کافروں کے مال و متاع اور ترقیوں کا راز ۔۔۔۔۔ دوسرا حصہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
نئے پڑھنے والے قارئین کرام کے لئے
اس لنک پر پہلے حصہ کا مطالعہ فرمائیں
https://hamariweb.com//articles/article.aspx?id=14463

دوسرا حصہ
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔۔ الحمد اللہ بحیثیت ایک مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم اللہ رب العزت کا سچا کلام ہے ۔۔۔۔ اور جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ "ایمان لانا" صرف زبان سے کہہ دینے ہی کا نام نہیں بلکہ اپنے دل کی گہرائیوں سے بھی سچا جاننے کا بھی نام ہے ۔۔۔۔ لہذا یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم کلام پاک پر ایمان لانے کے زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ کلام پاک کے ایک ایک لفظ کے سچا ہونے کاایسایقین بھی دل میں اتارلیں جیسا کہ ہمیں ہر رات کے بعد صبح ہونے کا یقین ہوتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان اور یقین میں اضافہ فرمائے ۔آمین

معزز قارئین کرام ۔۔۔ قرآن کریم میں شیطان کے متعلق متعدد مقامات پر ارشادات موجود ہیں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤﴾ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ﴿١٥﴾ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿١٦﴾ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ الخ الاعراف14،17 پارہ 8
(ترجمہ: کہنے لگا مجھے دوبارہ کھڑے کئے جانے کے دن تک کی مہلت عطاءفرما،جواب ملا کہ ہاں تو مہلت دئے گئے ہوﺅں میں سے ہے ،(شیطان) کہنے لگا چوں کہ تونے مجھے بے راہ کر دیاہے اب میں تیری سیدھی راہ پر انہیں بہکانے کے لئے بیٹھ جاﺅں گا،اور ان کے پاس ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے آتا رہوں گا ،تو ان میں سے اکثروں کو اپنا شکر گزرا نہیں پائے گا)

ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ شیطان کہتا ہے میں اس کی دنیا اور آخرت ،نیکیاں ،بھلائیاں سب تباہ کردینے کی کوشش میں رہوں گااور برائیوں کی طرف ان کی رہبری کروں گا۔وہ سامنے سے آکر کہتا ہے کہ جنت اور دوزخ قیامت کوئی چیز نہیں ،وہ پشت کی جانب سے آکر کہتا ہے،دیکھ دنیا کتنی زینت دار ہے وہ دائیں طرف سے آکر کہتا ہے کہ خبردار نیکی کی راہ بہت کٹھن ہے ،وہ بائیں سے آکر کہتا ہے دیکھ گناہ کس قدر لذیذ ہیں ،پس ہر طرف سے آکر ہر طرح بہکاتا ہے ۔ہاں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اوپر کی طرف سے نہیں آسکتا ،اللہ کے بندے کےدرمیان حائل ہو کر رحمت الہٰی کی روک نہیں بن سکتا،پس سامنے یعنی دنیا،اور پیچھے یعنی آخرت ،اور دائیں یعنی اس طرح کہ دیکھیں ،اور بائیں یعنی اس طرح نہ دیکھ سکیں ۔وہ کہتا ہے کہ اکثروں کو شاکر نہیں پائے گا یعنی موحد۔ ابلیس کو ےہ وہم ہی وہم تھالیکن نکلا مطابق واقعہ۔جیسے اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(شیطان نے ان کے بارے میں سوچ رکھا تھا اسے سچا کر دکھایا، ےہ لوگ سب کے سب اس کے تابعدار بن گئے سوائے مومنوں کی جماعت کے )سبا 20 پارہ 22

قرآن پاک میں فرمان ہے کہ شیطان ہمیں آگے پیچھے ،دائیں بائیں سے آکر بہکاتا ہے ۔

لیکن ہم نے یا کسی نے آج تک شیطان کو دیکھا نہیں کہ شیطان نے ہمیں دائیں ،بائیں یا آگے پیچھے سے آکر بہکایا ہو۔

