|
|
چھ سال میں تنکا تنکا جوڑ کر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی
بی) نے جو آشیانہ بنایا تھا، اب اچانک کسی ریت کے محل کی مانند منہدم ہوتا
نظر آ رہا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام تر امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں جو
پاکستان کرکٹ شائقین اس لبالب بھرے ہوم سیزن سے جوڑے بیٹھے تھے۔
جمعے کی سہہ پہر سے اب تک کی طوفان خیزی میں سارا کیا دھرا کسی سیلابی ریلے
کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کا دورہ اس سفر کا اہم ترین سنگِ
میل ہوتا اگر بخوبی انجام پا جاتا، مگر یہ ہو نہ پایا۔
اور پھر کیویز کی پیروی کرتے ہوئے اب انگلش کرکٹ بورڈ نے بھی آئندہ ماہ کے
دورے سے انکار کر چھوڑا ہے اور پی سی بی کی ساری جدوجہد ایک ہچکولے کے ساتھ
واپس اُسی کھائی میں جا گری ہے جو 2009 میں سری لنکن ٹیم پہ حملے کے بعد اس
کا مقدر بنی تھی۔
پی سی بی کا دکھ سوا ہے کہ 2009 کے برعکس اس بار تو کچھ ایسا ہوا بھی نہیں
جو ایسی بے مہری کا حق دار ٹھہرتا۔ پاکستان بہت تسلسل کے ساتھ انٹرنیشنل
کرکٹ کی میزبانی کرتا چلا آ رہا تھا اور سال کے اوائل میں جنوبی افریقہ
جیسی ہائی پروفائل ٹیم کا دورہ اس قطعیت کا اظہار تھا کہ اب دن پھر چکے ہیں۔
لیکن اب یہ سارا سفر ایک بار پھر سے شروع کرنا ہو گا اور اب کی بار اس کی
قیادت کوئی معاملہ فہم منتظم نہیں کر رہا بلکہ زمامِ کار ایک جارح مزاج
سابق کرکٹر کے ہاتھ میں ہے اور خوش گفتاری اور نرم ڈپلومیسی سے طے ہونے
والے معاملات کا مستقبل ڈانواں ڈول نظر آ رہا ہے۔
کیویز کا عین آخری لمحے انکار بلاشبہ سبھی کرکٹ شائقین بالخصوص پاکستان کے
لیے ایک دل شکستہ لمحہ تھا اور جذبات کا عود کر آنا بالکل معمول کی بات ہے
مگر ایک عام شائق کے تاثرات اور ایک کرکٹ بورڈ چئیرمین کے الفاظ و انداز
میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔
رمیز راجہ نے اس سقوط کے فوری بعد ٹوئٹر پہ یہ کہا کہ اب نیوزی لینڈ ہمیں
آئی سی سی میں سنے گا۔ ان کا یہ بیان اپنے ہم وطنوں کی داد اور واہ واہ تو
سمیٹ سکتا ہے مگر ایسے بیانیے کا کسی بین الاقوامی فورم پہ کامیاب ہونا
خاصا مخدوش ہے۔
بطور سابق کرکٹر اور جہاندیدہ مبصر رمیز راجہ یہ تو یقیناً جانتے ہی ہوں گے
کہ آئی سی سی کی 'دھمکی' یہاں قطعی بے جواز ہے کیونکہ جب بات سیاسی معاملات
اور کرکٹنگ اقوام کے دو طرفہ تعلقات کی آتی ہے تو آئی سی سی اتنا ہی
بااختیار رہ جاتا ہے جتنا کشمیر کے مسئلے پہ اقوامِ متحدہ۔
دو طرفہ تعلقات کے معاملے میں آئی سی سی کی قدر کا اندازہ یہاں سے کیجیے کہ
جب ٹیسٹ چیمپئین شپ کا ماڈل طے ہونے جا رہا تھا تو پہلے پہل تجویز تھی کہ
سبھی ممالک کم از کم ایک دو طرفہ سیریز ضرور کھیلا کریں گے۔ گویا انڈیا
پاکستان کے خلاف نہ کھیلنے کی صورت میں پوائنٹس گنوا بیٹھتا۔
پاکستانی شائقین اس ماڈل کے بارے خاصے پرجوش تھے مگر صرف اسی ایک نکتے پہ
بات اٹک گئی اور پورا چیمپئن شپ ماڈل ہی کھٹائی میں پڑ گیا تا آنکہ آئی سی
سی کو سارا ماڈل پھر سے بنانا پڑا اور اس میں یہ شرط ختم کرنا پڑی کہ ہر
