”یہ لوگ دنیاوی زندگی میں
مگن ہیں حا لانکہ دنا کی زندگی آخرت کے مقابلے ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ
نہیں“(القران)اسی طرح سورہ ال عمران میں ارشادِباری تعا لٰی ہے کہ ” اور
دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے“
میں اور آپ جانتے ہیں کہ زندگی گلوبلائز ہو گئی ہے ٹیکنالوجی نے دنیا کو
کُوزے میں بند کر ڈالا ہے جہاں زندگی میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں اسی
نسبت سے انسان کی سوچ ،خواہشات اور ترجیحات میں بھی ردوبدل ہوا اور یہ فطری
اور مشینی ہے۔ہماری پہلی ترجیحی اونچا اسٹیٹس بن چکا ہے کل تک لوگ نیکی اور
انسان دوستی کو فوقیت دیتی تھے ۔آج میں اور آپ مانے یا نہ مانے اپنی ذات،
اپنی آسائشات کوترجیح دیتے ہیں اپنے سکون کی خاطر دوسروں کو بے آرام کرنے
کا عین حق سمجھتے ہیں،آگے بڑھ جانے کی لگن اب غبن کی صورت اختیار کر چکی ہے
ایک عام انسان سے لے کر وزیراعظم تک سبھی کرپٹ ہیں اور ہر بندہ اپنی جگہ پر
کرپشن کر رہا ہے کبھی اپنے فرائض سے کوتاہی کر کے تو کبھی کسی کے حق میں
کسی” اور“ کو شریک کر کےغبن عوام کا خزانہ لوٹنا ہی نہیں ہوتا یہ اپنی
استطاعت سے کم معاشرے کو آوٹ پٹ دینے کا نام بھی ہے یہ اس غفلت کا نام بھی
ہے جو ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کر رہے ہیں اس نئی چکا چوند زندگی نے جہاں
ہمیں سہولیات فراہم کی ہیں وہاں ہم سے تحفظ کا احساس چھین لیا ہے،ہم سے وہ
سب چھین لیا ہے جس کا ازالہ بھی نہیں!!ہم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی
چانس مِس نہ کر بیٹھیں،کوئی موقع نہ ہاتھ سے گنوادیں ہم اسیرِدنیاچند پل کے
لئے بھی اپنے دائمی نفع و نقصان کا نہیں سوچتے،ہم یہ نہیں سوچتے کہ تھوڑا
ساحاصل کرنے میں ہم اپنا ایمان ،اپنا قلبی سکون اپنے رشتے ناتے سب فراموش
کرتے چلے جا رہے ہیں۔ہم نے سچے جذبوں کی جگہ دوسرے سامانِ زندگی کی طرح
مصنوعی جذبے اپنا لیئے ہیں چونکہ مصنوعی چیز فیلنگز سے عاری ہوتی ہیں اسلئے
ہم بھی بے حس ہیں بے درد اور احساس کے ہر لفظ سے ناآشنا!
