حنیف محمد
’’لٹل اسٹر‘‘ کے لقب سے معروف، حنیف محمد کا شمار پاکستان کے ان بلے بازوں
میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان کرکٹ کی تاریخ رقم کی۔انہوںنے پاکستان کرکٹ
کی ابتدائی دوراورانتہائی کم عمریمیں ہی کئی لازوال ریکار ڈبنائے
تھے۔اکتوبر 1952میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا، حنیف محمد بھی
اس میں شامل تھے۔مہمان ٹیم نے اپنا افتتاحی تین روزہ میچ امرتسر میں نارتھ
زون کے خلاف کھیلا۔ 17سالہ حنیف محمد نے اس میچ میں حیران کن بیٹنگ کا
مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں اننگز میں سینچریاں بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس
کے دو روز بعد دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میںپاک، بھارت ٹیموں کے
درمیان پہلا ٹیسٹ میچ منعقد ہوا۔ حنیف محمد اس دور میں اسکول کے طالب علم
تھے جب کہ ان کے مقابلے میں لالہ امرناتھ اور وینومنکڈ جیسے دنیا کے نام ور
بالر تھے۔ لیکن انہوں نے جس طرح ان کی گیندوں کو کھیلا، اس پر کرکٹ کے
ناقدین محو حیرت رہ گئے۔ انہوں نے ناگ پور میں ممبئی الیون کے خلاف ڈبل
سینچری اسکور کی۔کمنٹری باکس میں بیٹھ کر اس وقت دنیاکے دو مشہور
کمنٹیٹرز،مہاراجہ ہزیانگرم اور ڈاکٹر وجے آنند اس کم سن بیٹسمین کی بیٹنگ
کے جوہر دیکھ رہے، ساڑھے پانچ فٹ قامت کے حنیف محمد گراؤنڈ میں موجود تمام
کھلاڑیوں میں سب سے چھوٹے نظر آرہےتھے ۔ اس موقع پر ان د ونوں کمنٹیٹرز نے
حنیف محمد کو ’’لٹل ماسٹر‘‘ کا خطاب عطا کیا، جو بعد میں ان کے نام کا حصہ
بن گیا۔ اس کے بعد یہ خطاب بھارتی کرکٹرز سنیل گواسکر اور سچن ٹنڈولکر
کوبھی دیا گیا لیکن خود ٹنڈولکرنے ایک موقع پر تسلیم کیا کہ حقیقی لٹل
ماسٹرصرف حنیف محمد ہی ہیں۔1958میں ویسٹ انڈیز کے دورے کے دوران انہوں نے
قومی ٹیم کی جانب سے کھیلتے ہوئے کالی آندھی کے خلاف بارباڈوس میں برج
ٹاؤن ٹیسٹ میں ایک ایسا انوکھا ریکارڈ قائم کیا جو آج تک ناقابل تسخیر
ہے۔۔ انہوں نے اس میچ میںنہ صرف 970منٹ تک کریز پر جمے رہنے کا ریکارڈ قائم
کیا بلکہ ٹرپل سنچری بنانے والے دنیا کے چھٹے بیٹس مین بن گئے جب کہ یہ
پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی پہلی ٹرپل سنچری تھی۔1959میں انہوں نے قائد اعظم
ٹرافی میں کراچی الیون کی جانب سے حصہ لیااور بہاولپور الیون کے خلاف بیٹنگ
کرتےہوئے 499رنز اسکور کیے اور ایک رن کی کمی سے وہ پانچویں سینچری بنانے
سے محروم رہ گئے ۔ اس میچ میں انہوں نے سر ڈان بریڈ مین کا ایک ہی اننگ میں
450رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ بھی توڑا۔حنیف محمد واحد پاکستانی کرکٹر ہیں
جن کا تذکرہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں موجود ہے۔ 1955 میں شائع ہونے
والے پہلے ایڈیشن میں پاکستانی لیجنڈ کرکٹر کانام سست ترین سنچری اسکورکرنے
والے بلےباز کے طور پر کیا گیا ہے۔
ظہیر عباس
’’ایشین بریڈ مین‘‘ کے لقب سے معروف پاکستان کے سابق کرکٹر ظہیر عباس کو ان
کے احباب پیار سے ’’ظہیرا‘‘ کے نام سے بھی پکارتے تھے جب کہ مداحوں نے
انہیں ’’رن بنانے کی مشین‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ 1969میں کرکٹ کیریئر کا آغاز
کرنے والے ظہیر عباس کا شمار نہ صرف ملک بلکہغیر ممالک میں بھی نامور
کھلاڑی کے طور پر ہوتا ہے جنہوں نے اس کھیل میں کئی ریکارڈ قائم کیے۔ وہ
