متنازع امپائرنگ

کئی امپائروں کے جانب دارانہ فیصلے کرکٹ میچوں کے نتائج پر اثر انداز ہوئے
ڈیرل ہیئر کی غلط امپائرنگ کرکٹ کی 129سالہ تاریخ کاسیاہ باب، ٹی وی امپائراسٹیو ڈیوس نے ’’ہاٹ اسپاٹ ‘‘ کی غلط تشریح کو فروغ دیا
کئی امپائروں کے فیصلے نسلی امتیاز پر مبنی رہے، بعض متنازع فیصلے علیم ڈار کے کیریئر کو بھی داغ دار کرگئے


کرکٹ میچوں میں امپائرنگ کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ امپائروں کے فیصلے اگر منصفانہ بنیادپر ہوں تو جیت اچھی کارکردگی دکھانے والی ٹیم کے حصے میں آتی ہے جب کہ متنازع اور جانب دارانہ فیصلے تاریخ کا سیاہ باب بن جاتے ہیں ۔ چند دہائی قبل تک تمام تر فیصلے فیلڈ امپائرکیا کرتے تھے لیکن جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال کے بعد کھلاڑیوں کو فیلڈ امپائرز کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کا استحقاق حاصل ہوگیا، جس کے بعد حتمی فیصلہ ڈی آر ایس ٹیکنالوجی سے مدد لینے کے بعد تھرڈ امپائر کرتا ہے۔ کئی میچز میں امپائروںکی جانب سے غلط فیصلے دینے کے سبب جیت کسی ایک ٹیم کے پلڑے میں ڈال دی گئی، جس کی وجہ سے کئی مرتبہ کھلاڑیوں اور امپائروں کے درمیان تنازعات اس نہج پر پہنچ گئے جو پوری ٹیسٹ سیریز پر اثرانداز ہوئے ۔ ایسے ہی چند متنازع فیصلوں کا ذکر نذر قارئین ہے۔

ڈیرل ہیئر
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ڈیرل ہیئر کا تعلق کرکٹ کے متنازع ترین امپائروں میں ہوتا ہے۔ انہیں ایشیائی ٹیموں کے خلاف نسلی تعصب پر مبنی فیصلےدینے کی پاداش میں آئی سی سی ایلیٹ امپائر پینل اور انٹرنیشنل پینل آف امپائرز کی ذمہ داریوں سے سبک دوش کیا گیا۔ ان کا بیس سالہ امپائرنگ کیرئیرتنازعات سے بھرا پڑا ہے۔ 1988-89میں انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز فرسٹ کلاس میچوں کی نگرانی سے کیا، تین سال بعد انہیں ٹیسٹ میچوں کی امپائرنگ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ 1992 میں آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان ایڈیلیڈ میں ٹیسٹ میچ کھیلا گیا جو ان کے کیریئر کا پہلا میچ تھا، جس کی ابتدا انہوں نے جانب دارانہ اور متعصبانہ فیصلوں سے کی۔ اس میچ میں انہوں نے بھاارت کے آٹھ بیٹسمینوں کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار دیا جب کہ آسٹریلین بیٹسمینوں کے خلاف بھارتی فیلڈرز کی تمام اپیلیں مسترد کردی گئیں۔سیریز کے دیگر میچوں میںبھی ان کی امپائرنگ کا یہی حال رہا اور کینگروز کے ہاتھوں بھارتی ٹیم مکمل وائٹ واش ہوگئی۔