ہم میں سے ہر دوسرا شخص مادی کشمکش میں جی رہا ہے ہمارا ہر قدم دنیا کی طرف
اٹھتا ہے،دماغ لا متناہی حرص وہوس سے لبالب ہیںحلا ل حرام،جائز ناجائز ،نیکی
بدی کی تمیز نہیں بچی۔تقویٰ و پرہیز گاری درویشوں اور درگاہوں میںبھی خال
خال نظر آتی ہے۔رشوت ،سود،غبن،دھوکا دہی اور کمزوروں کا ناحق مال کھانا،ناپ
تول میں کمی کرنا اپنے کاروباری نفع کے لئے حلا ل حرام کا سبق کسی کو یاد
نہیں بس کاروبار پھلنا پھولنا چاہیے مارکیٹ میں شیئرز میں اضا فہ ہونا
چاہیئے جیسے بھی ہو ،جن ذرائع سے بھی ہو ،اس کی طرف سوچنا آج کے انسان نے
چھوڑ دیا ہے وہ ہر وقت دو جمع چار کرنے کا سوچتا ہے اور یہ خرابیاں خوبیوں
کا لبادہ پہنے ہماری زندگیوں میں بڑی اکڑی پھرتی ہیں ہم حیاتِ انسانی کو
دنیوی کسوٹی پر تولنے لگے ہیں جس میں آخرت کا دور دور تک کوئی حصہ نہیں ہے
حصہ ہوبھی کیسے ؟؟ہمارے پاس تو آخرت کی دائمی زندگی کے متعلق غوروفکر کرنے
کا وقت ہی نہیں ہے جب آخرت پر سوچنے کا وقت نہیں ہے تو شعور کیونکر ہوسکتا
ہے کہ آخر ”دائمی زندگی کیا ہے؟“دین اسی طرح طاق میں سجا دیا گیا ہے جیسے
قرآن کو خوبصورت غلاف میں رکھ چھوڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب اسلامی معاشرہ کی
اخلاقی مذہبی قدریں کھوکھلی اور گل سڑ رہی ہیں اور سورج کے غروب ہونے کاوقت
ہوجاتا ہے وہ سورج جو مشرق کی پہچان تھا اب مشرق مغرب تمیز ختم ہوتی جا رہی
ہے کہ مسلمانوں نے اپنی اقدار کو ،اپنی اصل کو بھولنا شروع کر دیا اور مرضِ
نسیان اس کو نگلے جا رہا ہے۔ڈیپریشن ،اسٹریس جیسی بیماریاں ہر لمحے ہمیں
جکڑے ہوئے ہیں اور ہماری بے عقلی پر ہنس رہی ہیں کہ کیسا انسان ہے جو عقل
کے ہوتے ہوئے بے وقوفی کی انتہا کر رہا ہے۔ دنیاوی سہاروں نے ہمیں بے سہارا
کردیا ہے ہم اپنے اصل سہارے کو چھوڑ کر کمزور لاٹھی(دنیا) کو سہارا سمجھنے
کی سنگین غلطی کر رہے ہیں۔پہلے موت کا احساس انسان کو برائی سے ،نفس کی
تابعداری سے بچائے رکھتا تھا اب یہ احساس بھی موت آنے تک کے لئے ٹال رکھا
ہے جب موت آئے گی تو دیکھا جائے گا اور موت کبھی ،کسی کو بتا کر آئی ؟موت
نے کبھی کسی کو مہلت دی؟کہ میں آرہی ہوں جو توبہ تائب کر نی ہے کرلوجب موت
کافرشتہ بحکمِ ربی نازل ہوتا ہے تو انسان پکارتا ہے”ہائے میری شامت ،میں نے
تو ساری زندگی ہی غفلت میں گزار دی کاش مجھے ذرا مہلت مل جائے تو میں کچھ
سامانِ آخرت کر لوں!!“رسولﷺنے فرمایا :دنیا آخرت کی کھیتی ہے“اب کوئی دنیا
میں جیسی فصل بُوئے گا ویسی ہی آخرت میں کاٹے گا ۔ہم میں سے تقریباََاور
یقینا ہر مسلمان موت کے بعد کی زندگی کی آگہی رکھتا ہے اسے ادراک ہے کہ
اللہ مردوں کو جی اٹھائے گا اور اعمال کے مطابق جزا و سزا کا حقدار ٹھہرایا
جائے گا ۔لیکن دنیا کو مستقل ٹھکانا بنانے کی تگ ودو میں مصروفِ عمل رہتا
ہے۔رسول اللہﷺ نے ایک جگہ بڑی خوبصورتی سے ہمیں دنیا کی بے ثباتی کادرس
