ان شعلوں کو بجھائیے

بات کہاں سے شروع کی جائے؟کس کس لہورنگ منظر کوقرطاس پر منتقل کیاجائے؟کس کس ماں،بیٹی اوربیوی کے نوحے قلم کے ذریعے اہل وطن کو سنائے جائیں؟دکھوں اورغموں کی رتوں نے ایک بار پھر عروس البلاد کا رخ کیا ہے۔ہرطرف آگ ہی آگ ،خون ہی خون اورگرتی تڑپتی لاشوں کی تصویریں بکھری پڑی ہیں۔کئی خاندانوں کے چشم وچراغ اورنورنظر کسی اندھی گولی کاشکار بن کر سوئے عقبیٰ چل دیے۔پیچھے رہ جانے والے کس سے دادرسی چاہیں؟کس عدالت میں جاکر اپنے پیاروں کے خون ناحق کا دعویٰ دائر کریں؟نفسانی مفادات واغراض میں لتھڑے اذہان وزبان، ماضی کی طرح اپنا رٹا ہوا سبق دہرارہے ہیں۔سفاک قاتلوں سے آہنی ہاتھوں کے ذریعے نمٹنے کے وہی فرسودہ نعرے لگائے جارہے ہیں۔اگرچہ تادم تحریریہ موج ِخون تھم چکی ہے،لیکن مستقبل کی کیا ضمانت ہے؟آنے والے دنوں میں کیا نتیجہ نکلے گا؟چندروز امن وسکون کے بعد پھر وہی دہشت ،فسادات اورقتل وغارت گری۔

سیاسی ولسانی بنیادوں پر ہونے والی اس خون ریزی میں جہاں پولیس ورینجرزکی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے،وہاں اربابِ اقتدار کی بے حسی ،عدم سنجیدگی اورلاتعلقی نے عوام کو شدید ذہنی کوفت میں مبتلا کر رکھاہے۔سوال یہ ہے کہ جس رینجرز کو امن وامان کے بگڑنے کے بعد خصوصی اختیارات دینے کا اعلان وزیر داخلہ کی جانب سے کیا گیا ،وہ اقدامات پہلے سے کیوں نہیں اٹھائے گئے؟حالات میں کشیدگی اورخلفشارکا غیر معمولی عنصر شامل ہونے کے بعدہی حکومتی مشینری حرکت میں کیوں آتی ہے؟ عبدالرحمن ملک بزبان خود اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ ”کون کہاں بیٹھاہے اورمورچہ بند لوگوں کی تصویریں ان کے پاس موجود ہیں“۔

ملک کے سب سے بڑے اورغریب پرور شہر کے امن وچین کو تہہ وبالا کرنے میں پس پردہ کن قوتوں کا ہاتھ کارفرما ہے ؟اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے،جس میں حساس ادارے کے اعلیٰ حکام نے کہاہے کہ”کراچی میں بلوچستان کی طرح حالات بنانے کے لیے بھارت اورامریکا کے خفیہ ادارے ،خفیہ ہاتھوں کے ساتھ مختلف گروپس میں شامل ہوکر شہر میںفسادکروارہے ہیں۔جبکہ تمام گروپس میں اسلحہ تقسیم کرنے کی سازش میں ایک ہی ہاتھ ملوث ہے ،لیکن الگ الگ گروپس کے ذریعے کام کررہے ہیں۔“

موجودہ صورت حال ملکی منظرنامے کی جو بھیانک تصویر پیش کررہی ہے،اس نے ہر صاحب دل پاکستانی کو کرب والم میں مبتلا کردیاہے۔توانائی بحران،روزافزوں بڑھتی ہوئی غربت وگرانی،جان ومال کے عدم تحفظ ،فکری انتشاروافتراق اورنفسیاتی بے سکونی جیسے عوامل کے ساتھ ساتھ،پاکستان کے اقتصادی دارالحکومت میں دانستہ طورپر پیداکیا جانے والا نقضِ امن، ملکی استحکام اورمعیشت کوبری طرح تنزل سے دوچار کررہا ہے۔ اس وقت ملک وقوم کے تحفظ وسلامتی کی خاطر ملک کی سیاسی جماعتوں سے جس باہمی یکجہتی اوراتحاد واتفاق کے مظاہرے کی امید کی جارہی ہے ،اس کا شدید فقدان دکھائی دے رہاہے۔اس کے برعکس عوامی حقوق کے محافظ ہونے کے دعویدار سیاستدانوں کی باہمی رسہ کشی ملک وملت کے ساتھ ان کے عدم خلوص کی سب سے بڑی دلیلسمجھی جاسکتی ہے۔ذاتی،سیاسی اورغیر حقیقی مقاصد کوفوقیت دینے کی روایت بدستوراپنابدنمارنگ دکھارہی ہے۔