دسمبر 1995میں میلبورن ٹیسٹ میں جو سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا، اس میں انہوں نے سری لنکا کے لیگ اسپنر، متایا مرلی دھرن کے بالنگ ایکشن پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ان کے تین اوورز کی سات گیندیں ’’نو بال‘‘ قرار دے دیں ۔ ان کا مؤقف تھا کہ مرلی دھرن کا ہاتھ کرکٹ کے مروجہ اصولوں کے مطابق نہیں گھومتا بلکہ وہ پتھر پھینکنے والے انداز میں بالنگ کراتے ہیں۔سری لنکا کے کپتان ارجنا رانا تنگا نے دوسرے اینڈ پر موجود امپائر ،اسٹیوڈیون کی طرف سے انہیں گیند کرانے کو دی، جنہوں نے مرلی کے بالنگ ایکشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میچ کے اختتام پر جب اس تنازع نے زیادہ طول پکڑا تو ڈیرل ہیئر نے بیان دیا کہ مرلی دھرن کے بالنگ ایکشن پرمختلف امپائرز کئی سال سے اعتراض کررہے ہیں لیکن اس پر کوئی بھی اقدامات نہیں کیے گئے۔ آئی سی سی نے مرلی دھرن کا بایو مکینیکل ٹیسٹ کرایا جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان کا ہاتھ پیدائشی نقص کی وجہ سے 15ڈگری کے زاویئے پر گھومتا ہے۔ اس تجزیاتی رپورٹ کے بعد عالمی کرکٹ کونسل نے تمام بالرز کے لیے کہنی گھمانے کی حد 15ڈگری مقرر کردی۔ آئی سی سی کی جانب سے مذکورہ قضیہ نمٹانے کے بعد بھی ڈیرل ہیئر خاموش نہیں بیٹھے اور انہوں نے 1999میں دوبارہ اس تنازع کو اٹھایا جس کے بعد آئی سی سی نے فیصلہ کیا کہ انہیں 1999ء کے ورلڈ کپ میں امپائرنگ کے فرائض تفویض نہیں کیے جائیں گے۔ قابل دکر بات یہ ہے کہ انہوں نے آسٹریلیا کے 44 ٹیسٹ اور 75 ایک روزہ میچوں میں امپائرنگ کی جو ایک ریکارڈ ہےلیکن 2002ء میں آئی سی سی کے اس فیصلے کے بعد کہ آئندہ کرکٹ میچوں میں غیر جانب دار امپائرز تعینات کیے جائیں گے اورمیچ کھیلنے والے دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والا کوئی امپائر شامل نہیں ہوگا، ہیئر کو آسٹریلیاکےمیچوںمیں مزیدامپائرنگ کا موقع نہیںمل سکا لیکن دیگر ممالک میں وہ بدستور امپائرنگ کرتے رہے۔

اگست 2006میںانہوں نے پاکستان کے خلاف ایسا متنازع فیصلہ دیا جو کرکٹ کی 129سالہ تاریخ کا سیاہ ترین باب بن گیا، جس نے ان کے امپائرنگ کیریئر کا بھی خاتمہ کردیا۔2006میں پاکستان کرکٹ ٹیم ، انضمام الحق کی قیادت میں انگلینڈ کے دورے پر گئی، جہاں اس نے چار ٹیسٹ، پانچ، ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کھیلی۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ برابر رہا جب کہ دوسرے اور تیسرے میچوں میں امپائرز کی جانب سے دیئے گئے متنازع فیصلوں کی وجہ سے میزبان ٹیم کوفتح حاصل ہوئی۔ چوتھا ٹیسٹ میچ جو اوول میں کھیلا گیا اس میں پاکستان کی پوزیشن مستحکم تھی اور اس کے جیت کے روشن امکانات تھے۔ کھیل کے چوتھے روز، ڈیرل ہیئر نے پاکستانی ٹیم پر بال ٹیمپرنگ کا الزام عائد کیا جب کہ سیکنڈ ایمپائر بلی ڈاکٹروونے بھی ان کی تائید کی۔ ڈیرل ہیئر نے پاکستانی ٹیم پر جرمانہ کرتے ہوئے انگلستان کی ٹیم کو پانچ اضافی رنز دینے کے علاوہ نئی گیند کا فائدہ بھی دیا ۔ پاکستانی کپتان نے اس فیصلے پر سخت احتجاج کیا جسے ڈیرل ہیئر نے سختی سے رد کردیا۔ پاکستانی ٹیم نے اس متعصبانہ اور جانب دارانہ فیصلے کو اپنی توہین قرار دیا اور وقفے کے بعد انہوں نے بہ طور احتجاج کھیل دوبارہ شروع کرنے سے انکار کردیا۔ امپائرز نے آدھے گھنٹے تک پاکستانی ٹیم کے گراؤنڈ میں آنے کا انتظار کیاجس کے بعد ڈیرل ہیئر نے انگلینڈ کوفاتح قرار دے کر میچ کا یک طرفہ فیصلہ کردیا ۔ پاکستانی کوچ، باب وولمر نے تنازعہ ختم کرانے کی حتی الامکان کوشش کی اور امپائر کے فیصلے کے 20منٹ بعد پاکستانی ٹیم کوکھیل دوبارہ شروع کرنے پر رضامند کرلیا۔ انضمام الحق ، جب اپنی ٹیم کو لے کر دوبارہ میدان میں آئے تو امپائر ڈیرل ہیئر نے میچ دوبارہ کھلانے سے انکار کردیا، حالاں کہ میزبان ٹیم بھی دوبارہ کھیلنے کے لیے تیار تھی۔ ڈیرل ہیئر کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے انگلش ٹیم فتح یاب ہوئی۔ اس متنازع فیصلے پر دنیا بھر کے کرکٹ حلقوں کی جانب سے ردعمل کا اظہار کیا گیا لیکن اس مسئلے پر عالمی کرکٹ، دو نسلی گروہوں میں منقسم ہوگئی۔ ایشیائی بلاک کے دباؤ کے باعث نومبر 2006میں آئی سی سی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں دس میں سے سات رکن ممالک نے ڈیرل ہیئر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جب کہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے ان کی طرف داری کی۔آئی سی سی نے بھاری اکثریت سے قرارداد کی منظوری کے بعد4نومبر 2006میں ان پر پابندی عائد کردی۔