ایشیا کے پہلے اور عالمی کرکٹ کے 20ویں بیٹس مین تھے جنہوں نے’’ سنچریوں کی
سنچری‘‘ اسکور کی۔ ٹیسٹ کریئیر کے دوران سب سے زیادہ 12سنچریاں بنائیں جن
میں سے چار ڈبل سنچریاں بھی شامل ہیں۔ وہ پاکستان کی جانب سے پہلی مرتبہ
ڈبل سنچر یاں اسکور کرنے والے چوتھے بلے باز تھے۔ 1971میں انہوں نے برمنگھم
میں اپنے کیریئر کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں انتہائی شاندار کھیل پیش کرکے ڈبل
سنچری بنائی۔ اس موقع پر برطانوی اخبار ’’ڈیلی ایکسپریس ‘‘ کے اسپورٹس
مبصر، کرافٹر وائٹ نے انہیں ایشین بریڈ مین کا خطاب دیا، جو اتنا مقبول ہوا
کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔وہ دنیا کے پہلے بیٹس مین تھے جنہوں نے ایک
روزہ میچوں میں لگا تار تین سنچریاں اسکور کیں جب کہ آٹھ اننگز میں وہ ناٹ
آتؤٹ واپس آئے۔ظہیر عباس انگلینڈ کی کاؤنٹی گلوسٹر شائر کی جانب سے بھی
کھیلتے رہے ہیں اور انہوں نے لیگ میچوں میں کاؤنٹی کے اگلے پچھلے تمام
ریکارڈ توڑ دیے تھے۔کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اس کھیل میں مختلف
حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ 2015میںان کا تقررعالمی کرکٹ کونسل کے صدر
کے طور پر کیا گیا۔
عمر اکمل
اپنے احباب میں’’شیرو ‘‘ کی عرفیت سے مشہورعمر اکمل کو نت نئے تنازعات کی
وجہ سے ’’بگڑے بچے‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔انہوں نے 2008میں ملائشیا میں
منعقد ہونے والے انڈر 19عالمی کرکٹ کپ میں شرکت کرکے جارحانہ کھیل پیش کیا۔
۔ 2009میں ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئےکیا اور
پہلے ہی میچ میں سنچری اسکور کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔سری لنکا کے خلاف
پہلے ایک روز میچ میں انہیں محمد یوسف کی جگہ شامل کیا گیا جس میں انہوں نے
شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مین آف دی میچ کے حق دار قرار پائےجس
کے بعد انہوں پاکستان چیمپئنز ٹرافی کے اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔ 2016میں
پی ایس ایل کے پہلے سیشن میں لاہور قلندر کی جانب سے کھیلے، دوسرے اور
موجودہ ایڈیشن میں بھی وہ اسی کا حصہ ہیں جب کہ کیریبین پریمئیر لیگ میں
بھی کھیل رہے ہیں۔ آج کل وہ قومی ٹیم سے باہر ہیں۔
سرفراز احمد
قومی کرکٹ ٹیم میں ’’بگ ڈیڈی‘‘کے نام سے مشہور پاکستانی کپتان کوپیار سے
’’سرف‘‘ کی عرفیت سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ان کا شمار بہترین وکٹ کیپر اور
جارح بلے باز کے طور پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کرکٹ کے کھیل کا آغاز 2006ء میں
کراچی کی طرف سے فرسٹ کلاس میچز کھیل کر کیا۔ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے
پاکستان کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں وکٹ کیپر کے طور پر منتخب کیا گیا۔اپنے
کھیل سے انہوں نے بی سی پی حکام کو اتنا متاثر کیا کہ کچھ عرصے بعد انہیں
انڈر 19 کا کپتان بنایا گیا۔سرفراز کی قیادت میں پاکستان نے 2006ء میں
مسلسل دوسری مرتبہ انڈر 19 کا عالمی کپ جیتا۔سرفراز کو پاکستان کی
سینیئرٹیم میں نومبر 2007 میں زخمی کامران اکمل کی جگہ کھلایا
گیا۔2016میںبھارت میں منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے موقع پر انہیں
