وقت کا پہیہ چلتا رہا زمانہ دن
بدن بگڑتا رہا ، انسان انسان کو دشمن بنتا رہا ایسے میں قانون کوڑیوں میں
بکتا رہا،تعجب ہے کہ قلعہ اسلام ہے پاکستان، پھر بھی نہیں ہے اس میں اسلام،
تقریر و بیان کے ہیں ماہر یہاں ، کوئی اپنانا نہیں چاہتا عمل صالحہ یہاں،
پھر کیوں کر ہو امن و شانتی کا سماں ، عوام و حکمراں بھٹکے ہوئے ہیں یہاں
۔۔۔۔۔آج میں اپنے کالم میں اپنے قلم کو اُس ظلم و زیادتی کی طرف لے جارہا
ہوں جہاں شیطان مردود انتہائی خوشی و مسرت میں نظر آرہا ہے اور تعجب میں رہ
کر چپکے سے میرے کان میں کہا اے قلم کار تیرا پاکستان تو میرے دیس سے بھی
بد تر ہو رہا ہے جو میں چاہتا ہوں اس سے کہیں زیادہ کر دکھاتے ہیں ، میں نے
کبھی بھی اللہ کے وجود اور اس کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی وہ انسان
جو میرے مد مقابل لاکھڑا کردیا تھا میں نے انسان سے جھگڑا کیا ہے اور اُس
کی سزا لا فناہی ملی ہے لیکن وہ رب جو انسان اور اپنے بندوں پر ناز کرتا ہے
اور بار بار کوتاہی پر معاف بھی کردیاتا ہے لیکن انسان ہے کہ حیوان و شیطان
سے بھی گرتا جارہا ہے، اے کالم کار میں نے تمہارے وطن پاکستان میں اسلام ،
انسانیت کو روندتے ، ذلیل و خوار اور بار بار مرتے ہوئے دیکھا ہے پوری دنیا
میں میرے چیلے کہیں اور کا ایسا ذکر نہیں کرتے پھر شیطان نے مجھ سے کہا اے
کالم کار یاد رکھ گر یہ قوم اسی طرح عمل کرتی رہی تو یہ سب میرے ہیں اور
رہیں گے مگر میں انہیں اللہ کے عذاب سے ہر گز نہ بچا سکوں گا کیونکہ میں
ابلیس ہوں، شیطان ہوں ، مردود ہوں یہ تیرے وطن کے لوگ جانتے بوجھتے میرے
احکامات پر چل پڑے ہیں تو میں کیا کروں، یہاں جس قدر بربریت ہورہی ہے تو
میں کیا کروں، قانون کے رکھوالے شراب و شباب میں مست ہیں اور اختیارات کا
ناجائز استعمال کررہے ہیں تو میں کیا کروں، سیاستدان عوام کی لاشوں کے
انبار سجائیں تو میں کیا کروں، تاجر ملاوٹ ، جھوٹ ناپ میں ڈنڈی کا استعمال
کریں تو میں کیا کروں، اے کالم کار تیرے وطن میں تو مجھے ہر شخص قصور وار
دکھائی دیتا ہے کوئی اپنے آپ کو صحیح سمت میں عمل کرنے پر تیار نہیں اور
دوسروں پر نقطہ چینی کیئے جائے تو میں کیا کروں۔۔۔۔ شیطان کی ان باتوں کا
واقعی میرے پاس جواب نہ تھا کیونکہ وہ تمام تر حقیقی عکس پیش کررہا تھا
ابھی میری گفتگو ختم ہی ہوئی تھی کہ ایک خبر نے میری آنکھوں سے آنسو کے
بجائے خون نکال دیئے میں انسان کی اس وحشیانہ حرکت پر بے انتہا رویا اور
خوف خدا سے بڑا ڈرا کہ شائد اب آجائے اب آجائے زلزلہ یا عذاب الٰہی ،
پاکستان میں آئے روز پیدا ہونے والے واقعات ہماری بے حسی، اسلام سے دوری،
منافقت، ریاکاری، سنگدلی، بے ایمانی، جھوٹ کی فراوانی، دھوکا دہی، جنسی
وحشت اور دیگر تمام انبیاءکرام کے قوموں کی خامیاں بھری پڑی ہیں جبکہ ایک
خامی پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے پوری قوم کو نیست و نابود کر ڈالا تھا ،اللہ
کے غضب کو آئے روز دعوت دیتے ہیں خود کو بہت مضبوط اور طاقتور سمجھتے ہیں
اسی لیئے بے دریغ وطن پاکستان میں ہر برائی بڑی بے باکی سے ادا کی جارہی ہے
۔۔۔۔ خبر حقیقت پر مبنی ہے اور تمام شواہد ہونے کے باوجود پولیس اہلکار کی
جنسی وحشت پر حکومت وقت، عدالت عظمیٰ اور پیٹی بھائی ایسے وحشیوں کو سزا
دیتے وقت ہاتھ کیوں روک لیتے ہیں ؟؟؟ کیا اختیارات کے بے جا استعمال یونہی
سرے عام کیا جاتا رہے گا کب تک اقتدار حکومت، افران انتظامیہ اور عدلیہ ظلم
و تشدد پر آنکھیں، کان اور زبان بند کیئے رہیں گے کیا عذاب کے متمنی ہیں کہ
