راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے معروف شعیب اختر کی تیز
گیندوں کی زد میں آکربے شمار بیٹس مین زخمی ہوئے
سرفراز نواز کے باؤنسرزسے ہراساں ہوکر بھارتی ٹیم میچ چھوڑ کر چلی گئی،
بورے والا ایکسپریس کی ’’بنانا ‘‘ سونئگ سے بلے باز پریشان رہتے تھے
کرکٹ کے کھیل میں فاسٹ بالرز ہمیشہ سے ہی بلے بازوں کے لیے خوف و دہشت کی
علامت بنے رہے ہیں۔ موجود دور میںبالرز کے لیے نئے قوانین بننے کے بعد
خطرناک بالرز کی خاصی حد تک حوصلہ شکنی ہوگئی ہےجب کہ بیٹس مینوں کو بیٹنگ
کے لیے حفاظتی سازو سامان نےمہلک زحم لگنے سے محفوظ بنا دیا ہے۔ کرکٹ کے
قوانین کے مطابق ایک اوور میں دو سے زیادہ باؤنسر نہیں پھینکے جا سکتے
جبکہ بیمر (فل ٹاس بال جو بلے باز کے سر کا نشانہ لے کر پھینکی گئی ہو) کو
نو بال قرار دے دیا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی تک کرکٹ کے میدان فاسٹ بالرز کے
لیے میدان جنگ ہوا کرتے تھے۔کرکٹ کی 129سالہ تاریخ میں، فاسٹ بالرز کی تیز
گینداور باؤنسرز لگنے سے درجنوں بیٹسمین زخمی ہوچکے ہیں جب کہ کئی بلے
بازوں کی اموات بھی ہوچکی ہیں۔ویسٹ انڈیز کو اس زمانے میں خطرناک بالز کی
سرزمین سمجھا جاتا تھا لیکن پاکستان میں بھی ایسے فاسٹ بالر تھے جو میچ کا
پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ویسٹ انڈیز کےرائے گلگرسٹ، مائیکل
ہولڈنگ، میلکم مارشل، آسٹریلیا کےڈینس للی، جیف تھامسن ،پاکستان کے شعیب
اختر،سرفراز نواز، وقار یونس، دنیا بھر کے بلے بازوں کے لیے خوف و دہشت کی
علامت تھے۔ پاکستان کے چار ایسے ہی فاسٹ بالز کا تذکرہ ذیل میں نذر قارئین
ہے، جنہوں نے اپنی تیز اور باؤنس گیندوں اور ریورس و بنانا سوئنگ سے
بیٹسمینوں کو ہراساں کیے رکھا۔
شعیب اختر
راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے معروف شعیب اختر نے فرسٹ کلاس کرکٹ کی ابتدا
1994 کے سیزن میںڈومیسٹک کرکٹ سے کی جب کہ انٹرنیشنل کیریئر کا
آغاز1997میںویسٹ انڈیز، پہلا ایک روزہ میچ 1998 میں زمبابوے او ر2006میں
برطانیہ کے خلاف پہلے ٹی۔ٹوئنٹی میچ میں حصہ لے کر کیا۔ ان کا شمار دنیا کے
خطرناک ترین بالر زمیں کیا جاتا ہے، جن کے خوف ناک باؤنسرز اور تیز رفتار
گیندوں سے بیٹسمین جب تک کریز پرہوتے تھے، خوف زدہ رہتے تھے اور ان کی
خواہش ہوتی تھی کہ وہ شعیب کی بالنگ کے دوران بیٹنگ اینڈ پر نہ ہوں۔زیادہ
تر ٹیل اینڈرز اور بالرزجن میں بھارت کے معروف بالرز اسیش نہرا اور سری
لنکا کے مرلی دھرن بھی شامل ہیں، شعیب کی بالنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے
گھبراتے تھے۔ مرلی دھرن کا کہنا تھا کہ شعیب کی بال کھیلتے وقت انہیں اس
بات کادھڑکا رہتا تھا کہ کہیں ان کی پھینکی گئی گیند سے ان کی انگلیاں ٹوٹ
کر بالنگ کرانے سے لاچار نہ ہوجائیں ۔جس دور میں وہ دنیا کے مایہ ناز بلے
بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب بنے ہوئے تھے، اسی زمانے میں انہوں نے تیز رفتار
گیند کرانے کے متعدد ریکارڈ بھی قائم کیے ۔ انہیں کرکٹ کے ناقدین نے
’’فائرنگ بلٹس ‘‘ کا خطاب دیا تھا کیوں کہ ان کی طرف سے پھینکی جانے والی
گیند، بندوق کی گولی کی رفتار سے بیٹسمین کی جانب آتی تھی۔ وہ کرکٹ کی
تاریخ کے ایسے بالر تھے جنہوں نے متعدد مرتبہ سو میل فی گھنٹہ سے زائد کی
رفتار سے بالنگ کرانے کے ریکارڈ قائم کیے۔انہوں نے کرکٹ کیریئرکے 13برسوں
کے دوران دنیا کی مختلف ٹیموں کے 19بیٹسمینوں کو اپنی ہلاکت خیز بالنگ سے
زخمی کیا، جن میں بھارتی ٹیم کےسابق کپتان سارو گنگولی بھی شامل ہیں۔ اپنی
برق رفتار بالنگ کے متعدد عالمی ریکارڈ بھی قائم کیے، جن میں سے کئی ناقابل
شکست ہیں۔ انہوں نے ابتدا ہی سے خود کو ایک جارح مزاج فاسٹ بالر کی حیثیت
سے منوایا۔ پاکستان کی جانب سے کھیلے جانے والے بے شمار میچ ایسے ہیں جن کی
جیت میںشعیب اختر کی بالنگ نے اہم کردار ادا کیا۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف نومبر 1997 میںپہلے ہی میچ میں اپنی برق رفتاربالنگ
سےشعیب نے کرکٹ کے بین الاقوامی حلقوں کو حیران کردیا تھا۔ ان کی مقبولیت
کا آغاز 1999میں شارجہ میں پری ورلڈ کپ سیریز میں بھارت کے خلاف ان کی
شاندار کارکردگی سے ہوا۔ اسی سال انہوں نے کلکتہ میں کھیلی جانے والی ایشین
ٹیسٹ چیمپئن شپ کے میچ کی ایک اننگ میں آٹھ بھارتی بیٹسمینوں کو آؤٹ
کیا۔ اس میچ میں صرف دو گیندوں پر راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکرجیسے سپر
اسٹاربلے بازوں کی وکٹیں لے کر تہلکہ مچا دیا۔2003کے عالمی کپ کے دوران
انہوں نے کرکٹ کی تاریخ کی تیزرفتار بالنگ کا مظاہرہ کیا اوربرطانیہ کے
خلاف میچ میں بالنگ کراتے ہوئے انہوں نے ایک گیند161.3کلومیٹر فی گھنٹے کی
رفتار سے کرائی۔
2003میں جنوبی افریقن ٹیم جب پاکستان کے دورے پر آئی تو اس زمانے میں شعیب
اختر کے مہلک باؤنسرز کا شہرہ تھا۔ ایک میچ کے دورا ن جب جنوبی افریقن
بیٹس مین گیری کرسٹن بیٹنگ کررہے تھے، راولپنڈی ایکسپریس نے تیر رفتار گیند
کراتے ہوئے ایک سپر فاسٹ باؤنسر ان کی طرف پھینکاجو ان کے چہرے پر جاکر
لگا۔ کرسٹن زمین پر گر گئے۔ انہیں اسپتال لے جایا گیاجہاں ان کے چہرے پر دس
ٹانکےلگے۔ گیند لگنے سے ان کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جب کہ آنکھ کو بھی
نقصان پہنچا تھا۔2004میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا دوسرا سیمی فائنل
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان منعقد ہوا۔ ویسٹ انڈیزکے خلاف بالنگ کے
دوران ویسٹ انڈیز کے ریکارڈ ساز بلے باز برائن لارا بیٹنگ کررہے تھے۔ شعیب
اختر کی بالنگ کے دوران ایک تیز گیند ان کی گردن پر لگی جس سے وہ زمین پر
گر گئے۔ اختر دوڑ کر ان کے پاس پہنچے لیکن وہ بے ہوش ہوچکے تھے ،لارا کو
