اورکزئی ' ٹورازم اور چرتہ زائی

. یہ راستہ بہترین تھا لیکن راستے میں پوچھے جانیوالے سوالات نے بہت تنگ کیا..چرتہ زائی ' چالہ زائی ' دا کوم زائے ئی ' سہ ھم کول ' زان سرہ سہ اوڑئی خو نہ ...جیسے سوالات کے جوابات اتنی مرتبہ دئیے کہ راقم نے گھر آکر خود ہی خودکار طریقے سے گھر والوں کو بتایا کہ کہاں گیا تھا ' کس کیساتھ گیا ' میرا تعلق کہاں سے اور کس لئے گئے تھے اور کچھ بھی نہیں لیکر جارہ
صوبائی حکومت نے سیاحت کے فروغ کیلئے ضم اضلاع میں مختلف منصوبے شروع کردئیے ہیں تاکہ لوگوں میں اس حوالے سے شعور بھی بیدار ہو اور پرائیویٹ ادارے بھی ان علاقوں میں سرمایہ کاری کرے جس سے نہ صرف یہاں پر روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے بلکہ سیاحت بھی بڑھے گی اور قومی اور بین الاقوامی سیاح بھی ان علاقوں کا رخ کرینگے. محکمہ کھیل و سیاحت نے اس سلسلے میں اورکزئی کے علاقے میں سائیکل ریس کا اہتمام کیا .

سائیکل ریس کی کوریج کیلئے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ نے پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو لے جانے کیلئے گاڑی کا اہتمام کیا تھا صبح ساڑھے سات بجے کا وقت صحافیوں کو دیا گیا تھا . تاکہ بروقت اورکزئی ضلع پہنچ سکے. مزے کی بات یہ تھی کہ صبح ساڑھے سات بجے صرف چند مخصوص صحافی ہی پہنچ سکے تھے تاہم آٹھ بجے صحافی پہنچ گئے اور پھر پشاور سے اورکزئی کا سفر شروع ہوا . درہ آدم خیل سے ہوتے ہوئے کوہاٹ ٹنل تک جاتے ہوئے صحافی ان علاقوں میں سال 2008 سے 2014 تک ہونیوالی دہشت گردی کے واقعات اور کوریج کے دوران پیش آنیوالے تجربات ایک دوسرے کیساتھ شیئر کرتے رہے. یہ بھی انسان کی عجیب سی فطرت ہے کہ ہزار ہا خطرات کا سامنا کرنے اور تجربہ ہونے کے باوجود بھی وہ خطروں کا سامنا کرتا ہے بعض اوقات مجبوریاں اور بعض اوقات ایڈونچرازم ہوتا ہے لیکن صحافت میں ایڈونچرازم تو اب کم ہی رہ گیا ہے اب تو مجبوریاں ہی مجبوریاں ہیں.خیر بڈھ بیر ' درہ آدم خیل اور کوہاٹ سے ہوتے ہوئے ساتھیوں نے دہشت گردی کے کوریج کے دوران پیش آنیوالے اپنے تجربات شیئر کئے .

راقم سمیت زیادہ تر صحافی پہلی مرتبہ اورکزئی جارہے تھے جب کوہاٹ کی طرف مخصوص علاقے کی طرف روانہ ہوگئے تو دو جگہوں پر راستہ غلط کرگئے ' یہ تو شکر ہے کہ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے دوستوں نے راستے تبدیل کئے ورنہ پھر مشکل پڑتی.کوہاٹ کی طرف سے اورکزئی میں جاتے ہوئے جنگلی حیات مختلف جگہوں پر دیکھنے کو ملے. وفاقی وزیر شہریار کے علاقے سے گزرے تو ماشاء اللہ اس کی سڑک کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کیا ہی تبدیلی ہے. اگر کسی مریض کو پتھری کی شکایت ہو تو اسے لازما وفاقی وزیر شہریار کے علاقے کے سڑک سے گزرنا چاہئیے کیونکہ کھڈوں سے گزرتے ہوئے کم از کم پتھری تو لازما نکل جاتی ہے. سب صحافی دوستوں کی یہ سوچ تھی کہ کم از کم اورکزئی کیلئے پشاور سے جاتے ہوئے چھ گھنٹے لازما لگتے ہونگے . راستے میں اورکزئی کی طرف جاتے ہوئے سب سے خوبصورت بات دیکھنے کو ملی کہ سڑکیں ویران ہیں آبادی نہیں لیکن درخت ہیں ' ہریالی ہیں ' یہ الگ بات کہ بعض علاقوں میں پانی بھی نہیں لیکن جنگل بہت ہیں جو دیکھنے کو بہت بھلے لگتے ہیں.
ساڑھے تین گھنٹے کے سفر کے بعد جب باب اورکزئی کی طرف پہنچ گئے تو ایسا لگا کہ کسی اور دنیا میں آگئے ہیں ' کیونکہ سڑک بہترین تھی اس سے قبل کوہاٹ کی طرف سے روڈ انتہائی ابتر حالت میں تھی اور پتہ چلا کہ یہ وفاقی وزیر شہریار خان کا علاقہ ہے. جبکہ اورکزئی کے علاقے میں داخل ہونے کے بعد علاقے کے لوگ اپنے ممبر صوبائی اسمبلی سے بہت خوش تھے کیونکہ ان کے کام ہورہے تھے.

