سمجھ نہیں آ رہی کہ بات کہاں سے شروع کروں, دماغی ذہنیت
پر سکتہ طاری ہے, زبان لڑکھڑا رہی ہے, ہاتھ کپکپا رہے ہیں اور خود سے
آنکھیں ملانے کی بھی ہمت نہیں۔ مینار پاکستان میں جو واقعہ پیش آیا اس سے
پوری قوم کی روح چھلنی چھلنی ہو چکی ہے۔ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں,
ہم آزاد قوم ہیں, ہم اقبال کے شاہین ہیں جیسے الفاظ ہم جیسی قوم کے لیے بنے
ہی نہیں۔
سوشل میڈیا,نیوز چینلز اور twitter پر ٹاپ ٹرینڈ بننے والا یہ واقعہ 14
اگست کو لاہور جیسے بڑے شہر,بڑی جگہ مینار پاکستان میں شام چھ بجے کے قریب
پیش آیا۔ جہاں ایک لڑکی جو کہ ایک ٹک ٹاکر اور یو ٹیوبر بھی ہے اپنی سوشل
میڈیا کی ٹیم کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے مینار پاکستان پہنچی۔
چونکہ آزادی کا دن تھا بہت بڑی تعداد میں عوام بھی جوش و خروش کے ساتھ
آزادی منانے کی گرز سے مینار پاکستان کے سائے تلے جمع تھے۔ دیکھتے ہی
دیکھتے ہجوم ٹک ٹاک لڑکی کے پاس جمع ہونا شروع ہو گئے اور اس کے ساتھ
سیلفیاں بنوانے لگے مگر اچانک ہجوم میں اکھٹے تین سے چار سو آدمیوں نے لڑکی
پر دھاوا بول دیا اور لڑکی کو چھوٹے بچے کی ماند پلاسٹک کی گڑیا سمجھ کر
اپنی اپنی طرف کھینچنے لگے, لڑکی کے جسم کے نازک حصّوں کو نوچنے اور کاٹنے
لگے, لڑکی کو گود میں اٹھا اٹھا کر ہوا میں اچھالتے رہے یہاں تک کہ لڑکی کے
سارے کپڑے پھاڑ دیے گئے مگر ہوس تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
اور یہ انتہائی افسوس ناک عمل تین گھنٹے مسلسل جاری رہا,جب متاثرہ لڑکی خود
کو بچاتے بچاتے بے ہوش ہو گئی تو برہنہ حالت میں چھوڑ کر سب فرار ہو گئے۔
کون لوگ تھے وہ؟ کہاں سے آئے تھے وہ؟ کیا انسانی روپ میں شیطان تھے وہ؟ کیا
دل میں خوف خدا نہیں تھا؟ کیا ان کے گھروں میں مائیں, بہنیں, بیٹیاں موجود
نہیں تھیں؟ تین چار سو درندوں میں کوئی ایک مرد بھی غیرت والا نہیں تھا؟
اتنی جرأت کہاں سے آئی تھی ان لوگوں میں کہ انسان سے حیوان بننے میں چند
سیکنڈز بھی نہ لگے اور لڑکی کی عزت کو روند کر انسانیت کو پوری دنیا میں
شرم سار کر ڈالا؟ جتنا بڑا جرم ان ہوس خور درندوں کا اتنا ہی بڑا جرم وہاں
کی انتظامیہ اور سیکورٹی گارڈز کا بھی ہے اور پولیس کو ہم کیسے بھول سکتے
ہیں۔ اس واقعے کے دوران لڑکی نے پولیس کو کئ بار فون کر کے مدد کی بھیک
مانگی لیکن پولیس نے کسی بات پر کان نہیں دھرے اگر پولیس وقت پر پہنچ جاتی
تو شاید لڑکی کی عزت پر کوئی آنچ نہ آتی۔ پولیس کے بر وقت ایکشن نہ لینے کی
وجہ سے آج ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس ایس پی آپریشنز کو سسپینڈ کر دیا گیا
ہے۔
یہ واقعہ جنگل میں آگ کی طرح ملک کے کونے کونے تک پھیل گیا اور متاثرہ لڑکی
کے ساتھ ہونے والے واقعے کی ویڈیوز بھی منظر عام پر وائرل ہو گئی اور اس
طرح اس واقعے سے متعلق minarepakistan# ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ ہر کسی نے اس
واقعے کے خلاف آواز اٹھائی جن نے ہماری عوام, میڈیا انڈسٹری کی معروف
شخصیات اور حکومت بھی شامل ہے۔وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کا سختی
سے نوٹس لیتے ہوئے چار سو افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور سخت سزائیں
دینے کی یقین دہانی کرائی۔ واقعے سے متعلق وائرل ہونے والی ویڈیوز کے ذریعے
نادرا ان درندوں کی شناخت کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا یا نہیں یہ تو وقت ہی
بتائے گا۔
اب کہانی کے دوسرے رخ پر نظر ثانی کریں تو ماجرا کچھ اور ہی دکھائی دے رہا