فوری طور سے اسپتال پہنچایا گیا۔
2005 میں برطانیہ کے دورے کے دوران انہوں نےبیٹنگ وکٹوںپربھی بہترین بالنگ
کا مظاہرہ کیا۔ اپنی تیز لیکن نپی تلی بالنگ سے شعیب نے سیریز میں سب سے
زیادہ سترہ (17) وکٹیں حاصل کیں۔شعیب اختر دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں جو سو
میل فی گھنٹہ (100) سے زائد کی رفتار سے بالنگ کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ
کارنامہ برطانیہ کے خلاف 2003 کے عالمی کپ کے دوران انجام دیا۔ شعیب اختر
نے ایک گیند 100.2 میل فی گھنٹہ (161.4 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے
پھینکی۔ جو آج تک کرائی جانے والی سب سے تیز ترین گیند ہے۔اس کے علاوہ بھی
ان کی تیز رفتار بالنگ کے متعدد ریکارڈ ، آئی سی سی کی ریکارڈ بک میں
محفوظ ہیں، جن میں سے 2002میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز جب کہ اسی سال تین
مرتبہ سری لنکا کے خلاف ایک ہی میچ میں قائم کیے ۔1999 میں ان کی بالنگ
ایکشن پر اعتراضات بھی ہوئے۔ سب سے پہلاتنازع آسٹریلیا میںاس وقت شروع ہوا
جب امپائر ڈیرل ہیئر اور پیٹر ویلی نے ان کے گیند بازی کےاندازپر اعتراض
کیالیکن بعد میں آئی سی سی نےانہیں کلیئر کردیا ۔2001 میں امپائر اسٹیو
ڈن اور ڈگ کوئی نے شعیب اختر کےبالنگ ایکشن پر دوبارہ اعتراض کیا۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ان کے ایکشن پر اسٹڈی اور جانچ پڑتال
کے بعد ان کی بازو میں خم کی وجہ سے بالنگ ایکشن کودرست قرار دیا گیا۔
دنیا کے بہترین بلے بازوں نے ان کی بالنگ پر مختلف انداز میں تبصرے کیے
ہیں۔ بھارت ٹیم کے سابق کپتان مہندر اسنگھ دھونی کا کہنا ہے کہ انہوں نے
اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران شعیب اختر جیسا خطرناک بولر نہیں دیکھا، پتا ہی
نہیں چلتا تھا وہ کب اور کس اندازسے گیند کرائیں گے مگر دل چسپ بات یہ ہے
کہ ان کی تیز رفتار گیندوں کو کھیلنے میں بھی مزا آتا تھا۔ آسٹریلیا کے
سابق کپتان رکی پونٹگ نے انہیں جارح مزاج بالر قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ
وہ انہیںانتہائی غصہ ور گیند باز سمجھتے ہیں، جس کی جھلک ان کے گیند
پھینکنے کے انداز میں نظر آتی تھی۔ ویسٹ انڈیز کے لیجنڈکرکٹر،برائن لارا
ان کے مہلک باؤنسرز کے بارے میں کہتے ہیں کہ شعیب اختردنیا کے واحد فاسٹ
بالر تھے، جن کا سامنا کرتے ہوئے وہ خوف کا شکار رہتے تھے۔ جنوبی افریقہ کے
سابق بیٹسمین اور بھارتی ٹیم میں کوچ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ،
گیری کرسٹن جنہوں نےشعیب کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد کرکٹ کو خیرباد کہہ
دیا، ان کی بالنگ پر اپنے تبصرے میںکہتے ہیں کہ ’’ میں شعیب کی فاسٹ بالنگ
کو نئی جہت دینے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، راولپنڈی ایکسپریس کے