ہمیں وہاں جا کر پتہ چلا کہ انتظار کتنا مشکل ہے کیونکہ بتایا گیا تھا کہ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام سائیکل ریس جلد ہی ہوگی لیکن یہ جلدی دن کو دو بجے تک کھینچ کر لے گئی ' اس دوران سیکورٹی فورسز کے جوانوں کا بہت تعاون حاصل رہا ' ڈپٹی کمشنر اور کرنل کامران کی موجودگی میں سائیکل ریس کا آغاز ہوا.جس کیلئے بلوچستان ' سندھ ' پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے 33 کھلاڑیوں نے حصہ لیا. ساڑھے سترہ کلومیٹر تک راستہ ان سائیکل ریسر نے پورا کرنا تھا تاہم ریس سے قبل براڈکاسٹ ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی اپنے پیکجز کی تیاری میں مصروف نظر آئے.جبکہ بعض سیلفیوں کے شوقین افراد نے اپنی اتنی تصاویر نکال لیں کہ حیرانگی ہوئی کہ اتنے تصاویر کا یہ لوگ کرینگے کیا.

یہ تو شکر ہے کہ ڈیجیٹل کا دور ہے ان غریبوں کو کیا پتہ کہ ایک زمانے میں ریل کا دور ہوتا تھا اور مخصوص ریل کیمرے میں ڈال کر چھتیس تصاویر ہی نکلتی تھی ' کیمرہ بھی ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا ' تصویر نکالتے ہوئے بھی خیال کرتے کہ کہیں خراب نہ ہوں ' اب تو موبائل کا دور ہے ' بس جب موڈ بن جائے تو تو تصویر نکال دو . اور ماشاء اللہ اب تو سیلفی کا دور ہے ہر بندہ اپنی تصویر خود لیتا ہے ' کچھ عرصہ قبل تو تصویر نکالنے کیلئے لوگوں کی منتیں کرنی پڑتی تھیں.

لوئر اور اپر اورکزئی کا علاقہ کم و بیش پانچ لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے اور یہ پرامن علاقہ ہے ' سال 2017 کے سروے کے مطابق اس وقت ڈھائی لاکھ کے قریب افراد یہاں پر رہائش پذیر تھے تاہم اس وقت آدھے سے زائد لوگ آئی ڈی پیز تھے لیکن اب صورتحال بہتر ہونے کے بعد یہاں پر لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے. مقامی صحافی بھی اپنے علاقے کی کوریج کے حوالے سے حسا س ہیں. ایک رپورٹ اگر حکومتی کارکردگی پر تنقید کے حوالے سے دیتے ہیں تو دوسری رپورٹ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے جاری کرتے ہیں-

ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے اس علاقے میں سیاحت کے فروغ کیلئے شروع کئے جانیوالے منصوبوں سے صحافیوں آگاہ کیااور امید ظاہر ی کہ کمیونیکیشن کے نظا م میں بہتری آنے کے بعد اس علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا کیونکہ ہوٹل ریسٹورنٹ سمیت پوڈز بھی بنائے جائینگے .دو بجے شروع ہونیوالی ریس کو دیکھنے والے مقامی افراد کی بڑی تعداد اپنے گھروں کے باہر سڑک کنارے بیٹھ کر سائیکل ریس سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دئیے.

