تکریم ِ انسانی کا داعی

یورپ کی اخلاقی حدود، معاشرتی اقدار،رسم و رواج،خاندانی انداز، عزت و عفت اور شرم و حیاء کا تفصیلی ذکر اگلے کالم میں آئے گا لیکن فی الوقت میں یورپ کے علمی تفوق اور اس کی سائنسی ایجادات کا ذکر کریوں گا تا کہ مسلمانوں میں بحثیتِ قوم یہ احساس پیدا ہو جائے کہ سائنسی ترقی کے بغیر اس کرہِ ارض پر اپنا مقام بنانا نا ممکن ہے۔سائنس کیا ہے ؟ قوانینِ فطرت کو طشت از بام کرنے کا دوسرا نام ہے ۔ علم کے سارے رموزجو سائنسی ایجادات کی بنیاد بن رہے ہیں اس کائنات میں پہلے سے ہی رکھ دئے گے ہیں۔یہ اﷲ تعالی کی بے شمار عنائیات اور عطاؤں کا کمال ہے کہ انسانی زندگی کیلئے جو کچھ بھی ضروری تھا وہ اس کرہِ ارض پر اس کی پیدائش سے قبل رکھ دیا گیا تھا۔ہوا، پانی، آگ اور روشنی تو بلا معاوضہ ہر انسان کو میسر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خوردو نوش کی ساری اشیاء مہیا کر دیں تا کہ انسان کو اپنی زندگی گزارنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہو۔زمین کی تہوں میں معدنیات کے ساتھ ساتھ پانی کے ذخائر بھی رکھ دئے تا کہ انسان کوکھیتی باڑی اور اناج اگانے میں کوئی رکاوٹ در پیش نہ ہو۔در اصل اس کے بغیر انسانیت اپنے ارتقاء کا سفر طے نہیں کر سکتی تھی۔سچ تو یہ ہے کہ سائنس اپنی جانب سے کچھ بھی عطا نہیں کرتی بلکہ وہ سارے علمی اور سائنسی خزانے جو اس فضا میں قدرت نے روزِ ازل سے رکھ دئے ہیں سائنس ان سے ہمیں روشناس کرواتی ہے۔ہر وہ چیز جو سائنسی ایجادات کا موجب بنتی ہے اس کے سارے لوازمات پہلے ہی سے اس کرہِ ارض پر موجود ہوتے ہیں ۔ کششِ ثقل کا قانون ازل سے موجود تھا لیکن آئزک نیوٹن وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے اس کو دریافت کیا اور پھر اس ایک قانون نے انسانوں کی سہولیات کیلئے سائنسی ایجادات کی نئی راہیں کھول دیں ۔ ریڈیائی لہریں جو اس وقت پیغام رسانی کا ذریعہ بنی ہو ئی ہیں اسی فضا میں تیر رہی ہیں۔انھیں دریافت کرنا اور انھیں سائنسی ایجادات میں استعمال کرنا سائنس دانوں کا کمال ہے۔پچاس سال قبل ٹیلکس کا بڑا شہرہ تھا۔جس کمپنی کے پاس ٹیلکس کی سہولت ہوتی تھی وہ بڑا طورخم خان سمجھا جاتا تھا۔ابھی کچھ سال گزرے تھے کہ فیکس مشین نے ٹیلکس مشین کاکام تمام کر دیا۔ایک طرف سے کاغذ مشین پر رکھو اور ہزاروں میل کی دوری پر س کاغذ کو وصول کرنا انسان کے ذہنِ نا رسا کو حیران کرنے کیلئے کافی تھا ۔اس کے بعد کمپیوٹر میں ای میل اور ونڈو نے فیکس مشین کی اہمیت کو گھٹا دیا۔ابھی یہ سلسلہ چند سال ہی چلا تھا کہ ویٹس اپ نے سب کا دھڑن تختہ کر دیا۔اب ویڈیو فون نے حیرانگی کے نئے در کھول دئے ہیں اور انسان ہزاروں میل کی دوری پر اپنے پیاروں سے ویڈیو لنک سے ہمکلام ہو کر اپنی نگاہوں کو تسکین سے ہمکنار کر لیتا ہے۔،۔