نام سے معروف شعیب اختر درحقیقت کرکٹ کے افسانوی بالرہیں‘‘۔
کاؤنٹی کرکٹ میں بھی ان کا ریکارڈ شاندار رہا۔ 2003میں انہوں نےبرطانیہ کی
قومی لیگ میں وورسیسٹر شائر کی جانب سے کھیلتے ہوئے گلیمورگن کے چھ بلے
بازوں کو آؤٹ کیا۔ آئی پی ایل کا بھی حصہ رہے ہیں اور اس میں بھی ان کی
کارکردگی انتہائی نمایاں رہی ہے۔ آئی پی ایل کے ایک میچ میں کلکتہ نائٹ
رائیڈرز کی جانب سے’’ دہلی ڈیرے ڈیولز ‘‘کے خلاف بالنگ کرتے ہوئے ایک میچ
میں انہوں نے صرف 11رنز پر چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
جارحانہ مزاج کھلاڑی ہونے کی وجہ سے مختلف تنازعات کا شکار رہے ہیں، جس کے
بعد 2007میں وہ ٹیسٹ ،2010اور 2011میںٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ کرکٹ سے
ریٹائر ہوگئے۔اپنے کرکٹ کیریئرکے دوران انہوں 46بین الاقومی ٹیسٹ میچز میں
178،163یک روزہ میچز میں 246جب کہ 15ٹی ٹوئننٹی میچز میں 19وکٹیں حاصل کی
ہیں۔ان دنوں وہ ایک ٹی وی چینل پرساتھی کرکٹر وسیم اکرم کے ساتھ شو کررہے
ہیں۔
فضل محمود
فضل محمودپاکستان کرکٹ کے ابتدئی دور میں پاکستان کےریکارڈ ساز فاسٹ بالر
تھے، اور ان کی تیز بالنگ سے مخالف بیٹسمین خائف رہتے تھے۔انہوں نے اپنے
فرسٹ کلاس کرکٹ کیرئیر کا آغاز1944میں صرف 17سال کی عمر میں شمالی ہند کی
ٹیم کی جانب سے رانجی ٹرافی میں کھیل کر کیا۔پہلے ہی میچ میں بھارتی کرکٹ
ٹیم کے آل راؤنڈر، لالہ امرناتھ کی وکٹ حاصل کی۔ دوسرے میچ میں’’ ریسٹ
آف انڈیا‘‘ کے خلاف بالنگ کراتے ہوئےانہوں نے سات وکٹیں حاصل کیں۔
1947-48میں آسٹریلیا کے دورے کے لیے انہیں بھارتی ٹیم میں شامل کیا گیا
لیکن انہی دنوں پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا تو انہوں نے پاکستان کو
ترجیح دیتے ہوئے بھارتی ٹیم میں شمولیت سے معذرت کرلی۔پاکستان بننے کے بعد
جب نئی مملکت میں کھیلوں کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تو انہوں نے دسمبر
1947میں پہلا فرسٹ کلاس میچ پنجاب الیون کی جانب سے سند ھ کے خلاف کھیلا
اور اس میں چھ وکٹیں حاصل کیں۔ 1948 میں پاکستانی ٹیم نے سیلون (سری لنکا)
کا دورہ کیا جس کے چار میچوں میں فضل محمود نے 20وکٹیں حاصل کیں۔1952میں
آئی سی سی کی جانب سے ٹیسٹ اسٹیٹس ملنے کے بعد پہلی بارپاکستان کرکٹ ٹیم
نے بھارت کا دورہ کیا اور لکھنؤ ٹیسٹ میں فضل محمود نےپہلی اننگ میں پانچ
جب کہ دوسری میں سات وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈقائم کیا۔ 1954-55میں بھارتی
کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا جوابی دورہ کیاپاکستان کے دورے پر آئی تو وہ چار
میچوں میں 15وکٹیں حاصل کرکے نمایاں بالر رہے۔1956میں کراچی ٹیسٹ میں
آسٹریلوی ٹیم کے خلاف باؤنس گیندیں کراتے ہوئے انہوں نے تیرہ وکٹیں حاصل
کیں۔
