سب کی آمد نی ایک جیسی نہیں ہو تی
ہر کوئی امیر نہیں ہو تا
بڑی بڑی گاڑیوں کا مالک نہیں ہو تا
جگہ جگہ دھکے کھانے پڑتے ہیں
لمبی لمبی قطاروں میں لگانا پڑتا ہے
گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے
ذلت ،رسوائی،طر ح طرح کی باتیں سنی پڑ تی ہیں
زندگی کاغذوں میں الجھا دی گئی ہے
غریب کو جیتے جی مار دیا گیا ہے
روز بروز کی بڑتی قیمتوں نے چہروں پر پریشانی تاری کر دی ہے
حکمران آج بھی بے فکری کی زندگی جی رہے ہیں
غریب کی بات کر کہ عیش کی زند گی گزار رہے ہیں
اُن کے لیے سستہ مہنگا کیا ؟
مہنگائی کی چکی میں تو غریب ہی پستہ ہے
گھر کا چولہا تو اُس کا ہی بجھتا ہے
حکمرانوں کو اس سے کیا
غریب کے لیے لڑنے والا غریب کے لیے آواز اٹھانے والا
غریب کا حق واپس دلانے والا خودتودن بہ دن امیر سے امیر تر ہو تا گیا
اور غریب غریب تر ہوتا گیا جو غریب کے لیے نعرے لگاتے ہیں
ان کے لیے تقاریرکرتے ہیں اور پھر اپنی لینڈ کوروزر میں بیٹھ کر چلے
جاتے ہیں اپنا علاج بیرون ملک سے کرواتے ہیں اُن کے محل
ملک سے باہر ہوتے ہیں
غریب مرتا ہے تو مرنے دو
ہماری کرسی بس بچی رہے
ہمارا دھندا چلتا رہے
سوچ لو سوچ لو
غریب کا بھی کچھ سوچ لو
کیونکہ آج نہیں تو کل
چراغ سب کے بھجیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|