اللہ تعالیٰ کی لارَیب اور عالم گیر کتاب قرآن مجید کے
مطابق انسان کی خلقت کا مقصداُسے علم و شعور سے سرفراز کر کے زمین میں
نمائندہ الہٰی بنا کر بھیجنا تھا۔ اسی لیے اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات
قرار دیا۔ اس کے لیے کائناتِ ارضی و سماوی کو مسخر کر دیا جیسا کہ سورہ
مبارکہ جاثیہ کی آیت 13 میں ارشاد ہوا کہ " (اللہ) نے اپنے پاس سے زمین و
آسمان کی ہر چیز کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، بے شک غور و فکر کرنے والوں کے
لیے اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔“چونکہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں ارشاد ہوا
ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نہایت باخبر اور حکیم و دانا ہے“۔ پس اتنے عظیم منصب پر
فائز کرنے اور عزت و سر بلندی عطا کرنے کے بعد انسان کولا وارث چھوڑ دینا
حکمت کے اصولوں کے عین خلاف تھا، اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایک
لاکھ سے زائد انبیاء کی وساطت سے انسان کی ہدایت کے اسباب مہیا کیے۔ ان
انبیاء کی بعثت کا مقصدبندوں کو معبودِ حقیقی کی تعلیمات کے ذریعہ ارتقائے
انسانی کے وہ مراحل طے کروانا تھا جن کے ذریعے انسان اپنی خلقت کا مقصدحاصل
کر کے خالقِ کائنات کی بارگاہ میں سُرخرو ہو سکے۔پس ارتقائے انسانی کے اُن
مراحل میں سے ایک اہم مرحلہ”عدم برداشت کے اثرات اور وجوہات “ بھی ہے۔
اہلِ دانش کے بقول ” عدم برداشت ایک ایسی دماغی کیفیت کا نام ہے جس میں
کوئی انسان ہر چیز اور ہر واقعہ کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھتا ہواور
اختلافِ رائے کو بالکل برداشت نہ کرتا ہو“۔
بہ الفاظِ دیگر، اختلاف کو برداشت نہ کرنے اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے
سے معاشرہ ایک جہنم بن جاتا ہے۔ اگرچہ تاریخِ انسانی کے آغازسے ہی عدم
برداشت کا آغاز ہوگیا تھا ،جب اللہ کے پہلے نبی اور ابو البشر حضرت آدمؑ کے
بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی بناء پر قتل کیا۔ بعد ازاں، ہر
نبی ؑ کے دور میں بھی مذہبی و نظریاتی اختلافات تشدد کا باعث بنے۔ کبھی خدا
کے رسولوں کی توہین ہوئی تو کبھی ان کے پیروکاروں کو ظلم و جبر کا نشانہ
بنایا گیا۔ بنی اسرائیل نے تو ایک ایک دن میں متعدد انبیاء کو قتل کیا،
حتیٰ کہ لوگوں نے اس بناء پرسیدالمرسلین، وجہِ تخلیقِ کائنات، خاتم النبیین
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس حد تک اذیتیں پہنچائیں
کہ آپؐ نے فرمایا ”اتنا کسی نبی کو نہیں ستایا گیا جتنا مجھے ستایا گیا“۔
انسان ہر دور میں عدم برداشت کا شکار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سماج کے
مختلف الخیال باشندوں نے بامقصد مکالمے کی بجائے لاحاصل مباحث کو فروغ دیا،
فکری اختلافات کو ذاتی اختلافات میں تبدیل کیا اوراپنی بات کو دوسروں پر
مسلط کرنے کے لیے تمام اخلاقی حدود کو عبور کر کے معاشرتی اقدار کو بھی
پاؤں تلے روند دیا۔
اسی طرح یہ معاشرتی ناسور بن چکا ہے ،جو معاشرے کی اخلاقی اقدار اور امن و
سکون کو غارت کردیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں شاگرد
اساتذہ کو معمولی اختلاف پر قتل کرنے تک آگئے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں عدم
برداشت کے بڑھنے کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا !
یہ بغض ہم نے جو سینوں میں پال رکھا ہے
اسی نے سب کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے
جس ملک کے 40 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں،
وہاں والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کروانے کے لئے کیسے بھیج سکتے
ہیں۔ لہذا بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے دینی مدارس میں داخل کروا دیا جاتا
ہے ۔ اگرچہ ہمارے بیشتر دینی مدارس دین کی فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف
ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بہت سے دینی مدارس ملک میں عدم
برداشت کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ انہی نفرت پسند
ملاؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کسی شاعر نے کہا ہے
خدا کے نام پہ اپنا مفاد چاہتے ہو
تم اپنے جھوٹے قصیدوں پہ داد چاہتے ہو
خدا سے پوچھو کسی روز استخارہ کرو
تم اِس زمین پہ کتنا فساد چاہتے ہو
دنیا کے ہر مذہب اور ہر قوم میں مسالک پائے جاتے ہیں مگر جو شدت پسندی
ہمارے ہاں موجود ہے وہ دنیا کے کسی خطے میں موجود نہیں ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے
چھوٹے اختلافات کو بنیاد بنا کر قتل وغارت کا وہ بازار گرم کر دیا جاتا ہے
کہ جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ مغربی دنیا 2 عظیم جنگیں لڑنے کے بعد اس
نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ جنگ اور اختلافات کسی مسئلہ کا حل نہیں ہیں بلکہ
مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی بڑے سے بڑےمسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مگر
ہم ابھی تک انہی گھسے پٹے اختلافات میں الجھ کر اپنا اور قوم کا نہ صرف وقت
ضائع کر رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی انتہا پسندی کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔
ہمارے حکمران اور ریاست گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت جارحانہ رہے ہیں۔ اس
تعلیمی پالیسی کے زیرِ اثر تیار ہونے والی نسل کو وہ بطور ایندھن استعمال
کرتے رہے۔ یوں پاکستان میں شدت پسندی کی فصل پکتی رہی اور اس سے وابستہ
عناصر کو بڑھاوا ملتا رہا۔ تنگ نظری، اپنے مذہبی حریفوں سے نفرت، عدم
برداشت اور جارحیت ہمارے مزاج کا حصہ بنتی رہی اور ہم دنیا سے کٹتے کٹتے
اپنے خول میں بند ہوتے چلے گئے۔
آج بھی پاکستان کا نظامِ تعلیم ایسا کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام ہے جس
سے عوام میں قرار واقعی سماجی شعور اور انسانی رویے فروغ پا سکیں اور ہم
تعصبات کی تنہائی سے نکل کر عالمگیر معاشرے کا باوقار حصہ بن سکیں۔ آج بھی
ہمارا نصابِ تعلیم رواداری، انسان دوستی اور مسلّمہ انسانی اقدار پر خاموش
ہے اور ہم خطے میں امن، سلامتی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بری
طرح ناکام ہیں۔ آج بھی ہمارے نصاب کے مضامین اپنی کمزوریوں کو زیر بحث لانے
کے بجائے غیر ضروری مواد سے اٹے پڑے ہیں۔
رشوت ستانی اور میرٹ کا قتل عام نا انصافی کی مثالیں ہیں، جو عدم برداشت کو
فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے افراد مایوسی کے
سمندر میں ڈوب جاتے ہیں، جب لوگوں کو اپنے حقوق بھی میرٹ پر نہ ملیں تو پھر
لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کسی انتہا پسند گروپ کی وساطت سے
اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ ہمارے سماجی قدروں کے مختلف درجے ہیں، جو کہ
متوازن معاشرے کے ڈھانچے سے مناسبت نہیں رکھتے۔ معاشرے میں وڈیروں،
جاگیرداروں اور اْمرا کے طبقے کو نہایت عزت کے مقام سے دیکھا جاتا ہے۔
ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت سے قلم کاروں کی اکثریت کو شکوہ ہے کہ اس کے
کارکنان ذرا سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے اور اپنے نقطہ نظر سے
اختلاف کرنے والوں پر مغلظات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اس سیاسی جماعت کا
دعویٰ ہے کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت اس کی حامی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے
تو ہمارے نوجوان تہذیب کے دائرے سے کیوں نکل ر ہے ہیں؟ درحقیقت یہی وہ
فرسٹریشن ہے جس نے معاشرے کی اکثریت کو اپنا شکار بنا رکھا ہے چونکہ
نوجوانوں کی اکثریت استحصال کا شکار ہے اور جب کسی نے انہیں تبدیلی کا خواب
دکھایا اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ان کی قوت کو بروئے کار لانا
چاہا تو اس قوت کے احساس نے ان نوجوانوں کو بھی فاشزم کی جانب دھکیل دیا۔
اگر ہم اپنے معاشرے سے عدم برداشت، انتہا پسندی اور شدت پسندی کو جڑ سے
اکھاڑنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں ترجیحی بنیادوں پر کچھ اقدامات کرنا
ہوں گے۔
ہمیں اپنے تعلیمی نظام اور نصاب کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا اس میں ایسے
اسباق اور ابواب شامل کرنا ہوں گے ۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے دینی مدارس میں
اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہاں کسی قسم کی انتہا پسندی اور شدت پسندی
کی تعلیم نہ دی جا سکے ،بلکہ اسلام کے امن اور رواداری کے پیغام کو عام کیا
جائے۔
ہمیں بطور مجموعی اپنے رویوں میں برداشت اور تحمل کا مادہ پیدا کرنا ہو گا
تا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنم لینے والے جھگڑے اور نفرتیں خود بخود ہی
ختم ہوجائیں ۔ تو ہمیں یہ تمام تر اقدامات فوری بنیادوں پر کرنے ہوں گے
تاکہ ہم صحیح معنوں میں ایک پرامن اور روادار معاشرہ تخلیق کرسکیں۔ |