آئی سی سی کے فیصلے کے خلاف ،فروری 2007میں ڈیرل ہیئر نے عالمی کرکٹ کونسل اور پاکستان کرکٹ بورڈ پر نسلی امتیاز روا رکھنے کا مقدمہ دائر کردیا جو انہوں نے کچھ دنوں بعد واپس لے لیا۔ مارچ2008میں انہیں دوبارہ آئی سی سی ایلیٹ امپائر پینل میں شامل کیا گیااور انہوں نے جون 2008میں برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچوں کو سپروائز کیا، جس کے بعد اگست 2008میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

اسٹیوڈیوس
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اسٹیفن جیمز ڈیوس بھی کرکٹ میچوں کے دوران اپنے متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے معروف ہیں ۔ 2008میں انہیں آئی سی سی ایلیٹ امپائر پینل میں شامل کیاگیا تھا اور مارچ 2009میں سری لنکا کی ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے وقت وہ بھی سری لنکن ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔ 2013میں پاکستان ٹیم جنوبی افریقہ کے دورے پر گئی۔ جوہانس برگ ٹیسٹ میں اسٹیو ڈیوس تھرڈ امپائر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس میچ میں انہوں نے چار متنازع فیصلے دیئے جنہوں نے پاکستان ٹیم کو فتح سے دور کردیا۔ جوہانس برگ ٹیسٹ میں نو پاکستانی بیٹسمین کیچ آؤٹ ہوئے جب کہ ایک کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ دیا گیا۔ حالاں کہ اس میچ میں جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا گیاتھا لیکن ڈیوس نے ٹی وی امپائر کی حیثیت سے ’’ہاٹ اسپاٹ ‘‘ کی غلط تشریح کرکے پاکستانی ٹیم کوعبرت ناک شکست سے ہم کنار کرایا۔ کھیل کے دوسرے روز مصباح الحق کی بیٹنگ کے دوران جیک کیلس نے کاٹ بی ہائینڈ کی اپیل کی جسے فیلڈ امپائر نے رد کردیا۔ اس پر پروٹیز کھلاڑیوں نے ریویو لے لیا۔ اسٹیو ڈیوس نے ’’ہاٹ اسپاٹ کیمروں‘‘ سے مدد لی جنہوں سے سلو موشن میں مصباح کےبیٹ پر صرف معمولی سا دھبہ دکھایا جس کی بنیاد وہ ڈیوس ، فیلڈ امپائر کا فیصلہ تبدیل کرنے کے مجاز نہیںتھے، لیکن انہوں نے مصباح کو آؤٹ قرار دیا۔ اس موقع پر پاکستانی کوچ ڈیو واٹمور اور منیجر اکرم چیمہ نے ڈیوس سے ان کے فیصلے پر احتجاج بھی کیا لیکن وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ اس میچ کی پہلی اننگ میںاسٹیو ڈیوس ہی نے ’’ہاٹ اسپاٹ ‘‘ پر اس کے برعکس فیصلہ دیا تھاجس کا فائدہ پروٹیز کو پہنچا، جس وقت جنوبی افریقہ کی ٹیم بیٹنگ کررہی تھی، پاکستانی بالر، راحت علی کی گیند پر فاف ڈپلوسی کے خلاف کاٹ بی ہائنڈ کی اپیل کی گئی جسے فیلڈ امپائر نے مسترد کردیا۔ پاکستان نے اس فیصلے کے خلا ف ٹی وی امپائر سے رجوع کیاجنہوں نے فیلڈ امپائر کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس اننگ میں ابراہم ڈی ویلیئر کے خلاف بھی کاٹ بی ہائنڈ کی اپیل ہوئی مگر ریویو میں ڈیوس نے اسے بھی مسترد کردیا۔ میچ کے آخری روز سعید اجمل نے ڈی ویلیئر کےایل بی ڈبلیو آؤٹ ہونے کی اپیل کی جسے فیلڈ امپائر نے بھی آؤٹ قرار دیا لیکن ڈیوس نے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ گیند پیڈ پر لگنے سے پہلے بلے سے ٹکرائی تھی۔ اگرچہ ٹی وی ری پلے میں ’’ہاٹ اسپاٹ ‘‘ کا کوئی نشان نظر نہیں آیا، لیکن ڈیوس اپنےفیصلے پر قائم رہے۔ ان کی جانب دارانہ امپائرنگ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم صرف 49 رنز کے معمولی اسکور پر آؤٹ ہوگئی۔ یہ کرکٹ کی تاریخ کا 20واں کم تر اسکور تھا، اس سے قبل 1955 میں آک لینڈ ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کی ٹیم برطانیہ کے خلاف کھیلتے ہوئے صرف 20رنز بنا کرکرکٹ کی تاریخ کے سب سے کم اسکور پر آؤٹ ہوکر پہلے نمبر پر ہے جب کہ پروٹیز ٹیم کو دس مرتبہ انتہائی معمولی اسکور پر آؤٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

