کھیلوں سے وابستہ افراد کے ڈریس کوڈ اور لنڈے کے نیکرز

کیا کھیلوں سے وابستہ افراد بشمول کھلاڑی ‘ کوچز اور صحافیوں پر ڈریس کوڈ لاگو ہوتا ہے ‘ کیا یہ اس پختون اور اسلامی معاشرے کا حصہ ہے یا نہیں یہ وہ سوال ہیں جو اس شعبے سے وابستہ افراد کو خود سے کرنے کی ضرورت ہے.ماہرین کہتے ہیں کہ دس کے ہندسے کی بڑی اہمیت ہے ‘ دس کلومیٹر کے سفر کے بعد موسم ‘ زبان اور کلچر تبدیل ہوتا ہے اسی طرح دس سال بعد مختلف چیزوں پر تبدیلی آتی ہے جن میں رسم و رواج ‘ ثقافت سے لیکر لوگوں کے مختلف اموال و عادات تک شامل ہیں جس میں دس سال میں تبدیلی آجاتی ہیں. یہ تبدیلی اس وقت پاکستان کا بھی حصہ ہے اس تبدیلی نے پاکستانیوں کو کہاں تک پہنچا دیا ہے یہ الگ سوال ہے لیکن چونکہ آغاز کھیلوں کے شعبے سے کیا ہے اس لئے کھیلوں کے شعبے تک ہی محدود رہتے ہیں.

سکول کے زمانے میں راقم ہاکی اور فٹ بال کا کھلاڑی رہا اس زمانے میں کھلاڑیوں میں کٹس ملنے کی صورت میں زیر جامہ پہننا لازمی تھا ‘ چونکہ ان دنوں کٹس بہت بڑی چیز تھی اور بہت کم خوش قسمت طلباء ہی ہوتے تھے جنہیں سکول سے کھیلنے کیلئے کٹس اور شوز مل جاتے تھے جن کا ہم بہت زیادہ خیال رکھتے تھے -یہ الگ بات کہ ٹورنامنٹ ختم ہونے کے بعد سکول میں تعینات پی ٹی آئی استاد ہمیں دئیے جانیوالے سپورٹس کے کٹس ہم سے گھر مں دھلوا لیتے اور ہم سکول میں واپس ہی جمع کراتے لیکن جب بھی کسی گیم میں حصہ لیتے تو یہ ہدایت ملتی تھی کہ زیر جامہ پہن کر آنا ہے ‘ اور اگر کہیں کسی کو زیر جامہ نہیں ملتا تو وہ ٹی شرٹ کیساتھ شلوار میں گیم کھیلتا .اس وقت زیر جامہ ‘ انڈر وئیر کے بغیر کھیلنا شرم کی بات بھی ہوتی اور اگر نہ پہنتے تو کھیلنے کیلئے موقع بھی نہیں دیا جاتا اس لئے ان چیزوں کا ہم لوگ بہت خیال رکھتے تھے.

شائد اس وقت پینڈو تھے یا پھر تین دہائیاں گزرنے کے بعد ہم بہت زیادہ ماڈرن ‘ سوشل اور لبرل ہوگئے ہیں کہ اب تو کھلاڑی تو دور کی بات ہے کھیلوں کے میدان میں کوچز بھی کھیلوں کے کٹس کے نیچے زیر جامہ ‘ انڈر وئیر تک نہیں پہنتے .کھیلوں میں زیر جامہ نہ پہننے کی کے نقصانات کے بارے میں ہم سے زیادہ گوگل ہی بہتر بتا سکتاہے کیونکہ آج کل کی نسل تو کسی سے معلومات لینے کو غلط سمجھتی ہے اس لئے گوگل سے مدد لی جاتی ہے اور کھیلوں کے میدان میں آنیوالے تمام کھلاڑیوں بشمول مرد و خواتین کو اسی پختون ‘ پاکستان اور اسلامی معاشرے کی روایات ‘ قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے کھیل کیساتھ ساتھ اپنی حیاء کا بھی خیال رکھنا چاہئیے کیونکہ حیاء ایمان کا جز ہے اور یہ ایک حدیث ہے ‘ اس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ حیاء صرف عورت کیلئے ہے حیاء مردوں کیلئے بھی ہے اور کھیلوں سے وابستہ افراد کو اس کا خیال رکھنا چاہیے.

اتنی لمبی تمہیدکھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں اور خصوصا کوچز جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں کی اصلاح کیلئے ہے کھیل کے دوران ٹراؤزر کے پھٹ جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اس لئے کھلاڑیو ں کیساتھ ساتھ سب سے زیادہ ذمہ داری کوچز پر بھی عائد ہوتی ہیں جو کھلاڑیوں کیلئے والدین کی مانند ہوتے ہیں انہی کوچز کو دیکھ کر کھلاڑی بہت کچھ سیکھتے ہیں لیکن یہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی بدقسمتی کہیے کہ ایسے معاملات میں انتظامیہ بھی نہیں پڑتی کہ کوچز کیلئے پراپر ڈریس کوڈ کیا ہے اور کیا ہمارے کوچز ان ڈریس کوڈز کی پابندی بھی کررہے ہیں یا نہیں ‘ اگر نہیں کررہے تو پھر وجوہات کیا ہے ‘ اس بار ے میں توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے. جو یقینا بہت ساری معاملات کو سامنے لاسکتی ہیں.

ہمارے ہاں کھیلوں کے میدان میں صرف ہاکی اور فٹ بال کھیلنے والے کھلاڑی نیکرز پہن کر آتے ہیں ایک زمانے میں والدین بچوں کو نیکر پہنایا کرتے تھے اور والدین " جلدی پوٹی اور پیشاب کرنے والے" سست ترین بچوں کو نیکرز پہنایا جاتا تھا لیکن عجیب وقت آگیا ہے کہ اب یہی نیکرہر کوئی پہن رہا ہے کیا کوچ ‘ کیا کھلاڑی اور کیا صحافی ‘ بلکہ بعض لوگوں نے تو حد کردی ہیں کہ عام روزمرہ زندگی میں بھی نیکرز کا استعمال زیادہ کردیا ہے اور ان لوگوں کی وجہ سے اب والدین کو لنڈے میں نیکرز بڑے سائز کے نہیں مل رہے لیکن پاکستان اور پختون معاشرے میں نیکرز کا بڑھتا ہوا استعمال اور خصوصا کھیلوں کے شعبے میں آنیوالے وقت کیسے دیکھے گا یہ تو آنیوالا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن بحیثیت کھلاڑی جس کے معاشرے میں مختلف روپ بشمول بھائی ‘ والد ‘ باپ ‘ بیٹا ‘ بھانجا شامل ہیں اور اسی طرح مختلف حیثیتوں بشمول کھلاڑی ‘ کوچ اور صحافی ہم اپنے آنیوالے نسلوں کو کیا دے رہے ہیں یہ سوچنے کی بات ہے . جس پر سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے خصوصا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو ‘ کہ وہ ڈریس کوڈ کے بارے میں باقاعدہ اعلامیہ جاری کرے کہ جس طرح ٹارٹن ٹریک پر بغیر مخصوص کٹس ‘ شوز کے چلنا منع ہے اسی طرح سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں "لنڈے کے نیکرز " پہن کر آنا بھی منع ہے خواہ وہ کوئی بھی پہن کر آئے .اس لئے سب کو کھیلوں کے میدان میں فارمل ڈریس کوڈ کیساتھ آنا چاہئیے ..

 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497997 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More