ہے اوربہت سارے سوالات کا رخ اس واقعے میں متاثر ہونے والی لڑکی کی طرف موڑ
دیا گیاہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے
کہ لڑکی مردوں کے رش میں کیوں گئی؟ گھر سے اکیلی باہر کیوں نکلی؟ لڑکی نے
اپنے ٹک ٹاک فینز کو مینار پاکستان آنے کی دعوت بھی خود دی, واقعہ 14 اگست
کو پیش آیا اور ویڈیوز حادثے کے دو دن بعد کیوں آپ لوڈ کی گئیں, واقعہ پیش
آنے کے بعد متاثرہ لڑکی آرام سے گھر بیٹھ کر اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر ویڈیو
اپ لوڈ کر رہی تھی, کسی نے اس کے کردار پر انگلی اٹھائی تو کسی نے اس کے
کپڑوں پر تبصرے کیے۔ اب کہا یہ جا ریا ہے کہ یہ سارا واقعہ pre-planned تھا
اور اس سارے واقعے میں لڑکی کو ہی قصور وار قرار دیا جا رہا ہے۔
کیا ایک عورت خود اپنی عزت کو تار تار کرنے کے لیے اتنا بڑا اور گھناؤنا
قدم اٹھا سکتی ہے؟ اگر اس بات میں ذرا بھی حقیقت ہے تو ایسے لوگوں کے لئے
بھی سزا مختص ہونی چاہیے۔ اس واقعے میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی
مرد کو اجازت نہیں کہ وہ عورت کو اس طرح چھو سکے تو پھر کیسے اتنے سارے
مردوں نے ایک لڑکی کا فائدہ اٹھایا۔ ایسے واقعات میں اکثر عورت کو ہی قصور
وار ٹھہرایا جاتا ہے اور سیدھا اس کے کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے مگر
افسوس میرے اس آزاد ملک میں آج بھی عورت آزاد نہیں, ٹھٹھہ کے علاقے میں 14
سال کی لڑکی کو قبر سے نکال کر زیادتی کرنا, چھوٹی بچیوں اور بچوں کے ساتھ
زیادتی کرنا, رائیونڈ میں جاب کے لیے انٹرویو دینے جانے والی لڑکی کے ساتھ
زیادتی کرنا اور پچھلے دنوں ایک معصوم جانور بکری کو پانچ آدمیوں نے اپنی
ہوس کا نشانہ بنایا۔ جنسی زیادتی کے واقعات میں مسئلہ عورت, بچی, کپڑے یا
جانور نہیں بلکہ آدمیوں کی گندی سوچ ہے یہ ہوس میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں
کہ یہ اپنے سامنے پڑی ہرچیز کو ہوس کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ اگر یہ بات مان
بھی لی جائے کہ مینار پاکستان میں آنے والی لڑکی کہ کپڑے چھو ٹے تھے یا وہ
اکیلی باہر نکل کر آزادی منا رہی تھی تو کسی بھی انسان کو اجازت نہیں کہ
اسکے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے یہ ملک
جتنا عورت کو ہوس کا نشانہ بنانے والوں کا ہے اتنا ہی متاثرہ لڑکی کا بھی
ہے۔اگر اسلام میں عورت کو پردے کا حکم ہے تو مردوں کو آنکھیں نیچے رکھنے کا
بھی حکم ہے۔
یہ ایک کبھی ختم نہ ہونے والا ایشو ہے اس پر جتنی بحث کریں یہ بڑھتی جائے
گی مختصراً یہ کہ اب حکومت کو کوئی سخت سے سخت قدم اٹھانا ہی پڑے گا کیو
نکہ میرے ملک میں نہ تو جانداروں کی عزت محفوظ ہے اور نہ میری قبر میں دفن
بہنوں کی عزت محفوظ ہے۔اگر ایسے گھٹیا لوگوں کے خلاف کوئی قانون نا بنایا
گیا تو ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا اور لڑکیوں کی زندگیاں
یونہی برباد ہوتی رہیں گی۔ والدین سے گزارش ہے کہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ساتھ
اپنے بیٹوں کی بھی تربیت کریں اور عورت کی عزت کرنا سکھائیں, ان کے گناہوں
کو بڑھاوا دینے سے گریز کریں اور اپنی بیٹوں کو درندوں سے بچانے کی کوشش
ہمیں خود مل کر کرنا ہوگی کیونکہ ایسے جرائم کو روکنے میں حکومت بلکل ناکام
ہو چکی ہے اگر حکومت زیادتی میں ملوث لوگوں کو عبرتناک سزا دیتی تو ایسے
بڑھتے ہوئے جرائم روک سکتی تھی مگر یہاں قانون صرف غریبوں کے لئے ہے امیروں
کے لیے نہیں۔ |