پھر شیطان کہاں ہوتا ہے ؟وہ ہمیں کیسے گمراہ کرتا ہے ؟

(یہ بہت اہم بات ہے ۔ہم مختصر عرض کریں گے آپ سے توجہ کی درخواست ہے )

فرض کریں کہ ہمارے کسی سے لین دین کے معاملہ میں ہمارے پاس اختیار ہو کہ ہم فلاں شخص سے لین دین میں چند ہزار،یا چند لاکھ زیادہ حاصل کرسکتے ہوں ۔۔۔۔اور وہ شخص مجبور ہو یا لاعلم ہو کہ ہم اس سے زائد وصول کررہے ہیں ۔۔۔۔اس موقعہ پر ہمارے دل میں ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جو کہ ہمارے زائد پیسہ کے لینے پر دفاع کر رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔یا تو ہمارے اندر کی سوچ ہمارے زائدپیسہ لینے پر دلائل دے رہی ہوتی ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔۔۔۔یا چلو کوئی بات نہیں یہ زائد پیسہ لینا بھی ہمارا نفع ہے یا حق ہے ۔۔۔۔تو ہمارے اندر ایسی کیفیت اور سوچ کا پیدا ہوناشیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔۔۔۔جو ہمیں اللہ تعالیٰ اور رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی نافرمانی(حق دار کا اس کا حق ادا نہ کرنا)کرنے پر اکساتے ہوئے کسی نہ کسی طرح جواز پیدا کرکے ہمیں مطمئن کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔اب یہاں جو شخص اپنی شدیدخواہش اور ان دلائل کو دبا کر یہ سوچ لے کہ قرآن اور سنت کا اس معاملہ پر کیا حکم ہے اور میں صرف اس کی تابعداری کروں گا۔۔۔۔اور چلو یہ شخص مجبور ہے یا اس کو علم نہیں لیکن میرا رب تو جانتا ہے ۔۔۔۔اور میں اس شخص کو اس کا حق دے دوں۔۔۔۔ تو اس نے شیطان کی نہ مانی بلکہ اپنے رب کا حکم مانا۔

اسی طرح شیطان ہمارے بن دیکھے ہمارے دل میں وسوسے پیدا کر کر کے ہمیں بہکاتا رہتا ہے اور گناہوں میں مبتلا کرتا ہے ۔

اور ہم کسی بھی ناجائز کام میں اپنے دل و دماغ میں پیدا ہونے والے جواز یا دلائل سے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔۔۔۔اور گناہوں کی دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ اور ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم شیطان کے بہکائے میں آکر گناہ کر رہے ہیں۔۔۔ ۔ (ہاں البتہ بہت سے لوگوں کو اپنے گناہوں کا احساس ضرور ہوتا ہے لیکن وہ بھی گناہوں کی دلدل میں اترتے اترتے آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جاتا ہے)

اس تفصیل میں پہلا جواب یہ چھپا ہے کہ جیسا کہ ہم لوگ دیکھتے اور سنتے ہیں کہ مسلمان میں جھوٹ ،وعدہ خلافی،دھوکہ دہی ،امانت میں خیانت جیسی برائیاں زیادہ نظر آتیں ہیں اور غیر مسلموں میں اتنی نظر نہیں آتیں ؟

ایک بزرگ نے ایک بہت آسان سی مثال سے یہ بات سمجھائی ہے ۔۔۔۔لیکن ہم نے تھوڑی سی تفصیل اس لئے لکھی تاکہ آپ یہ مثال سمجھنے میں آسانی رہے ۔

یہ بزرگ فرماتے ہیں کہ چور چوری کس گھر میں کرتا ہے ؟

یقینا اسی گھر میں چور چوری کرے گا جہاں اس کو معلوم ہو کہ اس گھر میں خزانہ موجود ہے ۔

لیکن چور اس گھر میں گھس کر کیا کرے گا کہ جو ایک ٹوٹی پھوٹی خالی جھونپڑی کی مانند ہو ؟