ملک کو چیمئین شپ سائیکل میں ہر دوسرے کے خلاف کم از کم ایک سیریز کھیلنا
لازم ہے۔
سو رمیز راجہ کا یہ کہنا کہ نیوزی لینڈ کس دنیا میں جی رہا ہے، کچھ عجیب سا
لگتا ہے کیونکہ زمینی حقائق کے تحت پاکستان کو یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ کس
دنیا میں جی رہا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پی سی بی نے اس جلاوطنی کے اثرات میں 20 کروڑ ڈالرز
سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور اگر یہ معاملہ پھر صفر سے شروع کرنے پہ آ گیا
تو انہی اعدادوشمار میں اضافہ بھی ہو گا۔
لیکن پاکستان کو حقیقت کی دنیا میں واپس آنا ہو گا۔ مستحکم دو طرفہ تعلقات
ہمیشہ برابری کی سطح پر ہی استوار کیے جا سکتے ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ
نے اس برابری کا مطالبہ غلط وقت پہ کیا ہے۔
پاکستان کو یہ مطالبہ تب کرنا چاہیے تھا جب کووڈ کے ہنگام انگلش کرکٹ بورڈ
دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور پاکستان سے تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کی
درخواست کر رہا تھا۔
تب پی سی بی نے صرف دو ٹی ٹوئنٹی میچز کے لالچ میں پورے ایک مہینے کا
قرنطینہ بھی گزارنے پہ کیوں رضامند ہوا؟
کیا اس ڈیل میں کسی بھی زاویے سے برابری کا عنصر شامل تھا؟ درحقیقت پی سی
بی پچھلے پانچ سال سے ہر سال انگلینڈ کا دورہ کرتا آ رہا ہے جس کے جواب میں
پاکستان کو ایک بھی ہوم سیریز نہیں ملی۔ یہ کیسا برابری کا رشتہ ہوا بھئی؟
اس سال کے آغاز میں دورہ نیوزی لینڈ میں جب پاکستانی کھلاڑیوں کو نہ چارٹرڈ
فلائٹ ملی نہ ہی الگ ہوٹل، اور بات جب کرونا پروٹوکولز کی ہوئی تو کیوی
وزیرِ صحت نے پاکستانی ٹیم کو واپس بھیجنے کی دھمکی داغ دی جو سفارتی آداب
کے بھی خلاف تھی۔
اگر پی سی بی برابری چاہتا تھا تو احتجاجاً ٹیم واپس کیوں نہ بلوا لی گئی؟
اسی منسوخ شدہ دورۂ نیوزی لینڈ کی مثال لے لیجیے کہ صرف ان کے آنے کی خوشی
میں ہی پی سی بی نے کیویز کو قرنطینہ سے استثنیٰ دے دیا۔ پچھلے دو سال میں
پاکستان پہ تو کسی بھی میزبان ملک نے ایسی کرم نوازی نہیں کی کہ اسے
قرنطینہ سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہو۔
ٹیم اور شائقین سے رمیز راجہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم نمبر ون ہو جائیں تو
ہر ٹیم ہم سے کھیلنا چاہے گی۔ گو سننے میں بہت بھلا لگتا ہے مگر سوال تو یہ
ہے کہ جب پانچ سال پہلے پاکستان ٹیسٹ نمبر ون ٹیم بنا تھا، تب بھی اسے
دوبئی اور شارجہ میں ہی کیوں کھیلنا پڑ رہا تھا؟
ثانیاً یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کرکٹ ہی کیا، کسی بھی شعبے میں
دوطرفہ تعلقات کی برابری کوئی مروت، لحاظ اور وضع داری جیسے اخلاقی اصولوں
کی بنیاد پہ نہیں پنپتی بلکہ اس بنیاد پہ کہ کس کا 'کھیسہ' کتنا بھاری ہے۔
انڈیا اس کی سب سے اچھی مثال ہے۔ ٹاپ کرکٹ بورڈز کی یہ جرات نہیں ہوتی کہ
آئی پی ایل کے دوران میں کسی بھی قسم کی دوطرفہ کرکٹ کروا پائیں۔
رواں سال جب جنوبی افریقہ نے آسٹریلوی دورے کی منسوخی کے بعد پاکستان کو
