کراچی پاکستان کی تجارت کا
مرکزہے اورتجارت و کاروبار ملک اور قوم کی زندگی کے لیے اہم ترین ہے کیونکہ
کاروبار زندگی کے لیے بھی پیسہ چاہیے اور ضروریات و سہولیات کے لیے بھی ۔
کراچی پاکستان کی واحد بندرگاہ اور بیرونی دُنیا سے بھاری تجارت کا واحد
ذریعہ اور راستہ ہے غرض کراچی ہماری بقا اور ترقی کا ضامن ہے پھر کیوں اور
کون اُسے موت کا شہر بنارہا ہے ۔ آج کراچی جل رہا ہے مسلسل لاشیں گررہی ہیں
گھر سے انتہائی ضرورت سے نکلا ہو ا اِنسان بھی گھر واپسی کا یقین نہیں
رکھتا ۔مقتولین کی کوئی خاص اور ایک قسم نہیں بس میں بیٹھا ہوا بھی مر رہا
ہے اور بڑی بڑی گاڑیوں کے سوار بھی ۔ نہ پٹھان کی جان محفوظ ہے نہ اُردو
بولنے والوں کی نہ بلوچی ، سندھی یا پنجابی کی لیکن ہر ایک دوسرے سے شاکی
ہے اور ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگا رہا ہے۔ مطالبہ سب کا ایک ہے اوروہ ہے اَمن
۔نعرہ بھی سب کا ایک ہے کہ کراچی کا اَمن پورے پاکستان کا اَمن ہے ۔اِس میں
کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ کراچی چھوٹا پاکستان ہے ۔ پاکستان کی ہر
زبان بولنے والا اور ہر نسل کا پاکستانی یہاں موجود ہے اور یہ تعداد چند سو
یا ہزار نہیں ہوتی ہے بلکہ لاکھوں میں ہے اس لیے کراچی منی پاکستان
کہلاتاہے اوراسی لیے کسی ایک پاکستانی قومیت کا کراچی پر حق جتانا انتہائی
کم عقلی کی بات ہے اور کوئی پارٹی کوئی قومیت بظاہر اس کا دعویٰ کرتی نظر
بھی نہیں آتی پھر کون ہے جو کراچی میں یہ سب کروا رہاہے جسے کراچی کے ہر
رہنے والے سے دُشمنی ہے اگر چہ ہمارے وزیر داخلہ کے مطابق ہمار ے ہاں ہونے
والی بہت ساری دہشت گردیوں میں بیرونی ہاتھ ملوث نہیں ہوتالیکن حیرت تب
ہوئی ہے جب بات بندوق اور پستول سے نکل کر راکٹ لانچرز ، گرینیڈ ز اور
مارٹروں تک پہنچ جاتی ہے کیا ہمارا ہر شہری اَسلحہ ساز ہے اگر یہ سارا
اَسلحہ شہروں کے اندر ہی بن رہا ہے تو وہ کن فیکٹریوں میں بن رہا ہے اور وہ
کہاں ہیں اور اگرنہیں تو پھر کہا ں سے آرہا ہے۔ ظاہر ہے کہیں سے تو آرہا ہے
بلکہ جس طرح وزیرستان ،سوات اوربلوچستان میں بیرونی ہاتھ کار فرماہے وہی
ہاتھ یہاں بھی تو حرکت میں نہیں ہے۔سوال یہ بھی ہے اَب تک کتنے ٹارگٹ کلرِ
پکڑے جا چکے ہیں اور کیا یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ مارنے والے
سیاسی پارٹیوں کے کارکن ہیں اگر ایسا بھی ہے تو بھی معافی کی کوئی گنجائش
نہیں رکھنی چاہیے بلکہ معاملے کی جڑ تک پہنچنا چاہیے کہ کون اور کیوں ایسا
کر رہا ہے ۔ یہاں نہ حکومتی اتحاد بچانے کی فکر کرنی چاہیے اور نہ مزید دو
سال حکومت کرنے کی سوچ رکھنی چاہیے۔
کراچی جیسے شہر میں جہاں نہ صرف ملک کے ہر حصے کے لوگ موجود ہیں بلکہ بڑی
تعداد میں غیر ملکی بھی بستے ہیں کسی بھی ملک ، رنگ اور نسل کے دہشت گرد
داخل کرنا کوئی مشکل کام نہیں جبکہ ان کا کھوج لگانا بہت مشکل ہے لیکن مشکل
کام ظاہر ہے حکومت کو ہی کرنے ہیں۔اسے کھوج بھی لگانا ہے اور سزا کا اہتمام