شکور رانا
پاکستانی امپائر شکور راناکا امپائرنگ کیریئر 1957سے 1973تک سولہ سالوں پر محیط ہے ۔ ان کی امپائرنگ کے دوران بھی بعض دفعہ ایسے تنازعات نے جنم لیاجن سے ان کی نیک نامی پر اثر پڑا۔ 1987میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ فیصل آباد میں دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز سلیم ملک کی بیٹنگ کے دوران انگلش ٹیم کے آف اسپنر، ایڈی ہیمنگو بالنگ کرارہے تھے اور ان کےاوور کی آخری تین گیندیں باقی تھیں۔ فیلڈ امپائر ، شکور رانا نے نوٹ کیا کہ یرطانوی کپتان ، مائیک گیٹنگ اپنے فیلڈر ، ڈیوڈ کیپل کی پوزیشن بار بار تبدیل کرکے سلیم ملک کے پیچھے کھڑا کردیتے تھے۔ ایک موقع پر شکور رانا نے میچ روک کر برطانوی کپتان کو اس حرکت سے منع کیااور انہیں بتایا کہ وہ اس طرح فیلڈنگ میں تبدیلی کرکےکرکٹ قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مائیک گیٹنگ بجائے اپنی غلطی ماننے کے، مشتعل ہوکر امپائر سے جھگڑنے لگے، انہوں نے شکور رانا کو ’’دھوکے باز‘‘ کہتے ہوئے مغلظات بھی بکیں۔ تیسرے روز شکور رانا نے میچ شروع کرانے سے انکار کردیا، ان کا مطالبہ تھا کہ مائیک گیٹنگ اپنے الفاظ واپس لے کر باضابطہ طور سے معافی مانگیں۔ اس کے جواب میں انگلش کپتان نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئےپاکستانی امپائر سے معافی مطالبہ کیا ، جب کہ ان کے ٹیم منیجر نے بھی ان کی حمایت میںدورہ ختم کرکے واپس جانے کی دھمکی دی۔ انہوں نےپاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین، جنرل صفدر بٹ سے ملاقات کی کوشش کی لیکن انہوں نے ان سے ملنے سے انکار کردیا، اور انہیں کہلوایا کہ مائیک گیٹنگ نے امپائر شکور رانا سے نہ صرف بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا بلکہ انہیں گالیاں بھی دی ہیں، اگربرطانوی کپتان، امپائر سے معافی نہیں مانگیں گے تو وہ اس معاملے کو آئی سی سی میںپیش کریں گے۔ مذکورہ تنازع کے طول پکڑنے کے بعد، انگلش کرکٹ بورڈحرکت میں آیا اور اس نے اپنے کپتان کو شکور رانا سے معافی مانگنے کا حکم دیا جس کے بعد انہوں نےانہیں تحریری طور پر معافی نامہ دیا۔

