وطن سے محبت فطرت کے قریب ترین عمل ہے۔ کیا چرند،
کیا پرند، کیا حیوان اور کیا انسان ہر کوئی اپنے گھر اپنے وطن سے محبت کرتا
ہے۔ صبح سویر ے اپنے گھونسلوں سے رزق کی تلاش میں سینکٹروں میل کا فاصلہ طے
کرنے کے بعد پرندے شام کو پھر اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب رخت سفر باندھتے
ہیں۔اور اک انسان جس کو اللہ کریم کی بنائی ہوئی تمام مخلوقات میں اشرف
المخلوقات ہونے کا اعزاز حاصل ہے، وہ کیونکر اپنے وطن سے محبت نہیں کرے
گا۔جس کے پاس عقل و شعور ہے یقنی طور پر انسان کے لئے رنج و غم، خوشی غمی
جیسے لمحات کو محسوس کرنا عین فطری عوامل ہیں۔دنیا میں بسنے والا ہر انسان
اپنے گھر، اپنے گاؤں، اپنے شہر اپنے ملک سے محبت کرتا ہے۔اسی طرح وطن عزیز
مملکت خدادا داسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والا ہر باشندہ اپنے پیارے
وطن پاکستان سے بھی محبت کرتا ہے۔ہر پاکستانی گاہے بگاہے پاکستان سے اپنی
محبت کا اظہار مختلف مواقع پر کرتے رہتے ہیں۔کسی بین الاقوامی میدان میں
کوئی معرکہ مارنے پر خوشی کا اظہار کیا جاتا تو کبھی کسی پاکستانی فرد، کسی
سپورٹس مین یا ٹیم کاکھیل کے میدانوں میں کامیابی کا جھنڈا گاڑنے پر خوشی
کا اظہار کیا جاتا ہے۔وطن عزیز پاکستان میں اگست کے مہینہ کی پہلی صبح کا
سورج اک حسیں محبت کا احساس لیکرطلوع ہوتا ہے۔کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا
عورت،کیا مرد، کیا امیر اور کیا غریب، ماہ اگست کی شروعات کیساتھ ہی یوم
آزادی 14 اگست کو بھرپور طریقہ سے منانے کے لئے ہر کوئی اپنی تئے تیاریوں
میں مصروف نظر آتا ہے۔ بازاروں میں سبز ہلالی جھنڈوں کی بھرمار دیکھائی دے
رہی ہوتی ہے۔ رنگے برنگے اسٹیکرز جن پر قومی ہیروز، قومی لیڈران اور وطن
عزیز کے مختلف مقامات کی تصاویر ہیں، رنگ برنگی جھنڈیاں، سفید سبز رنگوں سے
بھرپور ٹوپیاں اور قومی لیڈران کی تصاویر والی ٹی شرٹس خصوصی طور پر بچوں
کے لئے خریداری میں دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔نوجوان یوم آزادی منانے کے لئے
بہت جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ اسکول، کالجز، یونیورسٹیز
میں یوم آزادی کے حوالہ سے خصوصی پروگرام تشکیل دیئے جارہے ہیں۔ سیاسی،
سماجی، مذہبی، حکومتی اور اپوزیشن کی پارٹیاں بھی اپنے اپنے پلیٹ فورمز سے
یوم آزادی کے دن کو بھرپور انداز میں منانے کی تگ و دو میں مصروف عمل
دیکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔ زندہ قومیں اپنے قومی تہواروں کو مناتی ہیں
کیونکہ ان تہواروں کومنانے ہی میں قوموں کی بقا ء ہے۔بزرگ نسل چھوٹے بچوں
اور نوجوانوں کو قومی تہواروں کی اہمیت بارے معلومات فراہم کرتے ہیں۔جس سے
ان قومی تہواروں کی اہمیت سینہ بہ سینہ نئی نسل تک منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اسی
طرح والدین، بہن بھائیوں کی محبت کی طرح پاکستان سے محبت ہماری گھٹی میں
شامل کردی جاتی ہے۔ اس وطن پاک سے محبت ہمیں کیوں نہ ہو۔یوم آزادی کو منانا
پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ مگر گذشتہ چند برسوں سے یوم آزادی
منانے کے لئے جو طریقہ کار استعمال کئے جارہے ہیں؛ وہ انتہائی قابل توجہ
ہیں۔ لاکھوں کروڑوں روپے اشتہار بازی کی نظر کئے جارہے ہیں۔چھوٹی بڑی
سرکاری نیم سرکاری عمارتوں پر لاکھوں کروڑوں روپے بجلی قمقموں کو روشن اور
چراغاں کرنے کے نام پر اُڑادیے جاتے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے
سیاسی مخالفین سے مقابلہ کرتے ہوئے شہروں کے چوراہوں، چوکوں پر 40فٹ کے بڑے
بڑے فلیکس بورڈز اور بجلی کے کھمبوں، گلیوں میں بڑے بڑے بینرز پر اپنے اپنے
سیاسی قائدین اور سپورٹران کی قدآور تصاویر کے ساتھ جشن آزادی مبارک کے
اشتہارات لگوا رہے ہوتے ہیں، اور ان فلیکسز اور چوراہوں میں لگے بورڈز پر
لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ اس فضول خرچی کے بغیر کیا ہم یوم آزادی نہیں منا سکتے؟ یا پھر اس رقم
سے لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں غریب بچوں بچیوں کے لئے اسکولز نہیں
بنوا سکتے؟ یا پھر ایسے اسکولز جہاں پر بنیادی ضروریات کی اشیاء ناپید ہیں
وہ اشیاء مہیا نہیں کی جاسکتیں؟ یا ان رقوم سے چھوٹے چھوٹے علاقائی ہسپتال
نہیں بنائے جاسکتے؟ ان بڑے بڑے سیاسی لیڈران کے قرب و جوار میں سینکٹروں
ایسے افراد بھی رہتے ہونگے کہ جن کواس قیامت خیز مہنگائی کے دور میں دو وقت
کاکھانا بھی ٹھیک طرح سے میسر نہیں ہوتا ہوگا۔ کیا اشتہارات کی مد میں خرچ
کی جانے والی رقوم ان غریبوں کی امداد میں صرف نہیں کی جاسکتی؟ اسی طرح کچھ
عرصہ سے منچلے نوجوان موٹر سائیکل کے سائلنسر نکلوا کر ہاتھوں میں بڑے بڑے
باجے پکڑے سڑکوں پر شورو غوغا کرتے اور ون ویلنگ کرتے ہوئے دیکھائی دیتے
ہیں۔ کئی منچلے ایسی حرکات کرتے ہوئے حادثات کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن چکے
ہیں اور کئی اپنے ہاتھ پاؤں زخمی کرواکر ہمیشہ کے لئے اپاہج بن
بیٹھے۔بہرحال اس سال محکمہ پولیس کی جانب سے منچلوں کی جانب سے اس بے ہنگم
جشن کی روک تھام کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے گئے ہیں تاکہ عوام الناس کو
اس بے ہودہ پن سے بچایا جاسکے۔اسی سلسلہ میں گوجرانوالہ میں محکمہ پولیس کی
جانب سے موٹر سائیکل ورکشاپس مارکیٹ کے سامنے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعہ سے یہ
اعلانات کئے گئے کہ اگر اس یوم آزادی کے موقع پر کوئی منچلا نوجوان بغیر
سائلنسر کے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے پکڑا گیا تو اُس منچلے کے ساتھ ساتھ اُس
ورکشاپ کے مالک کو بھی پابند سلاسل کیا جائے گا جہاں سے منچلے نوجوان نے
موٹر سائیکل کا سائلنسر نکلوایا تھا۔آخیر میں یوم آزادی کے دن سڑکوں پر
خرمستیاں اور شوخیاں مارنے والوں، لاکھوں کروڑوں روپے کی فضول خرچی کرکے
اپنی اپنی خودنمائی کرنے والے سیاسی لیڈران سے اک چھوٹا سا سوال۔ کیا ان کو
معلوم ہے کہ یہ دن شوخیاں مارنے، فضول خرچی کرنے کی بجائے شکرانے کے نوافل
پڑھنے کا دن ہے۔ کیونکہ جس وطن عزیز کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے آباؤ اجداد
نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے، اور ہجرت کرکے اپنے مال و مویشی اور اپنی
جائیدادوں کو وطن عزیز کی خاطر قربان کیااور ہمارے پُر کھوں نے وطن عزیز کی
خاطر ہجرت کی اور اپنے آباؤ و اجداد کی قبروں تک کو چھوڑ کرآگئے۔ کیا ہمارے
آباؤ اجداد نے یہ سب قربانیاں خرمستیاں، شوخیاں اور فضول خرچی کرنے کے لئے
کی تھیں؟ نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ چلیں آئیں اس مرتبہ عہدکریں کہ یوم
آزادی اک نئے مگر بھرپور طریقہ سے منائیں۔ چلیں آئیں اس مرتبہ بڑے بڑے
فلیکس بنوانے کی بجائے اپنے اپنے علاقہ کے یتیم، مسکین اور لاوارث افراد کی
دادرسی کریں، چلیں آئیں لاکھوں کروڑوں روپے بڑی بڑی شاہراہوں، بلڈنگز پر
برقی قمقموں کی روشنی کی خاطر اُڑانے کی بجائے اسکولز، کالجز اور
یونیورسٹیز کے غریب بچوں کی مفت تعلیم کے بندوبست پر لگادیں۔ چلیں آئیں اس
سال ہم اپنے اپنے حصہ کا اک ننھا منھا پودا لگادیں، جو کل بڑا ہوکر ہماری
آنے والی نسلوں کے کام آسکے۔اس سال سوشل میڈیا پر اک بہت ہی خوبصورت ٹرینڈ
وائرل ہوچکا ہے کہ ”پاں“ کی بجائے ”چھاں“ کیجئے۔ یعنی باجوں پر پیسا خرچ
کرکے چند لمحات کے شورشرابہ کی بجائے شجر کاری کے لئے اک ننھا سا پودا
اُگائیں، جو آنے والے وقت میں ناصرف ٹھنڈی چھاؤں دے گا، ماحول کو خوشگوار
کرے گا بلکہ موسمی پھل بھی مہیاکرے گا۔یاد رہے ہمار ا پیارا مذہب اسلام بھی
ہمیں فضول خرچی سے منع کرتا ہے۔
|