فضل محمود پاکستان کے پہلے بالر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں چار
مختلف ممالک کے خلاف کھیلتے ہوئے 12سے زائد وکٹیں لیں جب کہ صرف 22ٹیسٹ
میچوں میں سو وکٹیں لینے والے وہ پاکستان کے پہلے بالر بن گئے جب کہ 34ٹیسٹ
میچوں میں انہوں نے 139اور 112فرسٹ کلاس میچوں میں 466وکٹیں لیں۔1962میں
انہوں نے برطانیہ کے خلاف اپنا آخری ٹیسٹ میچ کھیلا۔ کرزکٹ سے ریٹائرمنٹ
کے بعد وہ پولیس میں خدمات انجام دیتے رہے اور 1976میں انہوں نے ڈی آئی جی
پولیس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 30مئی 2005میں وہ دل کا دورہ پڑنے سے
انتقال کرگئے۔ ان کے ساتھی کرکٹر امتیاز احمد کی ان کے بارے میں رائے تھی
کہ وہ اُس دور کے ذہین بالر تھے، جن کی لائن اور لینتھ لاجواب ہوتی تھی جب
کہ لٹل ماسٹرحنیف محمد کا کہناتھاکہ’’پاکستانی ٹیم کے ابتدائی سالوںمیں
پاکستان ٹیم کی تما م فتوحات میں فضل محمود کردار بہت اہم رہا ہے ۔ برطانیہ
میں ان کی کارکردگی دیکھ کر کرکٹ مبصرین نے انہیں ’’اوول کے ہیرو‘‘ کا خطاب
دیا۔
سرفراز نواز
1969میں انگلینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ سے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز کرنے
والے سرفرازقومی ٹیم کے جارح بالر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جن کے
باؤنسرز سے گھبراکر ایک مرتبہ بھارتی ٹیم میدان چھوڑ گئی تھی جب کہ دوسری
مرتبہ ایک برطانوی بیٹسمین ، وکٹ چھوڑکر چلے گئے تھے۔ انہیں ریورس سوئنگ کے
موجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ابتدائی میچوں میں پنی بالنگ کی خامیوںکی
اصلاح کرتے ہوئے انہیں معلوم ہوا اگر گیند کو ایک طرف سے کھردرا کردیا جائے
او دوسری سائیڈ کوکورا رکھیں تو بلے باز کے لیے گیند کھیلنا ناممکن ہو جائے
گا۔گیند کے دو حصوں میں جتنا زیادہ فرق ہو گا، اتنے ہی کم وزن اور زیادہ
رفتار کے ساتھ گیند سفر کرتی ہوئی ہوا میں بے پناہ سوئنگ ہو گی۔سرفرازکو یہ
بات معلوم تھی کہ وہ فاسٹ باؤلنگ کے فن میں نئی جدت پیدا کررہے ہیں۔ ابتدا
میں انہوں نے یہ فن ملک میں محدود رکھا ، بعد میں اس سے وسیم اکرم اور وقار
یونس مستفید ہوئے جو بعد میں ریورس سوئنگ کے بے تاج بادشاہ بنے جب کہ وسیم
اکرم سوئنگ کے سلطان کے طور پر کرکٹ کی دنیا میں مشہور ہوئے۔ 1979 جب
پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر گئی تو میلبورن ٹیسٹ کے پانچویں دن کھیل
کی چوتھی اننگز میں تاریخی 381 رنز کے تعاقب میں آسٹریلوی ٹیم تین وکٹوں
کے نقصان پر 305 رنز بنا چکی تھی اوراسے فتح کے لیے صرف 77رنز درکار تھے جب
کہ اس کی سات وکٹیں باقی تھیں۔ اس موقع پر سرفراز نواز نے باؤنس بالنگ
کراکے صرف ایک رن کے عوض گینگروز ٹیم کے سات کھلاڑی آؤٹ کرکے اسے فتح سے
محروم کردیا۔ ساڑھے چھ فٹ قامت کے سرفراز توانا گھوڑے کی رفتار سے بھاگتے
ہوئے آتے اور خوفناک حد تک گیندر کراتے جس کا سامنا کرنے سے مخالف بیٹسمین