شیطان کی دشمنی لوگوں کے ”ایمان کے قیمتی خزانے “ سے ہے۔۔۔۔اور الحمد اللہ یہ خزانہ صرف اور صرف ان کے پاس ہے جو رب پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔۔رب کے سچے کلام قرآن پاک پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔۔رب کے سچے نبی حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں ۔۔۔۔کافروں اور مشرکوں کے ایمان کی مثال اس ٹوٹی پھوٹی اور بالکل خالی جھونپڑی ہے ۔جن کے پاس اس ”ایمان کے خزانے “کا ذرہ بھی نہیں ۔۔۔۔پھر شیطان ایسی ٹوٹی پھوٹی خالی جھونپڑی میں کیا حاصل کرنے داخل ہوگا ۔۔۔؟اور اس گھر میں کیا چیز چوری کرنے کے جتن کرے گا۔۔۔۔؟جن کا خزانہ شیطان پہلے ہی چرا کر انہیں کنگال کر چکا ہے۔

بس اتنی سی بات سے سمجھ لیں کہ مسلمان کا برائیوں میں مبتلاہونا ان دیکھے دشمن شیطان کے حملوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

جبکہ غیر مسلم کا ایسی بہت سی برائیوں سے بچے رہنے کا سبب ان کے نفس کی مضبوطی نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ شیطان کا ان ایمان سے خالی لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہے ۔۔۔۔تو لازمی بات ہے جب غیر مسلموں کا نفس ان کو بہکائے گا نہیں تو وہ جتنے بھی اچھے نظر آئیں حیرت کی بات نہیں ۔۔۔

دوستوں! شیطان ایک حقیقت ہے ۔۔۔اور شیطان کالوگوں کو بہکانے میں اپنی توانائیوں کا استعمال مسلمان کے لئے ہے۔

اور مسلمان کا شیطان کے بہکاوے میں آنا قرآن اور سنت کی تعلیمات سے دوری اور ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہے ۔

معزز قارئین کرام ۔۔۔۔اب آجائیں مغربی دنیا کے ظاہری ترقی اور مال و زر کی بہتات کی وجوہات کی طرف۔

ہمارے مغربی دنیا سے متاثر دنیاوی پڑھے لکھے حضرات مغرب کی ظاہری چمک دمک سے یا ان کی ترقی کی رفتارکو دیکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ زیادہ عقل مند ہیں۔۔۔ ۔جب ہی ان کے مرتب کئے ہوئے نظام اور بنائے ہوئے ضابطے اور قوانین کی وجہ سے یہ لوگ ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔۔۔۔اور مغربی دنیا کی ترقی کا راز ان کے نظام میں۔۔۔۔ان کے ظابطوں اور ان کے بنائے ہوئے قوانین میں چھپا ہے ۔۔۔۔نہیں دوستوں یہ لوگوں کی شدید غلط فہمیاں ہیں ۔

انتہائی توجہ سے نیچے دی ہوئی آیات مبارکہ کا بغور مطالعہ فرمائیں ۔۔۔۔ کیاکافروں کے مال و متاع اور ترقیوں کے راز ۔۔۔۔کافروں کی عقل اور ان کے بنائے ہوئے نظام کی وجہ سے ہے ؟؟؟

اور کیا یہ دنیاوی مال و متاع اور ترقیاں حاصل کرنا ہی کامیابی کی علامت ہے ؟؟؟؟

اوردیہان سے ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ رب العزت کے فرمان کے مطابق حقیقی کامیابی کس چیز میں ہے ۔
اور اس حقیقی کامیابی کو پانے کا راستہ کون سا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًاالخ بنی اسرائیل 18 پارہ 15
(ترجمہ:جو ہے خواہش مند دنیا کے فائدے کا تو جلدی دے دیتے ہیں ہم اسے یہیں ،جو چاہتے ہیں ہم اور جس کو چاہتے ہیں ،پھر ٹہرا رکھا ہے ہم نے اس کے لئے جہنم ،داخل ہوگا وہ اس میں برے حال سے اور راندئہ درگاہ ہوکر )