آرپامر
جون 1992میںپاکستانی ٹیم انگلینڈ کے دورے پر گئی، اس سے چند ماہ قبل پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا تھا، جس کی وجہ سے انگلش ٹیم نفسیاتی طور سے گرین شرٹس سے خائف تھی۔انگلش کرکٹ بورڈ کی طرف سے ٹیسٹ میچوں کی نگرانی کے لیے جانب دار امپائروں کو تعینات کیا گیاجنہوں نے کھیل کے دوران اپنےمتنازع فیصلوں سے برطانوی ٹیم کو فتح سے ہم کنار کرانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کے باوجود وہ اسےسیریز ہارنےسے نہ بچا سکے۔ اولڈٹریفورڈ ٹیسٹ کے چوتھےدن جانب دارانہ امپائرنگ کی انتہا کردی گئی۔ برطانوی بیٹنگ کے دوران ان کی صرف ایک وکٹ باقی تھی اور ڈیون میلکم بیٹنگ کررہے تھے، جو فاسٹ بالر عاقب جاوید کے باؤنسرز سے خائف نظر آرہے تھے۔ امپائر آرپامر عاقب کو باؤنسر پھینکنے سے روکنے کی کوشش کررہے تھے، ناکامی پر انہوں نے نہ صرف عاقب کی ایک گیند کو نو بال قرار دیا بلکہ اوور ختم ہونے کے بعد ان کا سوئٹر ان کے حوالے کرنے کی بجائے غصے سے زمین پر پھینک دیا۔ پاکستانی کپتان جاوید میاں داد نے یہ منظر دیکھ کر ان کے رویئے پر سخت احتجاج کیا، جس پر تنازع کھڑا ہوگیا لیکن دونوں ٹیموں کے ارکان نے معاملہ رفع دفع کرایا۔ اپنے دوسرے اوور میں میلکم کی وکٹ عاقب جاوید نے ہی حاصل کی اور بدترین امپائرنگ کے باوجود پاکستان سیریز جیتنے میں کامیاب رہا۔

ڈیوڈ کانسنٹ
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے امپائر ڈیوڈجون کانسٹنٹ، کرکٹ میچوں میں متنازع فیصلوں کے سبب شہرت کے حامل رہے ہیں۔ 1982ء میں ان کی امپائرنگ کو سب سےزیادہ بھارتی ٹیم کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران 36ٹیسٹ اور 33ایک روزہ میچز کی نگرانی کی جن میں ان کے دیئے گئے زیادہ تر فیصلے تنازعات کا سبب بنے۔ 1987میں پاکستانی ٹیم نے ان کی امپائرنگ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئےانگلش کرکٹ بورڈ سےپاکستان اور انگلینڈ کے میچوں کے دوران انہیں امپائر مقرر نہ کرنے کی درخواست کی تھی ، جسے رد کردیا گیا تھا۔ برطانیہ کے دورے کے دوران ان کے متنازع فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کے منیجر حسیب احسن نے برطانوی میڈیا کے سامنے آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ کانسٹنٹ کی غلط امپائرنگ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو نفسیاتی دباؤ کا سامنا ہے۔ لیکن تمام تر ذہنی دباؤ اورکانسٹنٹ کے متنازعہ فیصلوں کے باوجود پانچ میچوں کی سیریز میں سے چار میچ ڈرا اور اور ایک میں پاکستانی ٹیم نے فتح حاصل کی۔