ایک ہنگامی سیریز کے لیے مدعو کیا تو دورے کے عین بیچ ڈیوڈ ملر اور کگیسو
ربادا جیسے آئی پی ایل سٹارز قومی کرکٹ چھوڑ کر آئی پی ایل کھیلنے چلے گئے
تھے۔
سو، ایسے حالات میں برابری کی بات خاصی مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ لیکن اب سوال
یہ ہے کہ پاکستان اس صورتِ حال سے نکل کیسے سکتا ہے؟
کرکٹنگ پیرائے میں تو اس کا کوئی تشفی بخش جواب موجود نہیں ہے۔ کیونکہ یہ
معاملہ سیاسی ہے اور اسے صرف سیاسی طریقے یعنی نرم گوئی اور ڈپلومیسی سے
سلجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ کرکٹ کی دنیا میں اس وقت حکومت اس انڈین بورڈ کی ہے جو
پاکستان کا روایتی حریف ہے۔
پاکستانی شائقین کے ایک بڑے طبقے کا یہ موقف بھی خاصا دلچسپ ہے کہ پاکستان
کیویز کے ساتھ دوطرفہ کرکٹ کا بائیکاٹ کر دے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب پہلے ہی پی سی بی اپنی زیادہ تر کرکٹ سری لنکا، ویسٹ
انڈیز اور زمبابوے جیسی ٹیموں کے خلاف کھیل رہا ہے تو ایسے میں انڈیا کے
بعد ایک اور ٹاپ کوالٹی سائیڈ کے خلاف کرکٹ سے محروم ہونا پی سی بی کے لیے
کون سی سودمندی لائے گا؟
ایسے میں صرف دو ہی حل بچتے ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان آئی سی سی میں اپنے
جیسے کمزوروں کی آواز اٹھانے کے لیے کوئی الگ بلاک بنائے جہاں انڈیا کے ستم
رسیدہ دیگر بورڈز کو ساتھ ملایا جائے اور مذاکرات کی میز پہ اپنی قوت ظاہر
کی جائے۔
آئی سی سی کو قانون سازی پہ مجبور کیا جائے کہ اگر کوئی ٹیم کسی بھی وجہ سے
دورے کے بیچ کرکٹ کھیلنے سے انکاری ہوتی ہے تو ون ڈے سپر لیگ کے پوائنٹس کی
صورت میں اسے سزا دی جائے۔
اگر تاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو ایسا کوئی بلاک بننا حقیقت نظر نہیں
آتا۔ بگ تھری کے قصے کو ہی یاد کر لیجئے تو وہاں پاکستان کے پاس نادر موقع
تھا کہ بھلے شکست خوردگان کا سہی، مگر ایک الگ بلاک بنا سکتا تھا۔ لیکن
وہاں انڈیا نے آٹھ دوطرفہ سیریز کا ایسا لالی پاپ تھمایا کہ نجم سیٹھی جھٹ
ووٹ ڈال آئے۔
دوسرا اور حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ کرکٹ کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر کے ساتھ
تعلقات کو بہتر کیا جائے اور مثبت کرکٹ ڈپلومیسی کا آغاز کیا جائے۔ بارہا
پہلے بھی ایسا ہو چکا کہ جب پاک انڈیا تعلقات کو نرم کرنا ہو تو معاملہ
کرکٹ سیریز سے ہی شروع ہوتا ہے۔
اب کی بار خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں کرکٹ بورڈز کے
سربراہان ماضی کے ہمعصر کرکٹرز ہیں۔
گنگولی اور رمیز راجہ کی موجودگی کے علاوہ روشن بات یہ بھی ہے کہ پاکستان
کی سربراہی ایک ایسے سابق کرکٹر کے ہاتھ میں ہے جو بارڈر کے اس پار بھی ایک
غیر متنازعہ کرکٹ ہیرو ہیں۔
اگر پاک انڈیا کرکٹ تعلقات کوئی نیا موڑ لے سکیں تو دنیائے کرکٹ کی کنفیوژن
بھی کم ہو سکتی ہے اور پاکستان کی ہوم کرکٹ بھی درست سمت میں چل سکتی ہے۔
لیکن اگر پی سی بی جارحیت کی مدد سے اس مسئلے کا کوئی حل نکالنے کا ارادہ
رکھتا ہے تو کرکٹ کے میدان میں یہ تنہائی جلد اس کا پیچھا چھوڑنے والی
نہیں۔
|
|
Partner Content: BBC Urdu |