اگلی آیت مبارکہ میں ارشاد ہے ( وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا )
بنی اسرائیل 19 پارہ 15
(ترجمہ :اور جو خواہشمند ہو آخرت کا، اور کوشش کرے اس کے لئے ،جو کوشش ضروری ہے، اور ہو بھی وہ مومن، پس یہ لوگ ہیں کہ ہے ان کی کوشش مقبول )

اگلی آیت مبارکہ میں ارشاد ہے (كُلًّا نُّمِدُّ هَـٰؤُلَاءِ وَهَـٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا)بنی اسرائیل 20 پارہ 15
(ترجمہ :ہر ایک کو مدد دیتے ہیں ہم ان کو بھی اور اُن کو بھی عطاءمیں سے تیرے رب کی ،اور نہیں ہے عطا ءتیرے رب کی کسی پر بند)

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ کچھ ضروری نہیں کہ طالب دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہی ہو ،جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کردے لیکن آخرت میں ایسے لوگ خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔یہ تووہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے کیوں کہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ،فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لئے وہاں رحمت الٰہی سے دور رہیں۔

مزید لکھتے ہیں کہ ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دارآخرت ہوجائے اور آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان کی تصدیق اور یقین ہو ،عذاب و ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ،اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہو ،ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ۔

مزید لکھتے ہیں کہ ان دونوں قسم کے لوگوں کو ایک وہ جن کا مطلب صرف دنیا ہے دوسرے وہ جو طالب آخرت ہیں ،دونوں قسم کے لوگوں کو ہم بڑھاتے رہتے ہیں جس (چیز)میں بھی وہ (طالب)ہیں ،یہ تیرے رب کی عطاءہے ،وہ ایسا متصرف اور حاکم ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا مستحق سعادت کو سعادت اور مستحق شقادت کو شقادت دے دیتا ہے۔

؟؟قرآن پاک پر ایمان رکھنے والے بھائیوں اوردوستوں!
رب پر ایمان رکھتے ہو ۔۔۔۔رب کے سچے کلام پر ایمان رکھتے ہو۔۔۔۔پھر رب کے سچے کلام پر غور کیوں نہیں کرتے ؟؟

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی طلب رکھنے والے کو دنیا مل جاتی ہے ۔۔۔۔آخرت کی طلب رکھنے والے کو آخرت ملتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ دونوں کو ان کی چاہتوں اور خواہشوں کے مطابق عطاءفرماتا ہے ۔۔۔۔اور اللہ تعالیٰ کی عطاءکسی پر بند نہیں ہے ۔

کافروں کو دنیاوی عزت ،راحت ،مال و متاع اور ترقیاں اس لئے حاصل ہیں کیوں وہ طالب دنیا ہیں ۔۔۔۔دنیا کی طلب رکھتے ہیں ۔۔۔۔دنیا کی جستجو رکھتے ہیں ۔۔۔۔اس لئے ان کو اللہ تعالیٰ ان کے طلب کے مطابق عطاءفرماتا ہے
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ)ھود 15،16 پارہ 12
(ترجمہ :جو کوئی چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور اس کی رونق تو پورا پورادیتے ہیں ہم بدلہ ان کو ان کے اعمال کا اسی دنیا میں اور ان کے ساتھ اس میں ذرا بھی کمی نہیں کی جاتی ،یہی ہیں وہ لوگ کہ نہیں ہے ان کے لئے آخرت میں (کچھ)سوائے جہنم کے اور برباد ہوگیا وہ جو بنایا تھا انہوں نے اس دنیا میں اور ضائع ہوگئے وہ سب ( اعمال )جو وہ کیا کرتے تھے )