سوال یہ نہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے انسان کو فیصلہ کرنے کی جو آزادی عطا کی تھی اس نے اس کرہِ ارض کی ہئیت ہی بدل ڈالی۔یورپی اقوام علم کی جستجو میں لگ گئیں جبکہ مسلم اقوام طاؤس و رباب کی دنیا میں مستغرق ہو گئیں۔سلطنتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت میں یہی کچھ ہو تا تھا۔کنیزوں اور لونڈیوں نے حکمرانوں سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی تھی۔جس زمانے میں ہندوستان میں تاج محل بن رہا تھا یورپ علمی درسگاہیں بنانے میں جٹا ہوا تھا۔شاجہاں نے ہندوستان کی ساری دولت اپنی چہیتی بیگم کی یادگار پر خرچ کر دی۔ اس نے آنے والی نسلوں اور ان کی بہبود سے آنکھیں بند کر لیں جبکہ یورپ نے علم و ادب کی ترویج کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔اس کا نتیجہ تو یہی نکلنا تھا کہ ایجادات کا سہرا یورپ کے سر بندھتا۔مسلمان باہمی جنگوں اور مناقشوں میں الجھے رہے اور یورپ تحقیق جستجو میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتا چلا گیا۔بحثیتِ مسلم امہ ہم سائنسی علوم کی جانب مراجعت کریں گے تو بات بنے گی نہیں تو درِ اغیار پر سجدہ ریزی ہی ہمارا شیوہ رہے گی۔جو قومیں وقت کا ساتھ نہیں دیتٰ خود بخود مٹ جا یا کرتی ہیں۔وقت کا تقاضہ ہے کہ دولت کو عیش و عشرت پر استعمال کرنے کی بجائے علم کی ترویج پر اسے خرچ کیا جائے۔وزیرِ اعظم عمران خان جو کہ تعلیم پر خطیر رقم خرچ کرنے کا اراد ہ رکھتے تھے ان کے اپنے دورِ حکومت میں تعلیم پر ۲(دو)فیصد بجٹ مختصص کیا جاتا ہے ۔کیا اتنی کم رقم سے علمی دنیا میں کوئی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے ؟در اصل تعلیم ہمارے حکمرانوں کا دردِ سر نہیں۔ ان کی دردِ سری ذاتی کاروبار کو وسعت دینا اور ملکی خزانے کو ہڑپ کرنا ہو تا ہے لہذا وہ ایسے منصوبے تشکیل دیں گے جس میں انھیں کمیشن ملے اور وہ اپنی دولت میں بے حدو حساب اضافہ کر سکیں۔بڑی بڑی ڈیلوں میں اربوں کی کمیشن معمولی بات ہے۔آئل اور گیس کی وزارت میں ہر روز ٹیلیویژن پر کمیشن کھانے کی داستانیں ہم سنتے رہتے ہیں۔حکومتی وزرا اور اپوزیشن ایک د وسرے پر کمیشن کھانے کے الزامات دہراتے رہتے ہیں۔الزامات لگائے جائیں گے لیکن کمیشن کی وہ رقم جو کسی وزیر نے ہڑپ کی ہوگی اس کی ملکی خزانے میں واپسی کی کوئی رہ نہیں نکالی جائے گی۔مقدمہ بھی دائر ہو گا چند اہ وہ وزیر جیل میں بھی رہے گا لیکن اس مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہو گا کیونکہ سب اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ایک سے ایک بڑھ کر نمونہ ملے گا جو ہمیں بیوقوف بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرے گا ۔وہ باتوں باتوں میں سارا جہاں فتح کر لے گا لیکن اس کی عمل کی دنیا بالکل بانجھ ہو گی کیونکہ وہاں ذاتی مفادات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔،۔

