بہادری سے جینا سیکھیں؟

مصنف سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ [email protected]
تحریر: ذوالفقار علی بخاری


مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس بار بھی پاس ہو سکوں گا؟
امتحانات پتا نہیں کیسے ہونگے؟
آج سبق نہ یاد کیا تو کل کیا ہوگا؟
میری بہت پٹائی ہوگی؟
لوگ کیا کہیں گے کہ جوان بیٹی یوں سرعام رسواء ہوئی ہے؟
بیٹے کی عزت خراب ہونے کا دُکھ ساری عمر رہے گا؟
تمہارے ابا نے جان لے لینی ہے؟



یہ سب وہ فقرے ہیں جو مختلف مواقع پر ادا کیے جاتے ہیں جو اندر کے خوف کو بھرپور طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
آپ اس بات کو بخوبی جانتے ہونگے کہ ہم میں سے اکثر لوگ کسی نہ کسی خوف میں مبتلا ہیں۔ کچھ کا خوف تو ایسا ہے جو کہ درست ہے مگر کچھ خوف ایسے ہوتے ہیں جو کہ ہماری زندگی کو بہت دشوار بنا دیتے ہیں۔ابھی یہی دیکھیں کہ جب آپ یہ سوچیں کہ آپ جتنی بھی محنت کریں گے،آپ کو امتحانات میں اچھے نمبرز نہیں مل سکتے ہیں، تو پھر آپ کو کیا حاصل ہوگا؟



یہی خوف ہی ہے جو ہمیں دنیا میں اچھی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود بھی آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم میں سے بہت سے لوگوں کے خواب بس خواب ہی رہ جا تے ہیں۔ہم پھر باقی ماندہ زندگی اسی خوف کی وجہ سے پچھتاؤے میں گذار دیتے ہیں کہ کاش ایسا کر لیتے تو آج ہم بہتر زندگی گذار رہے ہوتے۔جب ہمارے پاس وقت ہوتا ہے کچھ کرنے اور پانے کا موقعہ ضائع کر دیتے ہیں اوربعدازں افسوس کر تے ہیں۔آپ کو علم ہونا چاہیے کہ یہی وہ خوف ہے جو ہمیں غلام بنا کر اپنی مرضی کے کام کرواتا ہے۔



آپ اکثر اخبارات میں پڑھتے ہونگے کہ فلاں فلاں کے ساتھ جسمانی یا جنسی ہراسگی ہوئی ہے۔ ہم سب کے لئے یہ ایک خبر ہوتی ہے مگر یہ واقعات کسی بھی انسان کی زندگی کو برباد کر دینے والے ہوتے ہیں، اس کے بعد کوئی بھی شخص نارمل زندگی نہیں گذار سکتا ہے، اُس کے اندر ایک خوف جمع ہو جاتا ہ۔ ےاُس فرد کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے اندر قائم ہونے والے اس ڈر کو ختم کرنے کی کوشش کرے کہ ایک واقعے پر زندگی کو ختم کرنا عقلمند ی نہیں ہے اور نہی ہی یہ سوچ اچھی ہے کہ آپ سب کچھ چھوڑ کراپنی زندگی سے اُکتا جائیں۔اس صورت حال سے نکلنے کے لئے کسی ماہرنفسیات سے رابطہ بے حد ضروری ہو جاتا ہے، تاہم ہمارے ہاں ماہرنفسیات سے رجوع کرنے والے افراد کو ہی پاگل تصورکیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثرمریض خود کشی کرنے کی جانب مائل ہو جاتے ہیں اورکربھی لیتے ہیں کہ ہمارے آس پاس کے لوگ بھی اُن کو ایسی گندی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ موت کے سوا اورکوئی چارہ نہیں رہتا ہے۔دیکھیں اگرکوئی بہت قریبی یا اجنبی شخص آپ کو زبردستی ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار کرتا ہے تو آپ ایک خوف وکرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اوراس سے جلد نکلنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ بعدازں یہ آپ کو کسی کام کے قابل نہیں چھوڑتا ہے۔



آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر لوگ جسمانی طور پر معذور ہو جاتے ہیں تو ایک نہ ایک دن اُن کو صبر آہی جاتا ہے تاہم جو ذہنی اذیت کوئی جنسی ہراسگی کے طور پر اُٹھاتا ہے وہ عمر بھر نہیں بھلائی جا سکتی ہے اس زخم کے مندمل ہونے میں برسوں بھی لگ سکتے ہیں اور چند مہینے بھی۔ اس لئے ضروری یہ ہوتا ہے کہ اُس خوف کو جو سر پر سوار ہو گیا ہو اُسے محبت اور توجہ کے رویے کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ہم ہر طرح کے خوف کو دور کر سکتے ہیں مگر پہلی شر ط خود کو آمادہ کرنا ہوتی ہے کہ ہمیں اسے ختم کرنا ہے۔

ہمار ے ہاں اگر مرد یا عورت کسی بھی طرح کے غلط سلوک کا شکار ہو جائیں تو پھر دونوں جانب سے ہی اعتراضات ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔معاشرہ برائی کا شکار ہونے والے مرد اورعورت دونوں کو ہی نہیں بخشتا ہے۔



اس حوالے سے ماہر نفسیات اسماء بتول کہتی ہیں کہ
”مجھے سمجھ نہیں آتی اس معاشرے کی، مرد اور عورت کا تصادم شروع ہو گیا ہے۔۔۔مرد عورت کو برا کہتے ہیں اور عورت مرد کو بلکہ کہیں نہ کہیں دونوں ہی برائی کو جنم دینے کا سبب ہیں۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔۔۔ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالیں، بے شک ہمارا رب بھی ہمارے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے۔۔ ہمیں چاہیے ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالیں۔۔۔ یہ نہیں کہ صرف عورت مرد کے عیبوں کو معاف کرے اور پردہ ڈالے، مرد پر بھی لازم ہے کہ عورت کے عیبوں پر پردہ ڈالے، نہ کہ اسے رسوا کرے۔ اگر عورت کے ساتھ کچھ برا ہوتا ہے تو اس کو اس سانحے سے نکلنے میں اس کا ساتھ دے، نہ کہ اس کا ساتھ چھوڑ دے۔۔۔ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ریپ ہوتا ہے تو اس لڑکی کو یہ کہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ حالانکہ قصور اس مرد کا ہوتا ہے جو ریپ کرتا ہے اُس مرد کو کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن جس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، اسے اس اذیت کے ساتھ ساتھ رد کر کے اور اذیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ لڑکی ذہنی تناؤ کاشکار ہو جاتی ہے اور اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔خدارا ایسی لڑکیوں کو قبول کریں کیوں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا قصور اس مرد کا ہوتا ہے جو برا کرتا ہے اس کو سزا دی جائے نہ کہ اس کو دی جائے جس کہ ساتھ برا ہوا ہو“۔



ماہر نفسیات اسما ء بتو ل نے مزید اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ ” جب مرد اورعورت نکاح کے رشتے میں جڑتے ہیں تو وہ تعلق روح کا تعلق ہوتا ہے،جسم کا تعلق نہیں جو عورت کے جسم کے ساتھ ہوئی زیادتی کو وجہ بنا کر رد کیا جائے، اس کی روح کو نقصان پہنچایا جائے۔اس لئے ایسی لڑکیوں کو جن کے ساتھ یہ سب ہوا ہوان کو ذہنی طور پر ایسی باتیں بول کر یا رد کرکے نقصان نہ پہنچائیں بلکہ اُن کو ایسے سانحے سے نکلنے میں ان کی مدد کریں،ان کا ساتھ دیں، نہ کہ آپ انہیں ٹھکرائیں“۔



یاد رکھیں اگر آپ نے اچھی اور پرسکون زندگی گذارنی ہے تو ماضی میں گذرے ہر بُرے پل کو بھول کر مستقبل کے اچھے دنوں کے لئے خود کو ذہنی طوپر تیار کرنا ہے۔ اگر آپ یہ کرلیتے ہیں تو آپ کے ذہن سے ہر طرح کا خوف باہر نکل جائے گا اور جب یہ ختم ہوگا تو آپ اپنے آپ کو اس قدر پرسکون محسوس کریں گے کہ آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ آپ نے نیا جنم لیا ہے۔اس لئے ہمیشہ یہی سوچ اپنے اردگرد لوگوں میں پیدا کرنا ہے کہ خوف زدہ نہیں ہونا، بہادری سے جینا ہے کہ زندہ دلی سے جینا ہی زندگی ہے۔
۔ختم شد۔

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 526299 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More