بھی سر عام کرنا ہے۔ دہشت گرد چاہے ملکی ہو یا غیر ملکی ان کے ساتھ کوئی
رعایت برتنا قومی جرُم ہے ا ور یہ جرُم کرنے والے سخت ترین سزا کے مستحق ۔
کراچی کے معاملات کو حل کرتے ہوئے یہ نکتہ ضرور ذہن میں رہنا چاہیے کہ کسی
بھی ملک کی انتظامیہ کو مفلوج کرنے کے لیے اُسکی معاشی حالت کو بدحال کرنا
ہوتا ہے اور یہی سب کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ کراچی کے حالات ایک دن
خراب رہیں تو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے سٹاک ایکسچینج میں بھی اور بندر
گا ہ کی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوتی ہیں ۔ ظاہر ہے کوئی کمپنی نہ تو
اپنے سامان اور مصنوعات کی تباہی اور ضیاع چاہتی ہے اور نہ ہی اپنے ملازمین
کی لہٰذا وہ ہر نقل و حرکت منسوخ کردیتی ہے اور یوں دشمن کے منصوبے بہت
آسانی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دشمن کوئی ایک نہیں بلکہ کئی ہیں
اور کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں یہ کاروائیاں مشکل بھی نہیں ہر رنگ و
نسل کا شخص پہلے ہی سے یہاں موجود ہے ۔ اپنے لوگوں پر نظر رکھنے کے ساتھ
ساتھ بیرونی ہاتھ کو ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہیے آخر یہی شہر جو عروس
البلاد کہلاتا تھا کیوں دہائیوں سے بدامنی کا شہر بن بنتا رہتا ہے۔ بڑے شہر
وں میں اکا دکا واقعات کو تو نظر انداز کیا جاسکتاہے لیکن قتل عام کونہیں ۔
کراچی میں اس وقت قتل عام کی سی کیفیت ہے ہر روز بیسیوں لوگ مررہے ہیں ۔ ہر
گروپ کے پا س اَسلحہ موجود ہے حکومت کی رٹ نظر نہیں آرہی وقتی طور پر تو
حالات کو رینجرز کے ذریعے کنڑول کرنے کی ضرورت کو سمجھا جاسکتا ہے لیکن بار
بار حالات بگڑنے کی وجوہات کی تلاش ضروری ہے پھر بغیر کسی مصلحت کے اِن
عناصر سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔ اِس وقت دہشت گردی کی جنگ نے ہماری ترقی کے
عمل کو ویسے ہی روک رکھا ہے ۔ صنعتیں توانائی کے بحران کے باعث بند پڑی ہیں
۔ ایسے میں اگر ہماری تجارت بھی بند ہو جائے ہماری بندر گاہوں کا استعمال
بھی ختم ہو جائے تو معاملات آج سے بھی زیادہ گھمبیر ہو سکتے ہیں اور دُشمن
اپنے مقاصد میں بڑے آرام سے کامیاب ہو سکتاہے اور اس کی کامیابی خد ا
نخواستہ ہماری ابدی شکست ہے ۔ کراچی میں مختلف پارٹیوں میں عدم برداشت اور
کراچی کی ملکیت کے احساس کو بھی ختم کرنا ہے ۔ کراچی سب کا شہر ہے اور یہ
احساس ذہنوں میں ڈالنے والی طاقتوں کو تلاش بھی کرناہے تاکہ مسائل کو مستقل
بنیادوں پر حل کیا جائے ۔ کچھ مخصوص ملکوں کے لوگوں پر کڑی نظر بھی رکھنی
ہے۔ ہمیں کراچی کو ہر صورت اُن حالات سے نکالناہے جس کا سامنا اکثر اہل
کراچی کو کرنا پڑتاہے اور اُ س کے اثرات پورے پاکستان پر ، ہماری معیشت پر
، ہماری تجارت پر اور اقتصادی حالت پر پڑتے ہیں ۔ ہمیں خود غرضی کے طور
طریقے اور سیاست ختم کرکے صرف ملک کے مفاد کے بارے میں سوچنا ہے کیونکہ ملک
میں اَمن اور امان ہوگا تو خوشحالی خود بخود ہمار ا مقدر بن جائے گی۔ |