جشنِ آزادی اور طوفانِ بدتمیزی

آزادی کی داستانیں بڑی درناک ہیں۔ ایک تاجر کتب اپنی زہرہ گداز داستان اس طرح بیان کرتا ہے کہ میرا گھر جل چکا تھا اور میں دکان میں بیٹھا تھا ۔ جب مجھے پتہ چلا کہ میرا گھر جلادیا گیا ہے تو میں گھر پہنچا توصرف دو سال کا بچہ زخمی حالت میں زندہ تھا ۔ میں نے اسے اٹھا یا اور دکان کی طرف چل دیا ۔ جب دکان کے قریب پہنچا تو کچھ غنڈے دکھائی دیے ۔ میں نے بچے کو چادر میں چھپالیا لیکن خونخوار درندوں نے مجھے اور میرے بچے کو دیکھ لیا ۔ وہ میری طرف لپکے اور جھپٹ کر ننھے کو مجھ سے چھین لیا۔ زخمی معصوم چیخ اٹھا ۔ لیکن درندوں کے دل میں رحم کا ذرہ بھی نہیں جاگا۔ میں نے ان لوگوں کی بہت خوشامد کی ، ان کے پاؤں چھوئے لیکن سفاک بالکل بھی نہ پسیجے ۔ انہوں نے مجھے ڈنڈے مار کر میرے ہاتھ زخمی کردیے۔ پھر غنڈوں نے آپس میں کچھ اشارہ کیا اور اس کے ساتھ ہی بچے کو اس زور سے پختہ فرش پر پھینکا کہ وہ بلبلا اٹھا اور آنکھوں کے ڈھیلے کھلے کے کھلے رہ گئے ۔ ایک بے د رد سفاک آگے بڑھا اور اور اس نے چھری سے وار کرکے اس کا بازو کاٹ دیا۔ دوسرے لعین نے اس کی ناک کاٹ دی۔ اسی طرح وہ ایک ایک کرکے اس کے اعضاء کاٹتے گئے ۔ جب بچہ چیختا تڑپتا تو وہ درندے کھلکھلا کر ہنستے اور تالیاں بجاتے۔ اس طرح میرے جگر کے ٹکرے کی جان میری آنکھوں کے سامنے مالک حقیقی سے جاملی۔

آج بھی وہ بزرگ بقیدِ حیات ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے خون کی ندیاں بہتی ہوئی دیکھی تھیں۔ جب وہ اپنی داستان سناتے ہیں تو ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ۔ ان کی داستانیں سن کر روح کانپنے لگ جاتی ہے۔ کلیجے پھٹنے لگ جاتے ہیں۔ ہندوستان سے پاکستان آتے ہوئے مسلمان راستے میں غیر محفوظ تھے۔ راستے میں پورے پورے قافلوں کو لوٹ کر قتل کردیا جاتا ۔ خوش قسمتی سے جو مسلمان سفاک درندوں سے محفوظ رہ جاتا وہ گرتا پڑتا چھپ چھپاکر پاکستان پہنچ جاتا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کو ہندوستان کی سرحدیں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کو گھروں سے باہر نکال کر گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ آزادی کی داستان بہت خونچکاں ہے۔ آزادی پلیٹ میں رکھ کر تحفے میں نہیں ملی بلکہ اس کے پیچھے ہزاروں مسلمانوں کی جان او ر مال کی قربانیاں ہیں۔ آزادی کی راہ میں کئی لو گوں کے گھر لوٹے گئے۔ خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں۔ ہزاروں جوانوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا ۔ بچوں کو قتل کیا گیا۔ اس راہ میں کئی مشکلات پیش آئیں۔ کئی سالوں کی جدو جہد کے بعد مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت کی نعمت میسر آسکی۔ پاکستان کی آزادی کا مقصد مذہبی آزادی اور خود مختاری تھا۔ پاکستان بنانے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس ملک میں آزادی کے ساتھ اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوسکیں اور آزادانہ اسلامی رسومات ادا کرسکیں۔ حق تو یہ ہے کہ اس عظیم نعمت کا احترام کرنا چاہیے۔ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا ‘ اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن افسوس اس وقت ہو تا ہے جب پاکستانی قوم اپنے پاکستانی ہونے کا حق ادا نہیں کرتی ۔