ان سب پر قدرت کا عذاب آپہنچے ۔۔۔۔۔۔۔خبر زیر پیش ہے ۔۔۔۔غربت انسان کو کئی
مسائل سے دوچار کر دیتی ہے ۔غریب خود تو زندگی کے عتاب بھگتا ہی لیکن اس کے
بچے بھی اس روش سے محفوظ نہیں رہ سکتے دیکھا جائے تو چند روپوں کی کھانے
پینے کی چیز اس معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی لیکن چند روپوں کی کھانے
پینے کی اشیاء نے ایک معصوم بچی کی عزت آبرو پاش پاش کردی جب کسی کی جان و
مال کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے قانون کا سہارہ لیا جاتا ہے
لیکن قانون کے محافظ ہی اگر غربت کی چکی میں پسنے والے افراد کی عزت و آبرو
کو چاک کر دیں تو اس معاشرے میں ان نادار افراد کے جینے کا کوئی حق بھی
باقی نہیں رہتا ۔ایسا ہی ایک واقع ضلع گھوٹکی کے شہر اوباڑو میں پیش آیا ۔
جہاں ایک معصوم گونگی بہری بچی کی عزت چند روپوں کی چیز کی خاطر ایک قانون
کے محافظ نے بے آبرو کردی۔اوباوڑو کی مسلم کالونی کا رہائشی منظور احمد چنہ
پیشہ کے لحاظ سے ایک ہوٹل پر ملازمت ( بہراہ گیری ) کرتا ہے ۔ ا س کے چار
بچے ہیں جس میں اسکی 12سالہ معصوم بچی شیبا بھی شامل ہے جوکہ پیدائشی ذہنی
معذور ۔الفاظ ۔اور سماعتوں سے محروم ہے ۔نہ بول سکتی ہے نہ سن سکتی ہے ۔
12سالہ معصوم بچی شیبا گھر میں رہے تو ٹھیک ورنہ اڑوس پڑوس میں نکل جاتی ہے
۔تقریباً پچیس روزقبل دوپہر کے وقت شیبا چنہ معمول کے مطابق اپنے گلی محلے
کے بچوں سے گلی میں کھیلنے میں مشغول تھی کہ اوباڑو تھانہ کا ایک پولیس
اہلکار۔قانون کا رکھوالہ۔عزتوں کا محافظ خادم فاروقی گلی سے گزرا اور اسکی
نظر معصوم شیبا پر پڑی تواس کے اندر موجود وحشی انسان نے اسے شیطانی روپ
دھارنے پر مجبور کیا۔اور اس نے 12 سالہ معصوم بچی شیبا کو اپنی طرف ُبلایا
اور کہا کہ چلو میں تمہیں کھانے پینے کی اشیاءلیکر دیتا ہوں یہ معصوم بچی
اس مکاری کوسمجھ نہ سکی اور پولیس اہلکار خادم فاروقی معصوم بچی کو شہر کے
قریب( سونن کینال) کے قریب لے گیا اور کھیتوں میںلیجا کراس کو ایک کپڑے سے
ہاتھ ،پاﺅں اور منہ کو باندھ دیا اور اس کی عزت سے کھیلتا رہا ۔معصوم شیبا
اس کی درندگی کا شکار دو گھنٹے تک ہوتی رہی۔وہ چیخ پکار نہیں کر سکتی تھی
اس لیے کہ وہ محروم تھی سماعتوں سے اور چیخ پکار میں ساتھ دینے والی زبان
سے جس کا فائدہ وحشی صفت انسان نے حوس کی آگ بجھانے کے دوران لے رہا تھا۔
قریبی سڑکوں سے لوگ گزر رہے تھے ۔معمولات زندگی تیزی سے چل رہی تھی ۔ لیکن
کوئی نہ تھا اس معصوم کو بچانے والا ۔ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد معصوم شیبا
کہیں نظر نہ آئی تو اس کے ورثاءپریشانی سے دوچار ہوکر اسے ڈھونڈنے لگے شہر
کی گلیوں میں نظر یں دوڑاتے رہے لیکن کہیں پر بھی نہ تھی معصوم شیبا کو کون
لے گیا ہے والدین بچی کی اچانک گمشدگی سے بہت پریشان تھے کہ گلی میں موجود
بچوں نے نشاندہی کی کہ شیبا کو ایک پولیس اہلکار اسے موٹر سائیکل پر لے گیا
ہے۔ خادم فاروقی چونکہ اس محلے سے تعلق رکھتا تھا تو کچھ بچوں کے اشارے ان
کی طرف جا رہے تھے۔بچوں کی نشاندھی پر شیبا کے والدین چل دیئے اپنی معصوم
لخت جگر کو ڈھونڈنے کے لیے ریتی روڈ پراور انہیں شک ہواءبچی کے پیروں کے
نشانات کنارے گھومتے اور شیبا کو ڈھونڈتے اس کے ورثاءپہنچے سونن کینال پر
تو قریب ہی کھیتوں میں شیبا کی عزت وحشی خادم فاروقی کے ہاتھوں پاش پاش
ہوتے ہوئے دیکھی ۔ محلے میں شیبا کو سبھی ہی جانتے تھے اس لیے اس کی گمشدگی