اسٹیو بکنر
ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے ایمپائر اسٹیفن انتھونی، کرکٹ کی دنیا میں اسٹیو بکنر کے نام سے معروف ہیں، کرکٹ میچوں میں ان کے تاخیر سے کیے جانے والے اور متنازع فیصلوںکے باعث، انہیں کرکٹرز کی جانب سے ’’سلوڈیتھ’’ کا خطاب دیا گیا۔ میچ کے دوران فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کے کھلاڑی ان کی عادت کی وجہ سے دیر تک اپیل کرتے تھے، جب کہیں وہ فیصلہ دیتے تھے۔ ان پر سب سے زیادہ تنقید 2008میں سڈنی ٹیسٹ اور ’’ایلن بارڈر، گواسکر ٹرافی‘‘ کے موقع پر بھارتی ٹیم کی جانب سے کی گئی اور ان کی امپائرنگ کو بدترین قرار دیا گیا۔سڈنی ٹیسٹ کے دوران انہوں نے گیارہ متنازع فیصلے دیئے جن میں سے آٹھ بھارت کے خلاف تھے۔اس ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں انہوں نے راہول ڈریوڈ کو اس وقت کاٹ بی ہائنڈ آؤٹ دیا ، جب گیند نے ان کے بلے کو چھوا تک نہیں تھا۔ یہ سلسلہ پتھ ٹیسٹ میں بھی جاری رہا۔ 2007کے ورلڈ کپ میں خراب روشنی کے باوجود انہوں نے میچ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے ان پر جرمانہ کیا گیا۔

علیم ڈار
علیم ڈارکا شمار آئی سی سی کے ایلیٹ پینل کے ان امپائروں میں ہوتا ہے جنہیں ایک سے زائد مرتبہ بہترین امپائر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے 2005اور 2006میں آئی سی سی اامپائر آف دی ایئر کاایوارڈ حاصل کیا جب کہ 2009,2010اور2011میں مسلسل تین مرتبہ سال کے بہترین امپائر ہونے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ اس طرح انہوں نے سائمن ٹوئفل کا پانچ مرتبہ بیسٹ امپائر آف دی ایئر ہونے کا ریکارڈ برابر کردیا۔ 14اگست 2010میں انہیں صدارتی تمغہ حسن کارگردگی کا ایوارڈ دیا گیا،2013میں انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ 100سے زیادہ میچ سپروائز کرنے کی بناپرعلیم ڈار دنیا کے تیسرے اور ایشیا کے پہلے امپائر بن گئے۔تمام تر نیک نامی کے باوجودکرکٹ میچوں میں ان کے کئی متنازغ فیصلے ان کے امپائرنگ کیریئر پر بدنما داغ ثابت ہوئے۔ 2005میں انگلینڈ اور برطانیہ کے درمیان سنچورین ٹیسٹ کے دوران خراب امپائرنگ کی وجہ سے انہیں ساتھی امپائر اسٹیو بکنر کے ساتھ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں۔ 2007کے کرکٹ کے عالمی کپ کے فائنل میچ میں خراب روشنی کے باوجود آسٹریلین ٹیم سے تین اوور تک بالنگ کرانے کی پاداش میں انہیں اپنے ساتھی امپائرز ، اسٹیو بکنر، بلی باؤڈن اور جیفرے جون کرو کے ساتھ معطلی کی سزا بھگتنی پڑی۔ 2016میں پاکستان اور انگلینڈ کے میچ کے دوران انہوں نے برطانوی فاسٹ بالر، اسٹیوارٹ براڈ کو جان بوجھ کر وکٹیں خراب کرتے دیکھا تو انہوں نے انگلش کپتان ایلسٹر کک کو بلا کر براڈ کی اس حرکت سے مطلع کیا۔ کک نے براڈ کو بلا کر سرزنش کی، لیکن انہوں نے بجائے شرمندہ ہونے کے،علیم ڈار سے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شکایتیں کرنے کی بجائے اپنا کھیل جاری رکھیں۔ علیم ڈار میچ ریفری مدھو گالے کےپاس گئے اور انہیں مذکورہ واقعے کے بارے میں بتایا، جنہوں نے براڈ کو جرمانے کی سزا دی۔

برطانیہ میں ایشز سیریز 2015کےدوران پانچ میچوں کی سیریز کا پہلامیچ انگلینڈ جب کہ دوسرا آسٹریلیا نے جیتا۔ سیریز کا تیسرا میچ ایجبسٹن، برمنگھم میں منعقد ہوا جس کے آخری روز آسٹریلیا کو اپنی شکست صاف نظر آرہی تھی۔آسٹریلوی کپتان مائیکل کلارک خراب روشنی کا بہانہ بنا کر میچ ختم کرانے کی تگ و دو میں تھے جب کہ امپائر علیم ڈار دیگر امپائروں کے ساتھ روشنی کےانتظامات کے لیے مشاورت کررہے تھے۔ اسی اثناء میں کلارک وہاں پہنچ گئے اور علیم ڈار سے انتہائی جارحانہ انداز میں خراب روشنی کی وجہ سے میچ ختم کرانے کے لیے بحث و تکرار شروع کردی ۔ اس دوران آسٹریلوی کپتان نے انہیں تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ بھی اٹھایا ۔ جس پر علیم ڈار نے سخت انداز میں انہیں ایک طرف کرتے ہوئے میچ جاری رکھنے کا کا اعلان کر دیا۔بعد ازاںعلیم ڈار نے مذکورہ واقعہ کی تفصیلات سےانٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو آگاہ کیا جس نے آسٹریلوی کپتان کے خلاف تادیبی کارروائی کی۔