گھبراتے تھے۔ اسی دورے کے ایک اور میچ میں انہوں نے 86رنز کے عوض 9وکٹیں
حاصل کرنے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔
1978 میں بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ ایک روزہ میچوں کی
سیریز کے فیصلہ کن میچ کے لیے ساہیوال میںپاکستان نے حریف ٹیم کو 40 اوورز
میں 205 رنز کا ہدف دیا۔ جواب میں اس نے 2 وکٹوں کے نقصان پر 183 رنز بنا
لیے تھے۔ انہیں آخری 3 اوورز میں 23 رنز درکار تھے۔ مشتاق محمد نے اس موقع
پر عمران خان اور سرفراز نوازکی صورت میںاپنے فاسٹ بالنگ اٹیک کو استعمال
کیا، جس نے مخالف بلے بازوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا۔ سرفراز نے 78
رنز پر بیٹنگ کرنے والے انشومان گائیکواڈ کو گیند کرانے کے لیے بھاگنا شروع
کیا۔یہ گیند شارٹ تھی اور گائیکواڈ کے سر کے کافی اوپر سے گزرتے ہوئے سیدھی
وسیم باری کے دستانوں میں محفوظ ہو گئی۔ تمام نظریں پاکستانی امپائرز جاوید
اختر اور خضر حیات پر مرکوز تھیں جو اپنی اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں۔سرفراز
نے اگلی تین گیندیں اسی طرح باؤنس کرائیں۔ بھارتی ٹیم کے کپتان کپتان بشن
سنگھ بیدی نے پہلے اس کی شکایت ایمپائر اور پاکستانی کپتان سے کی لیکن جب
کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو وہ ڈریسنگ روم سے اٹھ کرگراؤنڈ میں آئے اور شدید
غصے کے عالم میںاپنے بلے بازوں کوپویلین وپس بلا لیا۔یہ کرکٹ کی تاریخ کا
پہلا ایک روزہ انٹرنیشنل میچ تھا، جس میں کسی ٹیم نےتیز گیندوںسے خوف زدہ
ہوکر شکست تسلیم کرلی اورجیت فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کے نام سے ہوگئی ۔سرفراز
نواز نے 15سالہ کرکٹ کیریئر کے دوران 55ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں 177وکٹیں
حاصل کیں جب کہ 45ایک روزہ میچوںمیں 63اور 299فرسٹ کلاس میچوں میں
1005وکٹیں حاصل کیں۔ 1984میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعدسےسیاسست میں ہیں ۔
وقار یونس
فاسٹ بالروقار یونس کو90 کی دہائی میں بیٹسمینوں کے لئے خوف ودہشت کی علامت
سمجھا جاتا تھا۔ ان کے تیز یارکرزکا دنیا کےمستند بیٹسمینوں کے پاس بھی
کوئی توڑ نہ تھا۔ ان کے مہلک باؤنسرز سےگھبرا کر بیٹسمین جلد ہی پویلین
لوٹ جایا کرتے تھے۔2000میں ہیڈنگلےٹیسٹ کے دوران ایلک اسٹیوارٹ ، وقارکی
باؤنسی گیندوں سے گھبرا کرپچ چھوڑ کر پویلین وپس چلےگئے تھے۔تیز ترین
بالنگ کے سبب وقار یونس کو’’ بورے والا ایکسپریس ‘‘ اور ’’وکی‘‘کا نام دیا
گیا تھا۔90کی دہائی میں کرکٹ ماہرین کے نزدیک ریورس سوئنگ، فاسٹ بالنگ کی
انوکھی جہت تھی۔ 1992میںانگلش ٹیم کے ساتھ میچ کے دوران برطانوی اخبارات نے
وقار کے بالنگ ایکشن پر تحفظات کا اظہار کیا جب کہ نقادوں نے اسے ’فاؤل
پلے‘‘ قرار دیا۔ آئی سی سی حکام نے ان کے بالنگ ایکشن کا تجزیہ کرایا جس