کی اطلاع پر درجنوں اہل محلہ بھی اسے ڈھونڈ رہے تھے اور وہ بھی پہنچے سونن
کینال پر اور شیبا کی عزت سے کھیلنے والے وحشی پولیس اہلکار خادم فاروقی
کوپکڑ لیا جوکہ معصوم بچی کی بے ہوشی کی حالت میں بھی اپنی شیطانیت کی حوس
پوری کرنے میں مصروف تھا اور پھر بچی کی والدہ ، ماموں اور بھائیوں نے اُسے
رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس تھانہ اوباوڑو لے گئے ۔ جہاں پر ڈی پی او گھوٹکی
پیر محمد شاہ نے یقین دلا یا کہ ملزم کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔۔ دوسری
جانب وحشی شیطان کے ہاتھوں لٹنے والی شیبا کو بے ہوشی کی حالت میں اوباوڑو
ہسپتال منتقل کیا گیا۔ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کے باعث اُسے ڈہرکی
ہسپتا ل بھیج دیا گیا۔لیکن وہاں پر مقرر لیڈی ڈاکٹر بھی تھی چھٹی پر۔اس طرح
حوا کی بیٹی علاج کے لیے تڑپتی رہی کافی کوشش کے بعد اسے تحصیل ہسپتال
گھوٹکی میں لایا گیا اور شروع ہوا اس کا علاج اور اس کے میڈیکل ٹیسٹ لیے
گئے بھیج دیئے گئے نمونے ۔اسی دوران معصوم بچی سخت عتاب بھگتی رہی ۔والدین
کی حالت زار تھی۔اپنے لخت جگر احساس محرومی ان کے اندر میں ڈال رہے تھے
گہرے زخم اورپولیس کی جانب سے تفتیش کا عمل جاری تھا ۔ ایک ہفتے کے بعد
معصوم شیبا کی میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق ظاہر ہوئی وحشی صفت انسان
کی درندگی کی ۔اس طرح خادم فاروقی کے بچنے کا کوئی چارہ نہ رہا ۔ اسے لاک
اپ اوباوڑو میں تو کردیا لیکن مزید پیش رفت نہیں کی ملزم نے مقامی رپورٹر
کو بتایا اپنی بے گناہی پر خود کو بچانے کے لیے التجائیں کی اور تمام واقعے
کو ذاتی دشمنی قرار دیا ہے اور جیل سے رہائی کی اپیل بھی کی ہے وحشی ملزم
خادم فاروقی نے بتایا کہ وہ جلد باہر آجائے گا کیونکہ اُس نے اپنے افسر
بالا کو منالیا ہے ۔شیبا کے والدین غربت کے جرم میں انصاف کے لیے مزید
دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اب مایوس ہوچکے ہیں انہیں یقین ہوچلا ہے کہ
اس ملک میں کہیں بھی غریب کیلئے انصاف نہیں ہے اور با اختیار لوگ جائز
کاموں کیلئے اپنے اختیارات کو استعمال کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں مسلسل
تھانے، عدالت کے چکر کاٹنے کے علاوہ کچھ حاسل نہیں ہوا بلکہ اب تو خاموش
رہنے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں ۔ بہت کوشش کے باوجود پولیس نے ظاہری خانہ
شماری تو کی لیکن ایف آئی آر کا عمل نہیں لایا ۔اس لیے معصوم بچی کے والد
منظور احمد چنہ نے فیصلہ چھوڑ دیا ہے عدالت کے رحم و کرم پر ان کی خاموشی
کے باعث خادم کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں علاقے کے وڈیرے۔اور محروم
رکھنا چاہتے ہیں شیبا کو انصاف سے اور محفوظ بنانا چاہتے ہیں وحشی ملزم
خادم فاروقی کو۔۔۔۔۔۔۔لمحہ فکریہ ہے کہ اگر قانون کے محافظ ۔کسی کو تحفظ
فراہم نہ کر سکیں ۔ان کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہ رہ سکے۔انسانیت سوز
عمل کی کوئی حد نہ رہے تو آخر اس معاشرے کا بے سہارا انسان کہاں جائیں گے ۔آخر
تحفظ اور انصاف انہیں کون فراہم کرے گا۔ کیا بااثر وڈیروں کی جانب سے بچی
کے والد کی زبان کو بند کرنے کے لیے دھمکیوں اور مسائل پیدا کرنے والے
پیغامات سے معصوم شیبا کی عزت واپس کرسکیں گے ؟ کیا انصاف کے منتظر یہ
خاندان شیباء کی زندگی برباد کرنے والے وحشی کو عبرتناک سزاء دلواسکیں گے ۔
یہ سب اعلیٰ افسران اور عدلیہ ہی جانتی ہے۔ |