اس فارمیٹ کا کپتان بنایا گیاجب کہ 2017میں وہ ایک روزہ ٹیم کے بھی کپتان
مقرر ہوئے ۔ اس وقت وہ کرکٹ کے تینوں فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم کے قائد ہیں۔
کپتان کی حیثیت سے ان کا ریکارڈ انتہا ئی شاندار ہے اور وہ دنیا کے پہلے
کپتان ہیں جن کی قیادت میں قومی ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی کے چھ سے زائدمیچ جیتے
ہیں ۔۔ ان کی قیادت میں پاکستان آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں بھی فاتح
رہا۔اس ٹورنامنٹ کے ایک میچ میں انہوں نے محمد عامرکی پارٹنر شپ میں
آٹھویں وکٹ پر بیٹنگ کرتے ہوئے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ 2017میں انہیں پی سی
بی کی جانب سے ’’پلیئر آف دی ایئر‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا۔
وسیم اکرم
’’پاکستان کے شہزادے‘‘، ’’سوئنگ کے سلطان‘‘ اور ’’وکی‘‘ کی عرفیت سے معروف
پاکستان کے فاسٹ بالر، وسیم اکرم کا شمار دنیا کے بہترین گیند بازوں میں
کیا جاتا ہے۔وہ ایک روزہ کرکٹ میں 500 سے زیادہ وکٹیں لینے والے دنیا ئے
کرکٹ کے پہلے کھلاڑی ہیں۔\1985میںکرکٹ کیریئر کا آغاز کرنے والے وسیم اکرم
نے پہلا میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا۔ فاسٹ بالنگ میں انہوں نے ’’سوئنگ‘‘
کی نئی جہت کو روشناس کرایاجس کے بعد ان کا شمار دنیا کے مایہ ناز فاسٹ
بالرز میں کیا جانے لگا اور کرکٹ کے عالمی مبصرین نے انہیں ’’کنگ آف
سوئنگ‘‘ یا سونئگ کے سلطان کا خطاب دیا ۔ انہوں نے 356 ایک روزہ میچوں میں
502 وکٹیں لیں۔وسیم نے ایک روزہ میچوں میں چار مرتبہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں
دوبار ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ انہیںایک روزہ میچوں میں 22مرتبہ
’’مین آف دی میچ‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا ۔ٹیسٹ وکٹوں میں بھی وہ سب سے زیادہ
وکٹیں لینے والے دنیا کے گیارہویں بالرتھے، لیکن حال ہی میں سری لنکا کے
آف اسپنر ان سے ایک وکٹ آگے ہوگئے ہیں۔ وسیم اکرم کا بلے بازی کا ریکارڈ
بھی انتہائی شاندار ہے۔ 1996میں انہوں نے زمبابوے کے خلاف ناٹ آؤٹ سنچری
اسکور کی جب کہ ایک میچ میں انہوں نے ایک ہی اننگ میں 12چھکے لگانے کا
عالمی ریکارڈ قائم کیا۔قومی ٹیم کے کپتان رہے ہیں اور ان کا شمار پاکستان
کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔۔آج کل وہ کمنٹری کے علاوہ جیو ٹی وی
چینل سے پروگرام بھی پیش کررہے ہیںجب کہ انڈین پریمئیر لیگ میں شاہ رخ خان
کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈر کے بالنگ کوچ ہیں۔وسیم اکرم پاکستان کے پہلے
کھلاڑی ہیں جنہیں ’’وزڈن کرکٹرز المیناک‘‘ کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر
’’آل ٹائم بیسٹ کرکٹر‘‘ کا ایوارڈ جب کہ آئی سی سی کے ہال آف فیم کے
پانچویں رکن کے طور پر شامل کیا گیا۔
دانش کنیریا
پاکستان کے اسپن بالر،دانش کنیریا، پرابھاشنکرکنیریا کاشمار دنیا کے بہترین
اسپنرز میں ہوتا تھا۔ وہ اپنی ’’گگلی‘‘ کی وجہ سے معروف رہے ہیں۔ گھر میں
انہیں پیار سے ’’نینی‘‘ جب کہ دوستوں اور ٹیم کے ساتھیوں میں وہ ’’ڈینی‘‘
کی عرفیت سے معروف رہے ہیں۔ ان کا شمار، عمران خان، وسیم اکرم اور وقار
یونس کے بعد پاکستان کے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بالر میں کیا جاتاہے۔