تفسیر معارف القرآن میں مفتی شفیع رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جو شخص (اپنے اعمال خیر سے) محض حیات دنیوی (کی منعفت )اور شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے (جیسے شہرت و نیک نامی و جاہ )اور ثواب حاصل کرنے کی اس کی نیت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے (ان )اعمال (کی جزائ)ان کو دنیا میں ہی پورے طور پر بھگتا دیتا ہے اور ان کے لئے دنیا میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔یعنی دنیا ہی میں ان کے اعمال کے عوض ان کو نیک نامی اور صحت و فراغ عیش و کثرت اموال و اولاد عنایت کردیا جاتا ہے ۔

تفسیر مظہری میں ہے کہ مومن اگر چہ دنیا کی فلاح کا بھی خواہش مند ہوتا ہے مگر آخرت کا ارادہ غالب رہتا ہے اس لئے اس کو دنیا میں بقدر ضرورت ہی ملتا ہے اور بڑا معاوضہ آخرت میں پاتا ہے ۔(تفسیر مظہری)
صحیح مسلم میں بروایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتے ،مومن جو نیک کام کرتا ہے اُ س کو دنیا میں بھی کچھ بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں ثواب ملتا ہے ،اور کافر (چوں کہ آخرت کی فکر ہی نہیں رکھتا اس لئے اُ س کا ) حساب دنیا میں ہی بھگتا دیا جاتا ہے ،اس کے نیک اعمال کے بدلے میں دنیا کی دولت ،عزت ،صحت،راحت اس کو دیدی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا جس کا معاوضہ وہاں پائے۔(صحیح مسلم )

احادیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے بھائیوں اوردوستوں!نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہو ۔۔۔۔نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر ایمان رکھتے ہو۔۔۔۔پھر اپنے پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر غور کیوں نہیں کرتے ؟؟؟؟

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہر عمل کے مقبول اور باعث نجات آخرت ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل اللہ کے لئے کیا گیا ہو۔۔۔۔اور اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا وہ ہی معتبر ہے جو اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر کیا گیا ہو۔۔۔۔جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہی نہیں رکھتا اس کے تمام اعمال و اخلاق ایک بے روح ڈھانچہ کی طرح ہیں۔۔۔۔ جس کی شکل و صورت تو اچھی بھلی ہے مگر روح نہ ہونے کے سبب دار آخرت میں اس کا کوئی وزن اور اثر نہیں ۔۔۔۔البتہ کیوں کہ اُس کے عمل سے دنیا کے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور ظاہری صورت کے اعتبار سے وہ نیک عمل ہے۔۔۔۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال عدل و انصاف کی بناءپر اس کے عمل کوبھی بالکل ضائع نہیں قرار دیا۔۔۔۔ بلکہ اس کے کرنے والے کے پیش نظر جو مقصد تھا کہ اس دنیا میں اس کی عزت ہو لوگ اس کو سخی اور بڑا آدمی سمجھیں ،دنیا کی دولت ،تندرستی اور راحت نصیب ہو ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ اُس کو یہ سب کچھ دنیا میں دے دیتے ہیں ۔۔۔۔اور آخرت کا تصور اور وہاں کی نجات اس کے پیش نظر ہی نہیں تھی ۔۔۔۔اور نہ اس کا بے روح عمل وہاں کی نعمتوں کی قیمت بن سکتا تھا ۔۔۔۔اس لئے ان اعمال کا وہا ں کچھ عوض نہیں ملے گا اور کفر و معصیت کی وجہ سے جہنم میں رہے گا ۔

میرے بھائیوں اور دوستوں ! یہ راز ہے کافروں کی ترقیوں اور مال و زر اور شہرت کی بہتات کا ۔۔۔۔کافر دنیا میں کوئی بھی اچھا عمل کرتے ہیں ۔۔ ۔۔اور کوئی ایجادات کرتے ہیں ۔۔۔۔جن سے دنیا نفع حاصل کرتی ہے ۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان کے اچھے اعمال کو ضائع نہیں فرماتا ۔۔ ۔ ۔ اور ان کوان کے اچھے اعمال کی وجہ سے دنیاوی فائدے عزت ،شہرت ،مال و متاع عنایت فرماتا ہے ۔

