ایک عام نظریہ یہ ہے کہ دورِ جدید میں مرد
اور عورت کو مساوی حقوق ملنے لگے ہیں اور دورِ جدید کی عورت ایک مضبوط عورت
ہے مگر کیا واقعی؟...... یہ بات صرف اس طرح ہے جیسے الیکشن سے پہلے کوئ بھی
حکمران وعدے کرے اور ہم اس پر فالفور ایمان لے آئیں۔۔۔۔۔۔۔ بیٹی، بیوی، ماں،
بہن۔۔۔۔۔۔۔صنفِ نازک آج بھی کئ مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔۔۔۔۔ اول تو یہ کہ
آج بھی کئ پسماندہ ذہنیت کے حامل لوگ بیٹی کی پیدائش کو بوجھ سمجھتے ہیں
مگر یہاں میں انہیں اس بات کا سو فیصد ذمہدار نہیں سمجھتی وہ اس لیے کہ ہر
شخص اپنی فصل کو طوفان سے بچانے کی کوشش کرتا ہے ہر شخص اپنی قیمتی دولت پر
ڈاکہ پڑنے سے ڈرتا ہے اس ہی لیے دنیا میں پھیلی گئ وہ غلاظتیں جو صرف عورت
ہی کا دامن داغدار کرتی ہیں سے بچنے کے لیے کئ ایسے لوگ ڈر بھی جاتے ہیں جو
سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی بیٹی کو اس غلاظت سے نہیں بچا سکیں گے مگر یہ سوچ
بھی سو فیصد صحیح نہیں ہے لیکن غلط بھی نہیں ہے یہ حقیقت ہے کہ مرد کے ذہن
میں کہیں نہ کہیں برتری کا عنصر موجود رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے کیونکہ
دینِ اسلام میں مرد عورت سے برتر ہے کیونکہ وہ اس کا محافظ ہے، مگر جس
نظریے سے اس حکم کو دیکھا جاتا ہے وہ عام طور پر یہ ہے کہ مرد کو تمام
اختیارات دیے ہیں تو وہ کیوں نہ ان کا فائدہ اٹھاۓ۔۔۔۔پھر چاہے ناجائز ہی
کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔مگر بیٹی اللّٰہ کی رحمت ہے اور یہ بات بھی دینِ اسلام ہی
کا حکم ہے، فرمان ہے اگر مرد کی برتری سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں تو عورت
کے وجود کو بھی بوجھ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔۔۔۔۔۔ہر سال گیارہ اکتوبر کو "انٹرنیشنل
گرل چائلڈ ڈے" منایا جاتا ہے جس کا مقصد اور مطلب ہی یہ ہے کہ بیٹی کے پیدا
ہونے پر خوشی منائی جاۓ بیٹی ایک تحفہ ہے جسے پانے والا ربِ کریم کا شکر
گزار بنے یہ ماننا پوری دنیا کا ہے مگر ہمارے لیے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان دنیا جہاں کے اقوال سے بہت بڑھ کر ہے کہ ایک حدیث کا
مفہوم ہے کہ " عورت کے لیے یہی مبارک ہے کہ اس کی پہلی اولاد لڑکی ہو" اس
ہی طرح اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے کہ "جب کوئ لڑکی پیدا
ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ٫ اے لڑکی تو زمین میں اتر میں
تیرے باپ کی مدد کروں گا " یہاں اللّٰہ پاک اس بات کو بھی واضح بیان کر رہا
ہے اور ان کن ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے لیے بیان کر رہا ہے کہ بیٹی کے باپ
کی مدد وہ خود کرے گا، اب جہاں اللّٰہ خود مدد کرے گا وہاں انسانوں کی کیا
اوقات کہ بیٹی کو بوجھ یا زحمت سمجھیں۔۔۔۔۔۔۔ اب بات آجاتی ہے کہ بیٹی کو
زحمت کیوں سمجھا جاتا ہے وہ اس لیے کہ جب کسی کی باحیا باپردہ بیٹی تعلیم
حاصل کرنے باہر جاتی ہے تو کئ حوس زدہ نظریں اس کے تعاقب میں رہتی ہیں اور
پھر اگر وہ کسی درندگی کا شکار ہوجاتی ہیں تو دنیا ان پر تنگ کر دی جاتی ہے
وہ باعثِ ذلت بن جاتی ہیں اور پھر لوگ اس کے خاندان کو بھی اس ذلت کی لپیٹ
میں لے لیتے ہیں کہ دنیا کو بہت شوق ہے کہ ہر بندے کی زندگی کا فیصلہ کرنے
خود کھڑی ہوجاۓ اگر عورت کو طلاق ہوجاتی ہے تب بھی وہ دنیا کی نظروں سے صرف
اس لیے چھپتی ہے کہ وہ دنیا کے سوالوں اور طعنوں کے تیر برداشت نہیں کرنا
چاہتی کئ بار دنیا اس زور سے تیر پھینکتی ہے کہ کئ لڑکیاں اپنی زندگی سے
خلاصی حاصل کرلیتی ہیں اور اس صورت میں بھی اس کا گھرانہ ذلت کا شکار
ہوجاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس کی وجہ اس کا ساتھی بھی ہوسکتا ہے بیوہ
ہوجاتی ہے تو اس کے کا ہاتھ تھامنے والا کوئ نہیں ہوتا گو کہ ہر صورت دنیا
کے تھپیڑے صرف عورت ہی کو سہنے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔اب اگر لوگ یہ کہیں گے کہ
نہیں " اب ایسا نہیں ہوتا" یا " نئے دور کی عورت ںہت مضبوط اور آزاد ہے" یا
اور کئ نعرے بھی لگائیں گے تو میں ان سے کہوں گی کہ چند ایک کی آزادی اور
کامیابی کو دیکھ کر پرسکون نہ ہو جائیں کیونکہ آج بھی بیٹی جیسی رحمت کو
لوگ بوجھ سمجھتے ہیں مگر میں یہ کہوں گی کہ بیٹی نہ تو بوجھ ہے نہ ہی زحمت
کیونکہ ایسا ہوتا تو نہ فرامانِ ربّی اترتا نہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی احادیث اس بات کی غمازی کرتیں۔۔۔۔۔۔ اور نہ کی سال کا یک دن بیٹی
کی پیدائش کی پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے متعین کیا جاتا۔
|