.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499025 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More