پاکستانی قوم ایک تہذیب یافتہ قوم کہلاتی تھی ۔ بدقسمتی سے آزادمیڈیا کی اخلاقی آوارگی نے تہذیب کادامن چھین لیا ہے۔ میڈیا نے مسلمان اور پاکستانی جوانوں کو غیر اخلاقی کردار میں ڈھال دیا ہے۔ وہ قوم جو کچھ سالوں پہلے عزت اور عصمت کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دیتی تھی ، بد قسمتی سے آج وہ قوم عصمت دری کرنے کے لیے اپنی جان کی بازیاں لگانے پر تُلی ہوئی ہے۔ بے لگام اور آوارہ میڈیا نے عزت اور ذلت کے پیمانے بدل دیے ۔جو امور چند سالوں پہلے معاشرے میں ذلت کا باعث بنتے تھے ‘ آج وہ نام نہاد اور جھوٹی عزت کا سبب بنائے جارہے ہیں ۔ اسی طرح جن امور سے عزت حاصل ہوتی تھی ‘آج وہ اس انداز سے پیش کیے جارہے ہیں کہ ذلت محسوس ہونے لگتی ہے۔

پاکستان کی آزادی کو پچھتر( ۷۵) سال مکمل ہونے کو ہیں ۔ پوری قوم ہر سال جوش و خروش سے آزادی کا دن منانتی ہے۔ ہر سال جشنِ آزادی کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم پاکستان کے حصول کے مقاصد میں غور کریں اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کی سعی کریں۔ آزادی کی اصل روح تلاش کریں ۔ بے شک آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت پر خوشی کا اظہار کرنا ہر پاکستانی کا حق ے۔ لیکن خیال رہے کہ خوشی کے اظہار کا طریقہ شرعی اور اخلاقی حدودو قیود میں ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں جشنِ آزادی کے دن باہر کی دنیا دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کو بدتہذیبی ، بداخلاقی اور بد تمیزی کرنے کی سند دے دی گئی ہو۔ ۱۴ اگست کی رات شروع ہوتے ہی ہوائی فائرنگ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید اس کے بغیر جشنِ آزادی کا حق ادا نہیں ہوسکے گا۔ جشن کے نام پر گلی کوچوں او ر سڑکوں پر بڑے بڑے اسپیکر لگاکر تماشہ لگانا اور ان تماشوں میں ڈھول اور نغموں کی تھاپ پر رقص بھی لازمی حصہ بن چکا ہے۔ پتہ نہیں کیوں آزادی کے موقع پر پاکستانی قوم جنون اور دیوانگی کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ تفریحی مقامات پر مردوں اور عورتوں کا مخلوط رقص ، بھنگڑے اور بے غیرتی دیکھ کر لگتا ہے کہ قوم کو جنسی آزادی دے دی گئی ہو۔ اسی طرح جشنِ آزادی کے موقع پر موٹر سائیکلوں کا سائلنسر نکال کر گلی کوچوں میں گشت کرنے کا چلن بھی قوم کے نوجوانوں میں رچ بس گیا ہے۔ اسی طرح گلی گلی میں بچوں کے ہاتھ میں باجے تھمادیے جاتے ہیں جس سے وہ پورے محلہ میں بجا بجا کر جشنِ آزادی کا سماں باندھ رہے ہوتے ہیں۔ الغرض جشنِ آزادی کے موقع پر بچوں اور بڑوں سب نے مل کر طوفانِ بدتمیزی مچایا ہوا ہوتا ہے اورکوئی انہیں روکنے والا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے آوارگی اور بد تہذیبی کوجشن منانے کا انداز سمجھ لیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسی آوارہ اور بیہودہ حرکتوں سے روکنے والے کو قدامت پسند اورغدارانِ وطن کی صف میں شامل کرلیاجاتا ہے۔

بے شک ہر انسان کو معاشرتی آزادی حاصل ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آزادی کے نام پر اپنی تہذیب اور ثقافت کا جنازہ نکال دے ۔ بدتمیزی کسی بھی مہذب قوم و ملت کا طریقہ نہیں ہوتا۔ ایک شخص جو پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ہو، اسے قطعاً یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی اخلاقی اقدار کو پامال کرے۔ ہمیں اپنی قوم کے بچوں اور جوانوں کو اس بات کا شعور دینے کی ضرورت ہے کہ جشنِ آزادی کا مقصد اور مطلب شور شرابا، بدتمیزی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنا نہیں ہے بلکہ آزادی کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے ملک و قوم کی سلامتی اور استحکام کے لیے دعائیں کرنا ہے اور شہداء کو ایصالِ ثواب کرنا ہے۔

 

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 86688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.