دیا:(اس حدیث میں آپﷺ حضرت عبداللہ عمرؓ سے مخاطب ہیں)”اے عبداللہ تم دنیا
میں اس طرح رہو گویا تم اجنبی مسافر ہو بلکہ راستہ چلنے والے کی طرح دنیا
میں رہو۔اور اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرو۔“اب اگر ہم اس حدیث پاک کو ہی
سمجھ لیں تو پھر دینا کی کوئی طاقت ہمیں دائمی سفر کی تیاری،نیکی سے نہیں
روک سکتی۔
زندگی کیا ہے عنصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزاءکا پریشان ہو نا
قرآن میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ موت زندگی کو تلاش کرتی پھیرتی ہے تاکہ اسے
”فنا“ کا مزہ چکھا دے۔ لیکن افسوس ہم دین سے بیگانہ ہو چکے ہیں اور یہ
بیگانگی نماز۔روزہ اور دیگر ارکانِاسلام تک ہی موقوف نہیں رہی بلکہ ہماری
عملی زندگیوں کے ہر پہلومیں دین سے دوری کا زہر سرایت کرتا چلا جا رہا ہے
اور وہ دن دور نہیں جب یہ زہر ہمیں مکمل طور پر تباہی کے دلدل میں دھکیل دے
گاابھی ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو خوفِ خدا رکھتے ہیں اور انہی لوگوں کی وجہ
سے ہم اس دورِپُرآشوب میں زندہ ہیں۔پہلے لوگ مسلمانوں کی مثال دیا کرتے تھے
انسانیت دنیا نے ہم سے سیکھی لیکن ہم ہمیشہ کی طرح بھول گیئے اور آج
انسانیت سسک رہی ہے تعصب کے ہاتھوں زخمی اور لہولہان ہے ہماری حالت قابلِ
رحم ہے اپنے ہی ہاتھوں اپنے گلشن کا تباہ کررہے ہیںرنگ،نسل،زبان کا فرق جو
حجتہ الوداع کے موقع پر نبی ﷺنے مٹاڈالا تھا ہم نے پھر سے اپنا لیاہم آج
پھر عربی عجمی کے جھگڑے میںپڑ گئے۔
ٓاس دور نے انسان کو پریکٹیکل کی تھیوری دے کر بے حسی کی ایسی پٹی پڑھائی
ہے کہ عقل دھنگ ہے کہ آج کے انسان کے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہے اور
پتھروں پر کسی کی فریاد التجا کب اثر کرتی ہے؟
اسلام سے دوری کی کیوں ہے؟شاید ہماری زندگی کی طرح سوچ، رویہ اور جستجو کے
تمام محور دائمی نقطے سے سِرک گے ہیں اور مغرب کے روشن خیال دنیاوی نقطے پر
مرکوز ہو تے جا رہے ہیں ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنے کے لئے مغرب کو
جواز بناتے ہیں،دور کے بدلنے کی دلیل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ”یہ ماڈرن
دنیا ہے ،ماڈرن ہونا پڑتا ہے“اس سے کھوکھلی کوئی دلیل میں نے نہیں
دیکھی،سیدھی بات ہے کہ ہم مذہب کو اپنی زندگی کا طوق سمجھنے لگے ہیں اور
مغرب کی طرح اس سے بے زار سے نظر آتی ہیں ماڈرنزم نے پریشانیوں،مشکلوں اور
مصیتوں کے وہ طوق ہمیں دئے ہیں کہ ہم ان میں ہی پھنس کر رہ گئے ہیں یہی تو
شیطان چاہتا ہے ۔ہم کیوں بھول چلے ہیں کہ ایک دن ”اللہ ہمیں اپنی پناہ میں
رکھے“آئے گا جب کوئی کسی کا بوجھ نہیں بانٹے گا ،جب ہر ایک کو اپنی فکر
ہلکان کر رہی ہو گی ادنیٰ اعلیٰ سب اللہ کے روبرو اکٹھے کئے جائینگے۔اور رب
العزت ہمارے اعمال کے بارے میں دریافت فرمائینگے تو ہم یہی کہیں گے کہ ہم