میری ذاتی رائے ہے کہ علم سے محبت اور سائنسی علوم کے جنون نے یورپ کو جو بلند مقام عطا رکھا ہے ایک دن ان کی معاشرتی بے راہ روی، بے چینیی اور بے سکونی کی روش انھیں اسلام کی جانب راغب کر دے گی ۔اسلام اپنی اصل میں تکریمِ انسانی کا داعی ہے ،امن اور محبت کا پیام بر ہے اور اسلام کی نظر میں اعلی وا دنی کی کوئی تمیز نہیں۔جاوید نامہ میں اقبال کی زبان سے سنئے (مذہبِ او قاطع ملک و نسب۔،۔از قریش وہ منکر از فضلِ عرب۔،۔ در نگاہِ او یک بالا و پست ۔،۔ با غلامِ خویش بر یک خواں نشست )۔ترجمہ ۔ (حضور ﷺ کی نظر میں نسل اور قبیلہ کو خصوصی اہمیت حاصل نہیں ۔ان ﷺ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں ۔ حضور ﷺ قریشی تھے لیکن وہ عرب ہونے کو وجہِ افتحار نہیں سمجھتے حتی کہ وہ تو اپنے غلاموں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر کھانا تناول فرماتے )در اصل یورپی افراد کی نجی زندگیوں میں جو ایک خلاء ہے، جو ایک بے چینی ہے ،جو ایک وسوسہ ہے،جو ایک تنہائی ہے،جو ایک بے کلی ہے ا ور جو ایک سونا پن ہے اس کا کوئی حل سائنس کے پاس نہیں ہے۔ خاندنی یونٹ جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،خونی رشتے جس طرح بے حسی کا نمونہ ہیں،معاشرتی قوا نین جس طرح بے رنگ ہیں،بے حیائی اور برہنگی جس طرح ذہنی صدموں کا موجب بنی ہوئی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔انسانی زندگی صرف جوانی کا نام نہیں ،اس میں بڑھاپا بھی ہے ،بیماری بھی ہے،اس میں تنہائی بھی ہے،اس میں مکروفن بھی ا ہے اور اس میں بے اعتنائی بھی ہے۔انسان جتنا بھی ماڈرن بن جائے ،جتنا بھی لبرل بن جائے ،جتنا بھی ترقی پسند بن جائے ،جتنا بھی بے حس بن جائے ،جتنا بھی لا تعلق ہو جائے ،جتنا بھی کھلا ڈھلا بن جائے اس کے اندر شرم و حیاء عزت اور عصمت و عفت کا مادہ کبھی مردہ نہیں ہوتا وہ کسی نہ کسی لمحے ضرور سر اٹھا تا ہے۔یورپ میں اکثرو بیشتر جنونی افراد کی جانب سے جو غیر انسانی افعال کا ارتکاب ہو تا ہے اس کے پیچھے انسان کے اندر چھپے ہوئے انہی جذبوں کی کارستانی ہو تی ہے۔ اقبال ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے (بر تر از گردوں مقامِ آدم است۔،۔ اصلِ تہذیب احترامِ آدم است) کیا گردوں سے بلند تر انسان برہنگی اور بے حیائی کا نمونہ ہوتے ہیں؟ اسلام در حقیقت احترامِ آدم کی داستان ہے۔اقوامِ متحدہ کے سارے بنیادی حقوق اسلامی تعلیمات سے کشید کئے گے ہیں لہذا یورپی اقوام کی اسلام کی جانب مرا جعت کا سفر میرے لئے حیران کن نہیں ہو گا۔اقبال کی زبان سے حقائق و معارف کی کہانی سنئے (پاسباں مل گے کعبہ کو صنم خانوں سے)۔،۔

 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515637 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.