میںفاؤل پلے ائنگ کے شواہد نہیں ملے جس کے بعد ریورس سوئنگ کو بالنگ کی
جدید تیکنک کے طور پر منظور کرلیا گیا۔آج زیادہ تر فاسٹ بالرز نے ریورس
سوئنگ کے فن کو اپنی بالنگ کا حصہ بنالیا ہے لیکن وقار یونس کا ایک انداز
آج بھی ان کی دست برد سے محفوظ ہے۔کرکٹ ماہرین نےاسے ’’بنانا سوئنگ ‘‘ کا
نام دیا تھا، انہوں نے اپنی اس تیکنک کو بروئے کار لا کر متعدد مرتبہ وکٹوں
کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ وکٹوں کی دو مرتبہ ہیٹ ٹرک
بنانے والے لیستھ ملنگا کا کہنا ہے کہ انہوں نے بالنگ کے دوران، مہلک یارکر
پھینکنے کافن وقار یونس سے سیکھا ہے۔
1987-88میںبہاولپور کےمقامی کلب کی طرف سے کھیلتے ہوئےانہوں نے فرسٹ کلاس
کرکٹ کا آغاز کیا۔1989میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ میچ سے انٹرنیشنل کرکٹ
کیریئر کی شروعات کیں اوراور پہلے ہی میچ میں انہوں نے سچن ٹنڈولکر اور کپل
دیوسمیت چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔وہ سرفراز نواز کی طرح پرانی گیند
کوسوئنگ کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔2003کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے ساتھ
افتتاحی میچ کے دوران انہوں نے آسٹریلین بلے باز ، اینڈیو سائمنڈ کو
’’بیمر‘‘ بال کرائی جس سے وہ زخمی ہوگئے۔ انضباطی کارروائی کرتے ہوئے انہیں
پاکستان کے بالنگ اٹیک سے علیحدہ کردیا گیا۔ وہ دنیا کے پہلے کرکٹر ہیں
جنہیں کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت وہ
ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ وقار یونس واحد بالر ہیں جنہوں نے بطور کپتان ،بالنگ
کراتے ہوئے36رنز کے عوض سات وکٹیںلینے کا کارنامہ انجام دیاہے۔انہوں نے
18سال کی عمر میں ایک روزہ میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کیں جب کہ تین مرتبہ
پانچ وکٹیںلینے کا کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ 1992ء میںانہیں وزڈن کرکٹر
آف دی ائیرکا ایوارڈ دیا گیا۔1989 سے2003 تک وقار یونس نے 87 ٹیسٹ اور 262
ون ڈے میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی، ٹیسٹ میں انہوں نے 373 اور ون ڈے
میں 416 وکٹیں حاصل کی ہیں۔انہوں نے اپریل2004ءمیں تمام طرزکی کرکٹ سے
ریٹائرمنٹ لے لی۔وہ پاکستان ٹیم کے بالنگ کوچ کے عہدے پر بھی فائزہوئے۔
2010ء سے 2012ء اور پھر 2014ء سے 2016ء کے درمیان پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ
بنائے گئے، جس سے وہ گزشتہ برس سبکدوش ہوئے ۔ انڈین پریمیئر لیگ کی
فرنچائزحیدرآباد سن رائزز میں 2013میں بہ طوربالنگ کوچ کی خدمات انجام دے
چکے ہیں۔ ستمبر2017میںانہیںاسلام آباد یونائیٹڈ میں پی ایس ایل 2018کے
لیےبالنگ کوچ اور ڈائریکٹر کرکٹ کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔
|