یہاں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی توجہ اس حقیقت کی جانب بھی مبذول کرواناضروری سمجھتے ہیں ،کہ آج اس سرزمین پر اللہ رب العزت کی کون سی نافرمانی ہے، جس کے ہم اجتماعی حیثیت میں مرتکب نہ ہورہے ہوں؟خالق کائنات کی مقررکردہ حدود کی پامالی کے افسوس ناک مناظر کلرک سے لے کرافسر تک،عام دکان دار سے لے کر بڑے بڑے تجارت پیشہ افراد تک ،چھوٹے سے بڑے تک،سیاسی کارکن سے لے کرپارٹی قیادت تک غرضیکہ ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ دھوکا،جھوٹ،رشوت،سود، جعل سازی ،فحاشی ،شراب نوشی، بدکاری سمیت دیگر روحانی امراض اورمعاشرتی جرائم ہمارے اندرنہ صرف یہ کہ جگہ پاچکے ہیں ،بلکہ یہ قبیح عادات وصفات اب ہمارے قومی مزاجوں کا حصہ بن چکی ہیں۔بحیثیت مسلمان اگر ہم موجودہ سانحات وحادثات کے حقیقی اسباب تلاش کرنا چاہتے ہیں تو قرآن کریم ہماری رہنمائی یوں کرتاہے:”اورتمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے،وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے۔اوربہت سے کاموں سے تووہ درگزرہی کرتاہے۔“(الشوریٰ:30)دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی،اس کی وجہ سے خشکی اورتری میں فساد پھیلا،تاکہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے ،شاید وہ باز آجائیں۔“(الروم:41)

موخرالذکرآیت کے ذیل میں حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی زیدمجدھم رقمطرازہیں:”دنیا میں جو عام مصیبتیں لوگوں پرآئیں مثلاًقحط،وبائیں،زلزلے،ظالموں کاتسلط ان سب کا اصل سبب یہ تھا کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کی،اوراس طرح یہ مصیبتیں اپنے ہاتھوں مول لیں۔اوران کا ایک مقصد یہ تھاکہ ان مصائب سے دوچار ہوکر لوگوں کے دل کچھ نرم پڑیں اوروہ اپنے برے اعمال سے باز آئیں۔اس طرح آیت کریمہ یہ سبق دے رہی ہے کہ عام مصیبتوں کے وقت ،چاہے وہ ظاہری اسباب کے ماتحت وجودمیں آئی ہوں،اپنے گناہوں پر استغفار اوراللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا طریقہ اختیارکرناچاہیے۔“(آسان ترجمہ قرآن :3/1248)

عصبیت خواہ لسانی ہویاگروہی ،خاندانی ہویاجماعتی ،اسلام میںاس کی یکسرنفی کی گئی ہے۔ان بدبودار نعروں کو جہالت شمارکیاگیاہے۔رنگ ونسل اورقوم وقبیلہ انسانوں کے لیے تعارف کاذریعہ توبن سکتے ہیں ،وجہ عزت ہرگزنہیں۔اسلام میںبرتری کا معیارفقط ”تقویٰ “پر رکھاگیاہے۔نیکی ،پارسائی اورسچائی جیسی اعلیٰ انسانی اقدارکی ضرورت ،آج جس قدرہمارے معاشرے کودرپیش ہے ،شاید اس سے پہلے کبھی نہ محسوس کی گئی ہو۔فکرآخرت ،جزاوسزاپرکامل یقین اور باری تعالیٰ کے حضورجواب دہی کا احساس ہی بدامنی کی بادصرصر سے بچاﺅ کاسامان مہیاکرسکتاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعصب،قوم پرستی اور نسلی تفاخر کے اُن شعلوں کو بجھائیں ،جن کو دشمنان اسلام وپاکستان کی طرف سے ہوا دی جارہی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے جاگنے تک سب کچھ جل کر خاکستر ہوجائے اورہماری قسمت میں صرف نوحے ہی نوحے باقی رہ جائیں!!
Yareed Ahmed Nomani
About the Author: Yareed Ahmed Nomani Read More Articles by Yareed Ahmed Nomani: 21 Articles with 32202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.