تعلیمی درسگاہیں یا مافیا؟

ماں کی گود ہر فرد کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ یہ درسگاہ افراد کو زندگی بھر رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اچھی نسلوں کی بنیاد یہی درسگاہ ہوتی ہے۔ یہ نسلیں پوری دنیا کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہیں اورایسی نسلیں ہی مل کراچھی قومیں بناتی ہیں۔ان نسلوں کو ہم خیال اور ایک قوم بنانے کے لیے پھر روایتی درس گاہیں آتی ہیں جیسے مدارس اور جامعات وغیرہ۔ ان درس گاہوں کے مقاصد جنتے عظیم ہونگے قومیں بھی اتنی ہی عظیم ہونگی۔ عظیم مقاصد کے حصول کا انحصاردرسگاہوں کی بروقت اور معیاری کارکردگی پرہوتا ہے۔ درسگاہوں کی کامیابی کا انحصار مقاصدکا درست اور واضح ہونا ہوتا ہے۔ اگر یہ درس گاہیں کمزور پڑ جائیں یا جان بوجھ کر تربیت میں سستی یا کوتاہی کی مرتکب ہوجائیں یا مخالف قوموں کے ایجنڈوں پر چل نکلیں تو پھر قوموں کی تباہی و بربادی یقینی ہوجاتی ہے۔ قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جن کی تعلیمی پالیسیاں اور درسگاہیں معیاری ہوں ، وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کریں اور اگلی نسل کی معلومات اور شعور میں اضافہ کریں۔ درسگاہوں کی شناخت وہاں کے اساتذہ ، تحقیقی کام اور طلباء کو مہیاسہولیات ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے ۔ تعلیمی پالیسیوں سے دانشوروں کا دور کا واسطہ نہیں۔تعلیمی ادارے اپنی فیسوں اور عمارات سے پہچانے جارہے ہیں۔ ملازمت کے حصول کے لیے بے روزگاروں میں مقابلہ دن بدن بڑھ رہا ہے جس کا تعلیمی ادارے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نجی ادارے تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ہی رہے تھے اب سرکاری ادارے بھی کسی سے کم نہیں رہے۔ ان نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آپ ہرسال ہزاروں طلباء کو اعلی تعلیم میں داخلہ دے کر کروڑوں روپے فیس کی مد میں حاصل بھی کرتے ہیں مگروہ طلباء کس وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ جاتے ہیں۔ اعلی تعلیمی کمیشن بدمست ہاتھی کی طرح محوسفرہے۔ ہماری قوم دن بدن تعلیمی پس ماندگی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ قوم کی کشتی منجدھار میں پھنس چکی ہے۔ ہوا کا رخ بھی مخالف ہے۔ دریا کی موجیں مسلسل بلند ہورہی ہیں ۔ کشتی سواروں کی زندگی شدید خطرے میں ہے۔ ناسمجھ ملاح حقہ کشی میں مصروف ہے ۔ کرونا وباء کا ہنگامہ کو برپا ہوئے تقریباً دو سال ہوچکے ہیں اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ ہنگامہ کب تک جاری رہے گا۔ہم ابھی تک کرونائی دور کے اثرات سینبٹنے کے لیے واضح پالیسی بھی نہیں بنا سکے۔اس وقت وطن عزیز پاکستان مختلف نجی یا سرکاری مافیاکی زد میں ہے۔ ہرمافیاایک گھناؤنی شکل اختیار کرچکاہے۔ ایسے مافیا ز حکومتیں بنانے اور گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ہمارے ہاں مافیا کوختم کرنے کے نام پرمافیا کو مزید توانا کردیا جاتا ہے۔ مافیا کی فہرست میں تعلیمی ادارے سرفہرست ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے قطع نظرسرکاری ہوں یا نجی ہوں ، ان کو کسی بات کی پرواہ نہیں مثلاً بچے اتنی زیادہ فیس کہاں سے پوری کریں گے؟ ہم جتنی فیس لے رہے ہیں کیا اُس کے عوض بچوں کواتنی ہی تعلیم دی جارہی ہے؟ کیا ہمارے تعلیم یافتہ لوگ قوم اور مارکیٹ کی امنگوں پر پورا اتر رہے ہیں؟ کیا جو سہولیات کا وعدہ کیا جاتاہے وہ وقت پر مہیا کردی جاتی ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں۔ تعلیمی مافیا کے ظلم کی دو واضح مثالیں عرض ہیں جو ہرسرکاری اور نجی ادارہ کررہا ہے۔ پہلی مثال پانچ ہزار تک پراسپکٹس بیچی جارہی ہیں، ایڈمیشن فیس، ڈگری رجسٹریشن فیس، سمسٹرانرولمنٹ فیس ہی کی مد میں والدین کو کنگال کردیا جاتا ہے باقی فی کورس؍فی مضمون /فی کریڈ آورکی مد میں لاکھوں روپے ٹیوشن فیس لی جاتی ہے۔ اس کے باوجود بچوں کو اضافی ٹیوشن پڑھنی پڑتی ہے۔ دوسری مثال چند سال قبل تعلیمی اداروں میں زیادہ فیس کا شور مچا تو حکومت وقت نے ایکشن لے لیا، نتیجہ یہ نکلا فیس توکم نہ ہوئی مگرزیادہ فیس لینے والے اداروں پرغالباً پانچ فی صد انکم ٹیکس لگا دیا گیا اور آپ جانتے ہیں ادارے تو مافیا ہیں اوران اداروں نے یہ پانچ فی صد ٹیکس بھی والدین سے لینا شروع کردیا اوروالدین خاموش ہوگئے کہ مزید شور کیا تو کوئی اور بڑی مصیبت گلے نہ پڑ جائے۔ سابقہ ادوار میں تجی تعلیمی اداروں کی من مانیاں ختم کرنے اور قوم کو ایک نظام میں لانے کے لیے تمام نجی اداروں کو قومیانہ میں لے لیا گیا تھا مگراب نجی تو نجی سرکاری تعلیمی ادارے بھی ایک منافع بخش کاروبارکی شکل اختیارکرچکے ہیں جو بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کی بجائے صرف بھاری بھرکم فیسیں لے کر تعلیمی اسنادبیچ رہے ہیں۔ اس ساری ناکامی کے پیچھے شاید ناکام در ناکام حکومتیں، ناکام تعلیمی پالیسیاں، غیرضروری تعلیمی تجربات، غیرملکی زبان میں تعلیم کی فراہمی ، اور اعلی تعلیمی اداروں اور اعلی تعلیمی کمیشن میں من پسند تعیناتیاں ہی نظام کی تباہی کا باعث بنی ہیں۔تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی شہری کو تعلیم سے محروم رکھنا اس شہری کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص، کوئی جماعت ، کوئی ادارہ یا حکومت کسی شہری کو تعلیم حاصل کرنے سے روکے تو وہ غداری کے زمرے میں آئے گا۔ عوام کو سمجھ نہیں آرہی کہ ایک طرف حکومت کو تعلیمی اداروں میں شرح داخلہ میں کمی کی فکر ہے تو دوسری طرف جو داخل ہوچکے ان پر عدم توجہگی بھی عام ہے۔ نوے کی دہائی میں جب پوری دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی؍ آئی ٹی کو خوش آمدید کہ رہی تھی عین اسی وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے پاکستان بھر میں پیٹرومین نامی ادارے کا جال بچھا کرہرپاکستانی کو آئی ٹی کی تعلیم دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بعدازاں کمیپوٹرسائنس کی ڈگریوں کا وقت آیا تو اوپن یونیورسٹی پاکستان کی واحد یونیورسٹی تھی جس نے مہنگی جامعات کے مقابلے میں ملک بھرمیں معیاری اسٹڈی سنٹرقائم کرکے کمپوٹرسائنس کی اعلی اور سستی تعلیم کا آغاز کیا جس کو بہت پذیرائی ملی۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اوپن یونیورسٹی پورے ملک میں ہزاروں طلباء و طالبات کو کمپیوٹرکی اعلی اور معیاری تعلیم میں سب جامعات میں صف ِ اول میں تھی۔ مگریہی سستی اور معیاری تعلیم نجی جامعات کے لیے شاید نقصان دہ تھیں۔ پھر اچانک علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے اپنے تعلیمی مراکز کو ختم کرنا شروع کردیا حالانکہ وقت کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کو اپنے تعلیمی مراکز کو ترقی دینی چاہیے تھی۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ یہ اوپن یونیورسٹی کا واحد شعبہ ہے جو ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے حالانکہ موجودہ وائس چانسلر صاحب خودبھی کمپیوٹرسائنس میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق کسی بھی جامعہ کا کوئی بھی شعبہ اس وقت تک پی ایچ ڈی شروع نہیں کرسکتا جب تک متعلقہ شعبہ کے فیکلٹی ممبران میں کم از کم تین پی ایچ ڈی اساتذہ نہ ہوں۔ ہماری اطلاع کے مطابق شعبہ کمپیوٹرسائنس نے 2015ء میں صرف دو اساتذہ کی موجودگی میں نو طلباء و طالبات کاداخلہ پی ایچ ڈی میں کرلیاگیا۔ یہ پی ایچ ڈی آن لائن آفرکی گئی تھی جبکہ طلباء و طالبات کیمپس میں کلاسسز لیتے رہے اور باقاعدہ حاضری بھی لگتی رہی۔ مذکورہ طلباء کے ساتھ وعدہ تھا کہ آپ اپنے ریسرچ سپروائز رکا اوپن یونیورسٹی کے علاوہ بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔ نو طلباء و طالبات نے داخلہ فیس جمع کروا کراپنی اعلی تعلیم کا آغاز کیا۔مذکورہ طلباء نے وقت پر اپنا کورس ورک ، تحقیقی ورکشاپ اور comprehensiveامتحان پاس کیا۔ شعبہ کمپیوٹر سائنس نے طلباء کی تحقیق میں معاونت اور ریسرچ سپروائزر کے انتخاب کے لیے پندرہ روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ اس ورکشاپ میں اسلام آباد کی تقریباً تمام جامعات کے چیدہ چیدہ اساتذہ کو بلایا گیاجنہوں نے اپنے اپنے تحقیقی کاموں پر روشنی ڈالی اور نئے تحقیقی موضوعات کے بارے آگاہی فراہم کی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایسی مشقیں شروع سے ہوتی رہی ہیں ۔ مگرجب کچھ طلباء نے بیرونی پروفیسرز کے ساتھ مل کر اپنی پروپوزل تیارکرلیں تو یونیورسٹی کی طرف سے زبانی طورپربتایا گیا کہ آپ بیرونی پروفیسرز کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔ طلباء کو طورپربتایا گیا ایچ ای سی کیپالیسی بدل گئی ہے۔ طلباء نے شعبہ کے کوآڈینیٹربرائے پی ایچ ڈی سے رابطہ کیا تو یہی جواب رہا ایچ ای سی کی طرف سے شرط ہے ۔ ہماری معلومات کے مطابق شعبہ کمپیوٹرسائنس کے پی ایچ ڈی پروگرام کے کوآڈینیٹر بھی نان پی ایچ ڈی تھے۔ پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد پوری نہیں تھی۔ جو دو اساتذہ موجود تھے وہ خود دوسری جامعات کے طلباء و طالبات کے ساتھ تحقیقی کاموں میں اور وزٹنگ لیکچرز میں مصروف تھے۔ ان مذکورہ مجبوریوں کا سارا ملبہ شعبہ کمپیوٹرسائنس نے طلباء پرڈال دیا اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے طلباء کے دو سال ضائع کردیے۔ طلباء نے اپنے اوپر روا رکھے جانے والے ظلم کو وائس چانسلر یونیورسٹی، پاکستان سیٹیزنز پورٹل او رمتعلقہ شعبہ کے ذریعے ڈین آف فیکلٹی کو درخواستیں اور ای میلز ارسال کیں۔ مگرکہیں سے بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ ہماری معلومات کے مطابق طلباء کا پہلے حیلے بہانے سے وقت ضائع کیا، پھر دوبارہ انرولمنٹ کا کہا گیا، شعبہ نے طلباء کی ایک بھی درخواست شاید نہ ڈین تک ، نہ وی سی صاحب تک پہنچائی۔ جب اس سلسلے میں ہماری بات طلباء سے ہوئی کہ آپ نے یونیورسٹی میں باقاعدہ احتجاج کیوں نہیں کیا؟ اکٹھے ہوکر ڈین اور وی سی کے پاس کیوں نہیں گئے تو پی ایچ ڈی اسکالرز کے مطابق ہم شرم و حیا میں مار کھا گئے اور ہم پر امید بھی رہے کہ ہماری پی ایچ ڈی جاری ہوجائے گی۔ طلباء کے اوپر ایک خوف بھی محسوس بھی کیا گیا کہ اگر زیادہ احتجاج کرتے تو یقیناً پی ایچ ڈی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ہماری تحقیقات کے مطابق شعبہ نے طلباء سے رابطہ نہیں رکھا بلکہ انتہا درجے کی غیرذمہ داری کا ثبوت دیا جس سے طلباء کا مستقبل متاثر ہوا، نہ طلباء کوان کے نقصان سے آگاہ کیا، جب بیرونی سپروائزر پر پابندی لگی تو نہ شعبہ نے تین پی ایچ ڈی پروفیسرز کا انتظام کیا، نہ طلباء کو وارننگ جاری کی گئیں، نہ طلباء کی شکایات کا جواب دیا گیا، نہ ڈین فیکلٹی نے اور نہ ہی وی سی نے چیئرمین شعبہ سے استفسار کیا کہ نو پی ایچ ڈی اسکالرز کاکیا بنا، شکایات پر نہ شعبہ نے ، نہ ڈین نے اور نہ ہی وی سی نے طلباء کی میٹنگ کرنا گوارہ کیا کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہوا کہ آپ لوگ اپنی پی ایچ ڈی مکمل نہ کرسکے؟۔ متاثرہ اور بے بس طلباء کا چئیرمین ایچ ای سی، وفاقی وزیرتعلیم ، اور چانسلر جامعہ جناب صدر پاکستان سے مطالبہ ہے کہ اُن پر رحم کیا جائے ، ان کی فیسوں کے علاوہ ان کی زندگی کے پانچ قیمتی سال بھی ضائع ہونے سے بچائے جائیں اور شعبہ کی ناکامیوں کا ملبہ طلباء پر نہ ڈالا جائے۔ ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیمی کمیشن کے نمائندوں کو وی سی اوپن یونیورسٹی کے پاس بھیجیں تاکہ متاثرہ طلباء کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے طے کیا جاسکے اب بات ہورہی ہے ایجوکیشن کی ترقی میں رکاوٹوں کی۔ اوپن یونیورسٹی ہو یا کوئی بھی یونیورسٹی حتی کہ الخیر یونیورسٹی کے شعبوں کی غفلت اور غیرذمہ داری سے نقصان ہمیشہ طلباء کو ہی ہوا ہے۔ الخیر یونیورسٹی کے طلباء جنہوں نے بھاری بھرکم فیس دی، ورکشاپوں کوپاس کیا مگرگیارہ سال سے مسائل کا شکارہیں حالانکہ ان طلباء کے حق میں ہائی کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد بھی ایچ ای سی کے فیصلے کا انتظارہورہا ہے جس کی ابھی شنوائی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ وزیرتعلیم جناب شفقت محمود صاحب سے گزارش ہے کہ یونیورسٹیوں کے اس نظام کو بھی دیکھیں جس سے ہزاروں طلباء کا ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے جو آخرکام ملک کا ہی نقصان ہے۔ ان مسائل کا حل بھی ضروری ہے کیونکہ اگرجامعات یعنی درسگاہیں ہی گمراہی کا شکارہوجائیں تو اگلی نسلوں کا مستقبل کا تاریک ہونا یقینی ہے۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 508536 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.