میرے مسلمان بھائیوں اور دوستوں !ہم کیوں اس دھوکہ میں پڑتے ہیں کہ کافروں کے مال ومتاع اور ترقیوں کا راز ان کے بنائے ہوئے نظام میں چھپا ہے ۔۔۔۔ ان کے بنائے ہوئے ضابطوں اور قوانین میں چھپا ہے ۔
ہمارے نام نہاد دانشور ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ کہ چلو ہم بھی ان کافروں کے نظام کی پیروی کرکے کامیابیاں حاصل کرلیتے ہیں ۔۔۔۔تو ہم بھی ان کی طرح مال و متاع اور ترقیوں والے ہوجائیں گے ۔۔۔۔۔چلو ہم بھی مغرب کے ضابطے اور قانون سیکھ لیتے ہیں ۔۔۔۔اور ہم بھی اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل مغرب کے بنائے ہوئے نظام میں ڈھونڈ لیتے ہیں ۔۔۔۔اور ہم بھی مغربی تجزیہ نگاروں کے کالم پڑھ پڑھ کر اچھے کالم نویس بن جاتے ہیں اور ہماری بھی واہ واہ ہوجائے گی اور ہمیں بھی عزت و دولت ملے گی ۔

دیکھو دیکھو دانشوروں میرے پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں سال پہلے اس بھاگ دوڑ کا کیا انجام بتایا تھا ؟؟

جامع ترمذی اور مسند احمد میں بروایت حضرت انس ؓ منقول ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی نیت اپنے اعمال میں طلب آخرت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کو غنی کردیتے ہیں اور اس کی ضروریات کو پورا فرمادیتے ہیں اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر آتی ہے ، اور جس شخص کی طلب دنیا کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ محتاجی اس کے سامنے کردیتے ہیں کہ اس کی حاجت کبھی پوری ہی نہیں ہوتی کیوں کہ ہوس دنیا اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ایک حاجت پوری ہونے سے پہلے دوسری حاجت سامنے آجاتی ہے اور بے شمار فکریں لگ جاتیں ہیں اور ملتا صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔

دیکھو اور سوچو اور غور کرو!

کیا آج مغرب اپنی تمام تر ترقیوں کے بعد بھی مطمئن ہے ؟؟؟یاآج بھی ان کی مزید ترقی حاصل کرنے کی ہوس چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ؟

اورایک ترقی حاصل کرنے کے بعد دوسری حاجت سر اٹھا ئے کھڑی ہوتی ہے ؟؟؟اپنی تمام تر ترقیوں کے باوجود ہر ایک کو اپنے مستقبل کی فکر کھائے جاتی ہے ؟؟؟ پوری دنیا میں ترقیوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے ؟؟؟اورکوئی ایک بھی اپنی ترقیوں سے مطمئن نہیں ہے ؟؟؟

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے مکان پر حاضر ہوئے تو سارے گھر میں گنی چنی چیزوں کے سوا کچھ نہ دیکھا تو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کو بھی دنیا کی وسعت عطا فرمادیں ،کیوں کہ ہم فارس اور روم کو دیکھتے ہیں وہ دنیا میں بڑی وسعت اور فراخی میں ہیں حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے ،آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم تکیہ سے کمر لگائے ہوئے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ الفاظ سن کر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ،اے عمر!تم اب بھی اسی خیال میں پڑے ہو ،یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا گیا ہے “
(تفسیر مظہری)

میرے مسلمان بھائیوں اور دوستوں!نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فارس اور روم کی ترقیاں مال و زر کی بہتات آج کے یورپ اور امریکہ کی مانند تھیں ۔۔۔۔یہ اُس وقت کی ترقی یافتہ حکومتیں تھیں۔۔۔۔اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اے عمر! تم اب بھی اسی خیال میں پڑے ہو ؟یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا گیا ہے۔