سائیکلنگ ریسنگ زیڑہ سے خواہ درہ تک ساڑھے سترہ کلو میٹر ریس مقابلہ کیا گیا جس میں سائیکل ریسنگ میں خیبر پختونخواہ کے محمد یوسف نے پہلی صدیق اللہ نے دوسری عمران نے تیسری بلوچستان کے محب اللہ نے چوتھی ساجد علی نے پانچویں اور عبداللہ نے چھٹی پوزیشن حاصل کی۔ سائیکلنگ ریسنگ کے بعد زیڑہ پارک میں اختتامی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں اورکزئی سکائوٹس کے کمانڈنٹ رائو کاشف امین نے بھی شرکت کی ' ڈپٹی کمشنر اورکزئی محمد خالد بھی اس موقع پر موجود تھے. تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ اس طرح ایونٹ مقابلوں کو منعقد کرانے کا مقصد قبائلی اضلاع اور ضلع اورکزئی کے سیاحت اور کھیلوں کو فروغ دینا ہے اورکزئی میں امن و امان کا قیام بہت سے قربانیوں کے بعد ممکن ہوا قبائلی اضلاع میں ٹووارزم کے پوٹینشن اور بہت سے مواقع موجود ہیں انشاللہ ہم اس کو مزید اجاگر کریں گے اس طرح پروگرامات سے علاقے کی خوبصورتی کا پوری دنیا کو میسج ملے گا اگلے سال اس طرح اور بھی ایونٹ کریں گے جس میں لوکل سطح پر نوجوانوں کو بھی موقع دیا جائیگا۔تقریب میں مہمانانِ خصوصی ڈی سی محمد خالد، کمانڈنٹ کر نل رائے کاشف آمین اور ڈائریکٹر ٹووارزم اشتیاق احمد نے بہترین مقابلہ کرنے پر سائیکلنگ ریسرز کو نقد انعامات ٹرافیاں اور شیلڈز سے نوازا۔
تقریب جس جگہ پارک میں منعقد کی گئی تھی اس کی لوکیشن بہت ہی پیاری تھی ' سڑک کنارے واقع پارک میں جنگل تھا جس کے ہر درخت پر اللہ تعالی اور محمد مصطفی خاتم النبین کے خوبصورت نام لگائے گئے تھے جس سے گزر کر صاف پانی کے ایک نالے سے گزرنا پڑتا. اور پھر کھلا پارک تھا جس میں آکر بیشتر صحافیوں نے اپنے پیکجز کی پی ٹی سی کئے ' تصاویر لیں بعد ازاں اختتامی سفر ایک نئے راستے سے آئے جسے حال ہی میں سیکورٹی فورسز نے باڑہ سے درہ آدم خیل اور اورکزئی تک بنایا تھا جس پر مسافر کم و بیش ڈھائی گھنٹے میں اورکزئی پہنچ سکتے ہیں . یہ راستہ بہترین تھا لیکن راستے میں پوچھے جانیوالے سوالات نے بہت تنگ کیا..چرتہ زائی ' چالہ زائی ' دا کوم زائے ئی ' سہ ھم کول ' زان سرہ سہ اوڑئی خو نہ ...جیسے سوالات کے جوابات اتنی مرتبہ دئیے کہ راقم نے گھر آکر خود ہی خودکار طریقے سے گھر والوں کو بتایا کہ کہاں گیا تھا ' کس کیساتھ گیا ' میرا تعلق کہاں سے اور کس لئے گئے تھے اور کچھ بھی نہیں لیکر جارہے ' اور بیگم ہمیں یوں دیکھ رہی تھی جیسے ہمارے سر پر سینگ ہوں . خیر باڑہ سے اورکزئی جانیوالی سڑک بہترین ہے لیکن. یہ سوال و جواب کا سلسلہ اگر ختم ہوجائے تو بہترین ہے.. جس سے نہ صرف شہریوں میں خوف پیدا نہیں ہوگا بلکہ اورکزئی کی طرف سیاحت کو بھی فروغ ملے گا .


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420469 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More