مارک بینسن
مارک رچرڈ بینسن کا تعلق بھی برطانیہ سے ہے اور ان کا نام کرکٹ کے بین الاقوامی حلقوں میں امپائرنگ کے حوالے سے خاصا معروف ہے۔ 2006میں وہ تین امپائرز کے ساتھ ایمریٹس ایلیٹ پینل آف امپائرز میں شامل ہوئے۔ 2007میں جوہانس برگ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میچ کو سپروائز کیا جب کہ 2007میں ہی ویسٹ انڈیز میں ہونے والے کرکٹ کے عالمی کپ کے آٹھ میچوں میں امپائرنگ کے فرائضٗ انجام دیئے۔ 2008کا سڈنی ٹیسٹ ان کے کیرئیر کو بھی داغ دار کرگیا۔ آسٹریلیا میں منعقد ہونے والی ’’گواسکر، بارڈر ٹرافی‘‘ کے میچ میں انہوں نے اسٹیو بکنر کے ساتھ مل کر بھارت کے خلاف سات متنازغ فیصلے دیئے، جن میں سے ایک میں سارو گنگولی کو غلط آؤٹ دیا گیا۔ سارو گنگولی کا ایک شاٹ زمین سے لگتا ہوا مائیکل کلارک کے ہاتھ میں گیا ۔ مارک بینسن نے آسٹریلوی کپتان رکی پوٹنگ سے کلارک کے کیچ پکڑنے کی تصدیق چاہی اور ان کے مثبت جواب کے بعد گنگولی کو آؤٹ قرار دینے کے لیے اپنی انگلی کھڑی کردی۔ 2009میں انہوں نے امپائر کے فیصلوں کے خلاف ریویو سسٹم (یو ڈی آر ایس) کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسی سال انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔

ادریس بیگ
ادریس بیگ پاکستان کرکٹ کے اولین دورمیں امپائر رہے ہیں جنہوں نے 1955سے 1969تک ٹیسٹ میچوںمیں امپائرنگ کے فرائض انجام دیئے۔ 1955-56میںایم سی سی کی ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر انہوں نے پاکستان اور ایم سی سی کے چار میچوں کو سپروائز کیا ۔ پشاور ٹیسٹ میں ایم ایم سی کی ٹیم سات وکٹوں سے ہار گئی ، جس کی وجہ سے ایم ایم سی کے کھلاڑی اور کپتان امپائر ادریس بیگ کی جانب سے دیئے جانے والے فیصلوں سے سخت ناراض نظر آرہے تھے۔ میچ کے اختتام پر شام کے وقت ایم سی سی کی ٹیم ایک ڈنر پارٹی میں مدعو تھی، جس کے بعدایم سی سی کے چند کھلاڑی اپنے کپتان ڈونلڈ کار کے ساتھ پشاور کے اس ہوٹل پہنچے جہاں پاکستانی ٹیم کے آفیشل ٹھہرے ہوئے تھے انہوں نے وہاں جاکر ادریس بیگ کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ جب ادریس بیگ باہر آئے تو کھلاڑی انہیں بازوؤں سے پکڑ کر ہوٹل سے باہر لائے اور ایک تانگے میں بٹھاکر اپنے ہوٹل لے گئے ۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر انہوں نےپاکستانی امپائر سے کہا کہ یہاں ہم آپ کو اس لیے لائے ہیں کہ آپ کی خاطر اورآج کی رات آپ کے ساتھ انجوائے کرنا چاہتےہیں ۔ یہ کہہ کر انگلش کھلاڑیوں نے ادریس بیگ پر ٹھنڈے پانی کی دو بالٹیاں انڈیل دیں اور مزاحمت پر انہیں زدو کوب بھی کیا۔ ہو ٹل کے دربان کواس طرح ادریس بیگ کے لائے جانے پرکچھ شک ہوا تواس نے ہوٹل انتظامیہ کو بتایا جنہوں نے پاکستانی ٹیم کے کپتان عبدالحفیظ کاردار اور کھلاڑیوں کو خبر کی ۔کچھ ہی دیر میں کاردار، بورڈ کے سیکریٹری ، گرو پ کیپٹن چیمہ، فضل محمود، خان محمد اور محمود حسین کو لے کر وہاں پہنچ گئے۔جب کاردار نے ادریس بیگ کے ساتھ زیادتی پر احتجاج کیا تو پہلے برطانوی کپتان ڈونلڈ کار نے ان کی بات کو مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی ، اس کے بعد جارحانہ انداز اختیار کیا۔ یہ دیکھ کر گروپ کپٹن چیمہ نے انگلینڈ کے کپتان کو حکم دیا کہ اب کوئی میچ نہیں ہو گا۔ آپ لوگ اپنا سامان اٹھائیں اورفوراً ملک چھوڑ دیں۔اس الٹی میٹم سے برطانوی کھلاڑی گھبراگئے۔ معاملہ پاکستان کے گورنر جنرل اسکندر مرزا تک پہنچ گیا، جنہوں نے خط لکھ کر ایم سی سی سےمعافی طلب کی۔ یہ خبر ایم سی سی کے صدر لارڈ الیگزینڈر آف ٹیونس کو لندن میں پہنچی تو انہوں نےپاکستان کے سربراہ کو پیشکش کی کہ میں ٹیم کی جانب سے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں اور جو بھی مالی تقصان میچ کے التوا کی وجہ سے ہو گا اس کی تلافی بھی ایم سی سی کرے گی۔اس کے بعد ایم سی سی کے کپتان ڈونلڈ کار نے اسکندر مرزا، بورڈ کے سیکرٹری، چیمہ سےاور ادریس بیگ بھی معافی مانگی جس کے بعد ایم سی سی کی ٹیم کو پاکستان میںمزید میچ کھیلنے کی اجازت ملی۔ایم سی سی کی ٹیم کے انگلینڈ واپسی پر انگلش کھلاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی اور ڈونلڈ کار کو ہمیشہ کے لیے ٹیم سےباہر کر دیا گیا۔

کمار دھرما سینا
سری لنکن امپائر کمار دھرما سینا بھی متنازع فیصلوں کی وجہ سے معروف ہیں۔۔غلط فیصلو کی وجہ سے ایک مرتبہ ان کے امپئرنگ کیریئر کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ اکتوبر2016میںنےانہوں نے برطانوی کرکٹ ٹیم کے بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر پہلےچٹاگانگ ٹیسٹ میں غلط فیصلوں کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس میچ کی پہلی اننگز میں دس ریویوز بھی ریکارڈ تھے جنہوں نے ٹی وی امپائر ایس روی کو مسلسل مصروف رکھا جو جنوری 2014کے دبئی ٹیسٹ میں بھی امپائر تھے جہاں پاکستان کے خلاف سری لنکن اننگز میں آٹھ ریویوز لئے گئے تھے ۔ چٹاگانگ ٹیسٹ کے26 میں سے 16 ریویوز دھرماسینا کے فیصلوں پر تھے جن میں سے آٹھ کو تبدیل کرنا پڑا۔2013میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان مانچسٹر ٹیسٹ کے دوران وہ تھرڈ امپائر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ پاکستان کی بیٹنگ کے دوران عثمان خواجہ کریز پر تھے جب کہ گریم سوان بالنگ کرارہے تھے۔ خواجہ نے ان کی ایک گیند کو کھیلنے کی کوشش کی جو ان کے بیٹ کو چھوئے بغیر فیلڈر کے ہاتھ میں گئی، امپائرنےبرطانوی فیلڈرز کی اپیل پر انہیں آؤٹ قرار دے دیا۔ عثمان خواجہ نے تھرڈ امپائر دھرماسین سے رجوع کیا۔ ری پلے میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ گیند خواجہ کے بیٹ سے قدرے فاصلے سے گزر کر فیلڈر کے ہاتھ میں گئی ہے، ڈی آر ایس کے شواہد بھی بیٹسمین کے حق میں تھے، لیکن تھرڈ امپائر نے فیلڈ امپائر کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے عثمان خواجہ کو آؤٹ دے دیا۔


 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.