اصل جنگ کس کی ہے؟

عالمی جنگوں سے پہلے دنیا بہت مختلف تھی اس دور میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا دور تھا جو طاقتور تھا وہی سب کچھ تھا اور وہ چاہے کچھ بھی کر سکتا تھا پر اس طرز عمل میں انسانیت نے بہت کچھ برادشت کیا فلسفیوں نے کہا تھا کہ دنیا کی بڑی طاقتیں جنگوں کا شوق پوار کریں پر ایک نہ ایک دن انہیں ہمارے بتائے اصول پے عمل کرنا ضروری ہوگااور ہم نےدیکھا کہ ویسا ہی ہوا عالمی طاقتوں کو اس کا احساس ہو چکا تھا کہ اگر انسانوں کے حقوق کو مزید روندا گیا تو دنیا میں ایسے تباہی آئگی کہ کوئی انسان نہیں بچ پائے گا ہر طرف تباہی تباہی ہوگی۔ دنیا میں ایسے ادارے بنائے گئے جن کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ کرنا تھا اور انہیں فرد کی آزادی یقینی بنانی تھی انہی عالمی اداروں نے دنیا میں رہنے والے ہر انسان کے حق کو تسلیم کیا اور لوگوں کی رائے کو اہمیت دی گئی جس سے عوررتوں کو حق ملا اور انسانوں کو غلامی سے نجات ملی جہاں جہاں عالمی کالونیاں تھیں ان کو ختم کر دیا گیا اور حکومت مقامی لوگوں کو دی گئی تا کہ ہر قوم خود اپنے ملک میں حکمرانی کر سکے دنیا کی تمام قوموں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے ممالک کو خود چلائیں پر اس پے بھی زور دیا گیا کہ انسانوں کو بنیادی حق سے محروم نہ کیا جائے۔ انسانی حقوق کی بڑی بڑی تنظیمیں بنائی گئیں جن کا مقصد انسانوں کے حقوق کو یقینی بنانا تھا اور فرد کی رائے کو اہمیت دینی تھی اور قوموں کی ثقافت اور مذہب کو تحفظ دیا گیا اور قوموں کو یقین دلایا گیا کہ آپ پے کوئی زبردستی حاکم نہیں بن سکتا یا کوئی بھی کسی قوم محکوم نہیں بنا سکتا۔ اقوام متحدہ میں اس بات پے اتفاق ہوا ہے کہ ہر ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے اور انہیں یہ حق دے کہ وہ خود اپنی مرضی اور رائے کی حکومت قائم کریں۔ عالمی اداروں نے انسان کے مذہب، ثقافت ، اور بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے جس میں خواتین کے حقوق ، تعلیم، صحت ، اپنی مرضی کی زندگی گذارنے کا حق، ووٹ کرنے کا حق، رائے کا اظہار کرنا، عدالتی انصاف ، شخصی آزدی، شامل ہیں۔ دنیا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مسائل کا حل انسانوں کو حقوق دینے میں ہے اگر کسی معاشرے میں انسانی حقوق کو روندا جارہا ہو تو وہ معاشرہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور ایسے معاشرے میں ایسا خونی انقلاب آنے کا خدشہ رہتا ہے جو ہر چیز کو بہا کر کر لے جا سکتا ہے ایسا ماضی میں بھی ہوا ہے فرانس ،روس ، مصر ، ایران کے انقلاب کی مثال دنیا کے سامنے ہے اور پھر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ انقلاب کے بہتر نتائج نکلیں انقلاب ایک ایسے گرم لوہے کی طرح ہوتا ہے جو کہیں بھی مڑ کے جم سکتا ہے اور صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔عالمی اداروں نے انسانوں کے بنیادی حق کے لئے اقدامات کیے ہیں اور ایسا قانون بنایا ہے جسے کسی بھی انسان سے زیادتی برادشت نہیں کی جائگی دنیا نے بڑے تجربات سے یہ بات سیکھی ہے کہ قوموں کو اگر ان کے حق سے محروم کیا جائے تو سواء تباہی کہ اور کچھ نہیں ہوتا اور اس رائے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے جو مجموعی طور پر قوموں کی رائے ہو عالمی اداروں نے انسانی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ایسے قوانین بنائے ہیں جس میں دنیا میں تمام انسانوں کا بھلا ہو سکے اور انسانوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی ریاست یا کوئی فرد کسی کی رائے کا احترام نہیں کریگا اور کسی کے حق کو تسلیم نہیں کریگا تو تمام دنیا اس کے خلاف ردعمل دےگی۔ عاملمی اداروں نے جو قوانین بنائیں ہیں ان کی بدودلت جنگوں میں کمی آئی ہے اور لوگ اس نظام سے خوش ہیں جبکہ ابھی بھی بہت کام کرنا ہے اور عالمی اداروں کا یہ مشن ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کی مدد سے لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے تا کہ لوگ ایک دوسرے سے نفرت نہیں کریں بلکہ مذہبی رواداری قائم کریں ۔ اب یہ جو انقلاب دوسری عالمی جنگ کے بعد آیا ہے جس کے بعد عالمی ادارے بنائے گئے ہیں جن کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے وہاں یہ چیز بھی ہے کہ اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں عالمی قانون کو روندا جارہا ہے اور انسانی آزادی اور بنیادی حقوق کو پامال کیا جارہے تو اس میں عالمی قانون حرکت میں آئے گا۔ دنیا کے عالمی قانون کے مطابق ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گذارے اور کسی دوسرے انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے مذہب کے آڑ ے آئے کسی بھی مذہب کی توہین کرنا یا کسی بھی فرد کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا یہ عالمی طور پر جرم ہے اور اس جرم کی سزا بھی ہےہر انسان کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرے پر کسی پے جبر کرنا ، کسی پے اپنی رائے کو طاقت کے زور پے مسلط کرنا یہ جرم میں شامل ہوتا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ دہشتدگردی کے واقعات کے باوجود بہت سارے لوگ دنیا بھر میں مذہب کی تبلیغ کے لئے جاتے ہیں پر انہیں کوئی نہیں روکتا اور انہیں اس کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ بھلے اپنے مذہب کی تبلیغ کریں ۔پر اس نئی دنیا میں یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ وہ لوگوں میں طاقت کے زور ر پر اپنی رائے ان پے مسلط کرے یا بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کر کہ بیٹھ جائے ایسے عمل عالمی اداروں کے قوانین کے مطابق غیر انسانی سلوک ہے اور جرم بھی ہے، دنیا کا کوئی بھی گروہ اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے یہ اسے حق ہے پر زبدردستی کرنا یہ اس کا حق نہیں۔اگر کسی بھی ملک میں عوام مذہبی پارٹیوں کو ووٹ دینا چاہتے ہوں تو بھلے دیں ووٹ دینا ان کا حق ہے اور اپنی مرضی کی حکومت بنانا بھی ان کا حق ہے پر عالمی قانون کہ مطابق یہ شفاف الیکشن کہ نتیجوں پے ہوگا کہ عوام نے کن حلقوں کو ووٹ دیا ہے جب کوئی ملک اقوام متحدہ کامیبر ملک ہو تو ہاں کی سیاسی طاقتوں کو الیکشن کے ذریعے ہی حکومت بنانا ہوگی اور اس میں عام عوام کی رائے بھی شامل ہو اگر عوام کسی بھی پارٹی کو ووٹ دیکہ منتخب کرتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس پارٹی کو اپنے ملک میں حکومت بنانے سے نہیں روک سکتی پر اقوام متحدہ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پارٹی زبردستی قبضہ نہیں کرسکتی۔اس وقت اقوام متحدہ میں جتنے بھی ممالک میمبر ہیں وہ پابند ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا خیال کریں گےاور جمہوری طرز عمل پر انتخابات کرا کہ حکومت کریں اگر ایک ملک مسلسل عالمی قانون کی خلاف ورزی کریگا تو اسے بہت سارے معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑیگا جس کے نتیجے میں ملک کے اندر قحط سالی کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ آج کی دنیا ایک نیٹورک کے ذریعے کام کرتی ہے جس میں دنیا کے تمام ممالک شامل ہوتے ہیں اگر کوئی ملک اس دھارے سے نکل جاتا ہے تو اسے سنگین نتائج دیکھنا ہونگے دنیا کے اس نئے نیٹورک میں جہاں اقوام متحدہ جیسے ادارے موجود ہوں وہاں کوئی بھی اپنا نظام دنیا کے دوسرے ملکوں کے اوپر مسلط نہیں کر سکتا۔ دنیا کی ہر قوم کو اپنی تنظیم ، اپنا مذہب ، اپنے سیاسی نظریات، اپنے سماجی نظریات کی پرامن طریقے سے تبلیغ کرنے کا پورا حق ہے پر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے خیالات دوسروں پے مسلط کیے جائیں۔آج کی عالمی طاقتوں کے سامنے اصل مسئلا اور اصل جنگ بھی یہی ہے کہ کیسے دنیا کو انتہاپسندی سے نجات دلائی جائے اور عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے اور انسانی حقوق کو یقینی بنایا جائے۔ماضی قریب میں دنیا نے ایسے خوفناک واقعات برادشت کیے ہیں جن میں یہی پیغام تھا کہ ایک گروہ پوری دنیا کو فتح کرنا چاہتا ہے اور اس کی فتح کا راستہ تشدد اور جبر سے ہوتے ہوئے گذرے گا ان واقعات نے دنیا بھر کے لوگوں کو تشویش اور خوف میں مبتلا کیا ہے دنیا میں رہنے والے کرڑوں لوگوں کو یہی لگتا ہے کہ افغانستان میں موجود طاقت پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے اور عالمی میڈیا کے سامنے ایسے بیانات اور ایسا طرز عمل سامنے آیا ہے جس سے یہ لگتا ہے افغانستان میں ایسی سوچ پائی جاتی ہے جو کہ تشدد اور جبر پے مشتمل ہے۔ اس وقت افغانستان اب مکمل طالبان کے کنٹرول میں آچکا ہے دنیا بھر میں اس پے بات ہورہی ہے کالم لکھے جارہے ہیں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز میں بھی یہی بحث جاری ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ افغانستان یقینن بڑی مشکل دور سے گذر رہا ہے وہاں کی سماجی زندگی، معشیت ، سب کچھ رک سا گیا ہے افغان لوگوں میں خوف کی لہر ہے وہاں کے لوگوں میں بیچینی کی صورتحال ہے کہ آگے ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے لاکھوں افغانی ملک چھوڑ کر باہر جانے کے لئے راستہ ڈھونڈ رہے ہیں کہا ی جارہا ہے کہ تمام افغان قوم طالبان کے حق میں نہیں جس کی وجہ سے وہ افغانستان چھوڑ رہے ہیں اور جو وہاں لوگ موجود ہیں ۔دوسری طرف دنیا کی نظریں اس حکومت پے ہے جو طالبان بنانے جارہے ہیں اگر امن کو دوبارہ سے لایا گایا اور طالبان دنیا کو یہ یقین دلائیں کہ مستقبل میں وہ دنیا کے لئے خطرہ نہیں ہیں تو عین ممکن ہے کہ دنیا کے چند ممالکانہیں تسلیم کریں پر یہ تب ممکن ہوگا جب افغانستان میں امن قائم ہوگا اور انسانی حقوق جس میں تعلیم، صحت، خواتین کے حقوق ، شہریوں کو شخصی آزادی دینا وغیرہ شامل ہیں اگر ان سب پے عمل کیا گیا تو عالمی طاقتیں انہیں تسلیم کرنے کے لئے سوچ سکتی ہیں پر اگر افغانستان میں یہ سب کچھ نہیں ہو پاتا اور 20 سال پہلے جیسے واقعات ہوتے ہیں اور شہریوں سے تشدد کیا جاتا ہے یا افغانستان میں خانہ جنگی شرع ہوجاتی ہے توعالمی طاقتیں پھر سے افغانستان میں مداخلت کرسکتی ہیں اور اس دفعہ افغانستا ن کے اندر وہ لوگ بھی عالمی طاقتوں کے ساتھ کھڑے ہونگے جو پہلے ان کی مخالفت کرتے تھے کیونکہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر شخص کے پاس سمارٹ موبائل فون ہے اور ہر ہونے والا واقعہ رکارڈ ہوسکتاہے اور پوری دنیا اسے دیکھ سکتی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیںانسان کی سماجی تاریخ میں کبھی ایسا دور نہیں آیا جہاں بڑی بڑی طاقتیں انسانی حقوق کے لئے اقدامات کریں ۔ پچھلے کئی دہائیوں سے دنیا کے بڑے بڑے ممالک اسی انسانی حقوق کے قانون کے تحت جنگ اور تشدد سے تنگ آئے انسانوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتے آرہے ہیں ۔ یہی صورتحال افغانستان کے حوالے سے بھی سامنے آئی کہ ہزاروں افغان لوگوں کو آمریکہ نے محٖفوظ ٹکھانوں تک پہچاکیا ہے اور بہت سارے لوگوں کو آمریکہ لے جاکہ انہیں تحفظ فراہم کیا گیا اور دنیا کی بڑی طاقتیں افغانستان کے پڑوسی ممالک کو اپیل کر رہی ہیں کہ وہ بے گھر ہوئے افغان لوگوں کی مدد کریں اور انہیں تحفظ دیں اور یہ سب عالمی قانون کے تحت کیا جارہا ہے کیونکہ آج کی دنیا میں سب سے پہلے انسانی حقوق اور انسانی زندگی کے تحفظ کو دیکھا جاتا ہے۔ طالبان کی حکومت کا مستقبل بھی ان کے فیصلوں پے منحصر ہے اگر وہ انسانی حقوق کا خیال کرتے ہیں اور دنیا کو امن کی یقین دہانی کرواتے ہیں تو دنیا ان کو تسلیم کرنے کے بارے میں سوچے گی پر اگر حالات اسی طرح بدتر رہے تو عالمی ادارے زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہیں گے اور اس بات کا بھی عین امکان ہے کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے خود افغان شہری بھی روڈوں پے آجائیں اور خانہ جنگی شروع ہوجائے ۔ اب یہ بات طالبان بھی سمجھ چکے ہیں کہ اگر انہیں افغانستان میں مکمل اختیار چاہئے تو اس کے لئے افغانستان میں انسانوں کے بنیادی حقوق کا خیال کرنا ہوگا جو کہ دوسری طرف سے ایسے بیانات تو آرہے ہیں پر اس کے لئےبہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے عمل کی ضرورت ہے جسے افغان لوگوں کا ڈر اور خوف ختم ہو

 
Shaharyar Rehman
About the Author: Shaharyar Rehman Read More Articles by Shaharyar Rehman: 8 Articles with 5683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.