وہ انیل دلپت کے بعد دوسرے ہندو کھلاڑی تھے جو قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے۔
انہوں نے 61ٹیسٹ میچوں میں ڈھائی سو سے زیادہ وکٹیں لیں جب کہ ایک میچ کی
پہلی اننگ میں مخالف ٹیم کے سات بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کا کارنامہ انجام
دیا۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ کی دونوں اننگز میں انہوں نے 12وکٹیں حاصل کیں
جب کہ دو مرتبہ دس سے زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیاہے۔ اپنے ایک
روزہ کیریئر کے 18میچوں میں انہوں نے پندرہ اور فرسٹ کلاس میچوں میں
1024کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔۔2010میںکاؤنٹی میچ کے دوران دانش کنیریاپر
اسپاٹ فکسنگ کا الزام عائد کیا گیاجس کی پاداش میں عالمی کرکٹ کونسل نے ان
پر تاحیات پابندی عائد کردی ۔
انضمام الحق
’’انضی‘‘ کی عرفیت سے معروف پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور چیف
سلیکٹرانضمام الحق کا شمارایک روزہ میچوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والےجب
کہ ٹیسٹ کرکٹ میں تیسرے ٹاپ اسکورر میں ہوتا ہے۔ٹیسٹ کیریئر کا آغاز انہوں
نے 1992میںبرطانیہ کے خلاف کھیلتے ہوئے کیا۔اسی سال عالمی کپ میں ان کی
جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے قومی ٹیم عالمی چیمپئن بنی۔ان کا شمار دنیا کے
خطرناک بلے بازوں میں کیا جاتا ہے لیکن وکٹوں کے درمیان سست رفتاری سے
دوڑنے کی وجہ سے وہ جلد آؤٹ ہوجاتے تھے۔ انہوں نے 1999میں سری لنکا کے
خلاف ناٹ آؤٹ ڈبل سنچری جب کہ 2002میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹرپل سنچری
اسکور کرکے وہ دنیا کے 16ویں اور پاکستان کے دوسرے بیٹس مین بن گئے۔ انہوں
نے ایک روزہ میچوں میں 23بار پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا ۔ انہوں
نے سات مرتبہ ناٹ آؤٹ سنچری بنانے کا ریکارڈقائم کیا۔2005میں انضمام الحق
کو حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ انڈین
کرکٹ لیگ کی ٹیم لاہور ی بادشاہ کے کپتان بھی رہےہیں۔
مصباح الحق
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق بھی تین القابات کے حامل ہیں۔
ان کا شمار بہترین کرکٹرز میں ہوتا ہے لیکن بیٹنگ کے دوران احتیاط پسندی کی
وجہ سےان کے ناقدین نے انہیں ’مسٹر ٹک ٹک‘‘ کا لقب دیالیکن کئی مواقع پر
انہوں نے تیز ترین بیٹنگ کر کے اس خطاب کو غلط ثابت کردکھایا۔ خراب صورت
حال میں ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرنے پرکرکٹ مبصرین کی جانب سے انہیں
’’مرد بحران‘‘ اور ’’لون واریئر دی قائد‘‘ جیسے ناموں سے پکارا جانے لگا۔
انہوں نے پانچ مرتبہ ناٹ آؤٹ سنچری اسکورکی۔ \2014میں انہوں نے آسٹریلیا
کے خلاف تیز ترین اننگ کھیلی اور 56گیندوں پر سنچری بنانے کا کارنامہ انجام
دے کر سر ویوین رچرڈز کا ریکارڈ برابر کردیا، جب کہ کینگروز کے خلاف ہی
انہوں نے 21گیندوں پر نصف سنچری اسکور کی۔ اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز انہوں
نے 8 مارچ، 2001ء میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے خلاف ٹیسٹ میچ سے کیا۔ان کا
شمار قومی ٹیم کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قومی ٹیم کو
26میچوں میں فتح سے ہم کنار کرایا۔وہ ایشیا کے پہلے کپتان ہیں جن کی قیادت