میرے مسلمان بھائیوں دوستوں !
نکل آﺅاس دھوکہ سے ۔۔۔۔کہ کافروں کا مال و متاع اور ترقیوں کی بہتات ان کی عقل یاان کے نظام کی کامیابیوں کا نشان ہیں ۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ ﴿١٩٦﴾ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ الخ اٰل عمران196،197 پارہ 4
(ترجمہ:تجھے کافروں کا شہر میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے،یہ تو بہت ہی تھوڑا فائدہ ہے ،اس کے بعد ان کا ٹھکانا تو جہنم ہے،اور وہ بری جگہ ہے

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کافروں کی بد مستی کے سامان تعیش ،ان کی راحت و آرام ،ان کی خوشحالی اور فارغ و البالی کی طرف اے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم آپ نظر نہ ڈالیں ۔یہ عنقریب زائل ہوجائے گا اور صرف ان کی بد اعمالیاں عذاب کی صورت میں ان کے لئے باقی رہ جائیں گے ۔ان کی یہ تمام نعمتیں آخرت کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہیں ۔

قرآن پاک پر ایمان رکھنے والوں پڑھو بار بار پڑھو۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کا کیا فرمان ہے؟کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا(عیش و آرام ، خوشحالی) دیکھ کر دھوکہ میں نہ پڑجانا ۔۔۔۔یہ بہت تھوڑی مدت تک کا فائدہ ہے ۔۔۔۔اس کے بعد ان کا ٹھکانہ تو جہنم ہے ۔۔۔۔اور وہ بہت بری جگہ ہے ۔۔۔۔سوچیں تو سہی دوستوں کیا آج ہم اور ہمارے دانشور مغرب کے مال و متاع کو دیکھ کر دھوکہ میں مبتلا تو نہیں ہوگئے ہیں؟؟؟ہم نے اس تھوڑی مدت تک کے فائدے کو کامیابی کانشان تو نہیں سمجھ لیا ؟؟؟کیا واقعی یہ ترقیاں کامیابیوں کا نشان ہیں ؟؟؟

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا الخ بنی اسرائیل 21 پارہ 15
(ترجمہ:دیکھو کیسی فضیلت دی ہم نے بعض کو بعض پر اور البتہ آخرت بہت بڑی ہے درجات کے اعتبار سے اور بہت بڑی ہے فضیلت کے اعتبار سے بھی )

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھ لو کہ دنیا میں ہم نے انسانوں کے کیسے مختلف درجے رکھے ہیں ،ان میں امیر بھی ہیں ،فقیر بھی ہیں ،درمیانہ حالت میں بھی ہیں ،اچھے بھی ہیں،برے بھی ہیں اور درمیانہ درجے کہ بھی ہیں ۔آخرت درجات کے اعتبار سے دنیا سے بہت بڑھی ہوئی ہے ،کچھ تو طوق پہنے جہنم کے گڑھوں میں ہوں گے ،کچھ جنت کے درجوں میں ہوں گے ،بلند و بالا خانوں میں ،نعمت و راحت میں سرور و خوشی میں ،پھر خودجنتیوں میں بھی درجوں کاتفاوت ہوگا۔پس آخرت درجوں اور فضیلتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہے ۔

طبرانی میں ہے جو بندہ دنیا میں جو درجہ پر چڑھنا چاہے گا اور اپنی خواہش میں کامیاب ہوجائے گا ،وہ آخرت کا درجہ گھٹادے گا جو اس سے بہت بڑا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔

میرے مسلمان بھائیوں دوستوں! اللہ رب العزت نے حقیقی اور اصل کامیابی درجات اور فضیلت کے اعتبار سے آخرت میں رکھی ہے ۔۔۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ آخرت کی زندگی یوں سمجھ لیں کہ فرض کرلیں کہ اس زمین سے لے کر ساتویں آسمان تک (جو نہ جانے کتنے ہزاروں سال کی مسافت پر ہے) اگر چھوٹے چھوٹے کنکروں سے بھر دیا جائے ۔۔۔۔اور ایک پرندہ آئے اور ایک کنکر اٹھا کے لے جائے اور پھر ایک ہزار سال بعد آئے اور دوسرا کنکر اٹھا کر لے جائے ۔۔۔۔تو یہ زمین سے لے کر ساتویں آسمان تک بھرے ہوئے کنکر ختم ہوسکتے ہیں لیکن آخرت کی زندگی ختم نہیں ہوگی ۔۔۔۔اور یہ فانی زندگی جو اگر سو سال کی بھی ہو اور اس زندگی میں کتنا ہی مال و متاع اور ترقیوں کی دوڑ لگالیں ۔۔۔۔لیکن ایک نہ ایک دن اس سفر آخرت پر جانا ہی پڑے گا ۔۔۔۔جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے ۔۔۔۔جہاں کا مال و متاع اور عیش و آرام کا مول صرف اور صرف اتباع قرآن اور سنت ہے ۔

کیا خیال ہے کافروں کے مال و متاع اور ترقیوں کو دیکھتے ہوئے ان کی پیروی کرنا عقلمندی ہے ؟؟؟

یااللہ رب العزت کے فرمان پر حقیقی اور اصل کامیابی آخرت کی کامیابی کے لئے مال و متاع
(اتباع قرآن اور سنت ) کی فکر کرنا عقلمندی ہے ؟

۔۔۔۔فیصلہ آپ کریں ۔۔۔۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الخ البقرة 212 پارہ 2
(ترجمہ:خوشنما بنا دیا گیا ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے کفر اختیار کیا دنیاوی زندگی کو،اورمذاق اڑاتے ہیں یہ ان لوگوں کا جو ایمان والے ہیں ،اور وہ لوگ جو متقی ہیں برتر ہوں گے ان سے قیامت کے دن )
ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کفار صرف دنیا کی زندگی پر دیوانے ہوئے ہیں ۔مال جمع کرنا اور اللہ کی راہ میں بخل کرنایہی ان کا رنگ ڈھنگ ہے بلکہ جو ایمان دار اس دنیائے فانی سے سیر وچشم ہیں اور پروردگار کی رضامندی میں اپنا مال لٹاتے رہتے ہیں،یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ،حالانکہ حقیقی نصیب والے یہی لوگ ہیں ۔قیامت کے دن ان کے مرتبے دیکھ کر ان کافروں کی آنکھیں کھل جائیں گی،اس وقت اپنی بدتری اور ا ن کی برتری دیکھ کر معاملہ کی اونچ نیچ سمجھ آجائے گی۔

میرے مسلمان بھائیوں اور دوستوں !کہنے کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی بھاگ دوڑ جو بقدر ضرورت ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔ہم نے دنیا کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ۔۔۔۔اور جوقرآن اور سنت میں ہماری زندگی کا اصل مقصد آخرت کی تیاری بتایا گیا ہے۔۔۔۔۔ہم نے آخرت کی تیاری کرنا بالکل ہی چھوڑ رکھا ہے ۔۔۔۔قرآن اور سنت میں مکمل ضابطہ حیات دیا گیا ۔۔۔۔۔ہم اور ہمارے دانشور جو قرآن اور سنت پر ایمان رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن اس کے باوجودلوگوں نے اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل غیروں کے بنائے ہوئے نظام میں ڈھونڈنا شروع کردیا ۔۔۔۔اور کافروں کے مال و متاع اور عزت اور شہرت اور ترقیاں جو ان کافروں کے دنیاوی نیک اعمال کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے عطا ءفرمایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو دیکھ کر ہم لوگ اس دھوکہ میں مبتلا ہوگئے کہ شاید یہ ان کافروں کی عقل اور ان کے بنائے ہوئے نظام کی کامیابی کا نشان ہے۔۔۔۔ پھرہمارے انفرادی یا اجتماعی مسائل کیسے حل ہونے تھے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

ضروری گذارش : کسی بھائی یا بہن کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نظرآئے تو نشاندہی کی درخواست ہے۔جزاک اللہ
Nasir Noman
About the Author: Nasir Noman Read More Articles by Nasir Noman: 14 Articles with 14196 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.