میںپاکستانی ٹیم نے جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر شکست دینے کا کارنامہ
انجام دیا جب کہ وہ دوسرے پاکستانی کپتان ہیںجنہوں نے 2012میںایشیا کپ جیتا
۔ ان کی قیادت میں قومی ٹیم پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی
درجہ بندی میںپہلی پوزیشن پر فائز ہوئی۔2014میںانضمام الحق کو صدر پاکستان
نے پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈدیا۔ 2016میں آئی سی سی کی جانب سے انہیں
’’اسپرٹ کرکٹر آف دی ایئر 2016‘‘کےاعزازسے نوازا گیا جب کہ 2017میں انہیں
’’لائف ٹائم اچیومنٹ ‘‘ ایوارڈ دیا گیا۔
شاہد آفریدی
1996ء میں کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھنے والےشاہد آفریدی عالمی کرکٹ میں’’
بوم بوم آفریدی ‘‘جب کہ ساتھی کرکٹر میں ’’لالہ‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے
ہیں۔شاہد آفریدی کا شمار مایہ ناز لیگ اسپنرز میں ہوتا ہےلیکن وہ اپنی
جارحانہ بلے بازی کی بدولت پوری دنیا میں معروف ہیں۔ بیٹس مین کے طور
پربہترین اسٹرائیکرسمیت متعدد عالمی ریکارڈ اپنے نام کرچکے ہیں۔ سحر انگیز
شخصیت کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ آفریدی نے 2011 کے عالمی کپ
میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کی۔انہوں نے اکتوبر 1996ء میں صرف سولہ سال
کی عمر میں قومی ٹیم کی طرف سےکھیل کا آغاز کیا ، انہیں مشتاق احمد کی جگہ
لیگ اسپنر کے طور پر کھلایا گیاتھالیکن جلد ہی تیزاور جارحانہ بلے بازی ان
کی پہچان بن گئی اور وہ مسقل طور سے قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے 4
اکتوبر، 1996ء میں سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچ میں بیٹنگ کرتے ہوئےصرف
37 گیندوں پر 102 رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا جب کہ وہ اس میچ میں
سنچری اسکور کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کرکٹرکےاعزازکے بھی حق دار
قرار پائے۔ مارچ 2005میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگز میں انہوں
نے شاندار بالنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف تین کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ
دکھائی بلکہ صرف 26گیندوں پر نصف سنچری بھی بنا ڈالی۔ ان کی دھواں دار
بیٹنگ کو دیکھ کر بھارتی کرکٹر ، روی شاستری نے انہیں ’’بوم بوم آفری‘‘ کا
خطاب دیا جو بعد میں ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ شاہد آفریدی کو ایک روزہ
کرکٹ میچوںمیں سب سے زیادہ چھکے مارنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔2006میں بھارت
کے خلاف ٹیسٹ میچ میں ہربھجن سنگھ کے اوور میں انہوں نے لگاتار چھ چھکے
رسید کیے جب کہ 2007میں سری لنکا کے خلاف کھیلتے ہوئے انہوں نے ملنگا
بندارہ کے اوور میں 32رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ دنیائے کرکٹ کے
تیسرے کرکٹر ہیں جنہوں نے ون ڈے کرکٹ میں 6000 ہزار سے زائد رنز اور تین سو
سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔
شعیب اختر
شعیب اخترجنہیں پیار سے ’’شوبی‘‘ کے تام سےپکارا جاتا ہے، اپنی تیز رفتار
بالنگ کی وجہ سے ’’راولپنڈی ایکسپریس ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہیں جب کہ
مخالف ٹیموں کے بلے بازوں نے انہیں’’ فائرنگ بلٹس‘‘ کا لقب دیا،کیوں کہ ان
کی طرف سے پھینکی جانے والی گیند، بندوق کی گولی کی رفتار سے بیٹسمین کی
جانب آتی تھی۔ شعیب اخترنے پہلا ٹیسٹ میچ1997میںویسٹ انڈیزکے خلاف جب کہ
ایک روزہ میچ 1998 میں زمبابوے کے خلاف کھیلا ۔2006میں برطانیہ کے خلاف
پہلے ٹی۔ٹوئنٹی میچ میں حصہ لیا۔ ان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین بالر زمیں
کیا جاتا ہے، جن کے خوف ناک باؤنسرز اور تیز رفتار گیندوں سے بیٹسمین خوف
زدہ رہتے تھے اور ان کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ شعیب کی بالنگ کے دوران بیٹنگ
اینڈ پر نہ ہوں۔جس دور میں وہ دنیا کے مایہ ناز بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا
خواب بنے ہوئے تھے، اسی زمانے میں انہوں نے تیز رفتار گیند کرانے کے
متعددعالمی ریکارڈ قائم کیے،جن میں سے کئی اب تک ناقابل شکست ہیں ۔ وہ کرکٹ
کی تاریخ کے ایسے بالر تھے جنہوں نے متعدد مرتبہ سو میل فی گھنٹہ سے زائد
کی رفتار سے بالنگ کرانے کے ریکارڈ قائم کیے۔شعیب نے کرکٹ کیریئرکے 13برسوں
کے دوران دنیا کی مختلف ٹیموں کے 19بیٹسمینوں کو اپنی تیز رفتاربالنگ سے
زخمی کیا۔انہوںنے ابتدا ہی سے خود کو ایک جارح مزاج فاسٹ بالر کی حیثیت سے
منوایا۔ پاکستان کی جانب سے کھیلے جانے والے بے شمار میچ ایسے ہیں جن میں
سے زیادہ تر کی جیت میںان کی بالنگ نے کردار ادا کیا۔شعیب کی مقبولیت کا
آغاز 1999میں شارجہ میں پری ورلڈ کپ سیریز میں بھارت کے خلاف ان کی شاندار
کارکردگی سے ہوا۔ اسی سال انہوں نے کلکتہ میں کھیلی جانے والی ایشین ٹیسٹ
چیمپئن شپ کے میچ کی ایک اننگ میں آٹھ بھارتی بیٹسمینوں کو آؤٹ
کیا۔2003کے عالمی کپ کے دوران انہوں نے کرکٹ کی تاریخ کی برق رفتار بالنگ
کا مظاہرہ کیا اوربرطانیہ کے خلاف میچ کے دوران، انہوں نے ایک
گیند161.3کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے کرائی۔ جنوبی افریقن ٹیم جب پاکستان
کے دورے پر آئی تو اس زمانے میں شعیب اختر کے مہلک باؤنسرز کا شہرہ تھا۔
ایک میچ کے دوران جنوبی افریقی بیٹس مین گیری کرسٹن بیٹنگ کررہے تھے،
راولپنڈی ایکسپریس نے گیند کراتے ہوئے ایک سپر فاسٹ باؤنسر ان کی طرف
پھینکاجو ان کے چہرے پر جاکر لگا۔ کرسٹن زمین پر گر گئے،انہیں اسپتال لے
جایا گیاجہاں ان کے چہرے پر دس ٹانکےلگے۔ گیند لگنے سے ان کی ناک کی ہڈی
ٹوٹ گئی تھی جب کہ آنکھ کو بھی نقصان پہنچا تھا۔2004میں آئی سی سی
چیمپئنز ٹرافی کا دوسرا سیمی فائنل پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان منعقد
ہوا۔ ویسٹ انڈیزکے خلاف بالنگ کے دوران ویسٹ انڈیز کے ریکارڈ ساز بلے باز
برائن لارا بیٹنگ کررہے تھے۔ شعیب اختر کی بالنگ کے دوران ایک تیز گیند ان
کی گردن پر لگی جس سے وہ زمین پر گر کربے ہوش ہوگئے۔ شعیب اختر کے بالنگ
ایکشن پر بھی اعتراضات ہوئے، اس سلسلے کاسب سے پہلاتنازع آسٹریلیا میںاس
وقت شروع ہوا جب امپائر ڈیرل ہیئر اور پیٹر ویلی نے ان کےگیند کرانے کے
انداز پر اعتراض کیالیکن بعد میں ان کے ایکشن کو کلیئر کردیا گیا۔2001 میں
امپائر اسٹیو ڈن اور ڈگ کوئی نے شعیب اختر کےبالنگ ایکشن پر دوبارہ اعتراض
کیا۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ان کے ایکشن پر اسٹڈی کرنے کے بعد
ان کی بازو میں خم کی وجہ سے ایکشن کودرست قرار دیا گیا۔ ان دنوں وہ بھی
وسیم اکرم کے ساتھ جیو ٹی وی پر ایک پروگرام پیش کررہے ہیں۔ |