نے زمانے کو فولو کیا ؟؟
دیکھئے عام زندگی میں ہم تعلیمی امتحان کے لئے کتنی فکرمند ہوتے ہیں اچھے
گریڈ کے لئے راتوں کو جاگتے ہیں اور پیپروں کی اچھی تیاری کے لئے تمام
فالتو سرگرمیاں چھوڑ دیتے ہیں ہم کو اگر کوئی کام کرنے کا کہا جاتا ہے تو
ہم فوراََ کہتے ہیں ”میں پڑھائی میں بزی ہوں میرے ایگزام ہونے والے
ہیں۔“پیپروں کے دوران دعا کرتے ہیں کہ اللہ پیپر میں وہی آجائے جو ہم نے
یاد کیا ہے۔پیپروں کے بعد تک دعا کا سلسلہ جاری رہتا ہے جیسے ہی نتیجہ
نکلتا ہے ہمارا پھیلا ہاتھ بھی دنیاوی کام میں لگ جاتا ہے دنیاوی امتحان کی
ہمیں کتنی فکر ستاتی ہے کہ رزلٹ اچھا آجائے تا کہ دوستوں اور رشتے داروں کے
سامنے ہمیں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن ہم اپنی زندگی کے سب سے بڑے
امتحان کی تیاری ”کل“پر اٹھا رکھتے ہیں ہم اپنے بچوں کو ہوم ورک کرنے کی
تلقین کرتے ہیں ”بیٹا ہوم ورک کمپلیٹ نہ کیا تو ٹیچر سے سزا ملے گی آپ
کو“ہم اپنے بچوں کو اس ہوم ورک کا کہتے ہی نہیں جو اللہ عزوجل نے ہمیں کرنے
کے لئے دیا ہے ہم اس سزا کے بارے میں اپنے بچوں کو نہیں بتاتے جو اللہ
کادیا ہوا ہوم ورک نہ کرنے پر ملے گی!!ہماری تمام سوچوں کا محور دنیا
اورصرف دنیا ہوچکی ہے ہماری زندگی دولت تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔جائز
ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھا کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ” قبر میں ہمیں
خالی ہاتھ جا نا ہے“۔
اگر دولت انسان کی خوشی کی ضامن ہوتی تو امیر کبھی بیمار نہ ہوتے اور بے
اولاد لکھ پتی کبھی اولاد کو نہ ترستےہم دنیا میں بڑے بڑے کشیدہ گھر بناتے
ہیںقیمتی فانوسوں سے اسے روشن کرتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ ہماری قبر
میں کھا جانے والی تاریکی کو ہماری دنیاوی فانوس نہیں مٹاسکیں گے وہاں کی
تاریکی تو صرف نیک اعمال کی روشنی سے چھٹے گی وہاں مغرب سے روشن خیالی کام
نہیں آئے گی۔پھر ہم کیوں اپنی اصلی اور دائمی زندگی کیا تیا ری نہیں کرتے
جہاں وہی فلاح کو پہنچے گاجس نے اللہ کے دئے گئے ہوم ورک جو کیا ہو گا۔
اس لئے کشمکشِ دنیا کا کیا فائدہ؟؟اس میں الجھنے کے بجائے نیکی کی طرف قدم
بڑھائے وہ نیکی جو کبھی انسان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتی،جس سے ہماری
دائمی زندگی وابستہ ہے میں آپ کو ترکِ دنیا کا مشورہ ہرگز نہیں دے رہی بلکہ
زندگی کو اس کل کی کھیتی کے لئے تیار کرنے کی ترغیب دے رہی ہوںجو ہر انسان
نے کاٹنی ہی کاٹنی ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیا بُوتے ہیں اور آخرت
میں کیا کاٹنے کے خواہشمند ہیں اپنے عمل کو اس سانچے میں ڈھالنا ہے جو اللہ
اور اس کے رسولﷺ کا دیا ہوا ہے اور پائیدار ہے یا اس میں جومغرب کی پستی کی
پیداوار ہے ؟۔اسلام نہ تو دنیا کے لئے دین چھوڑنے کا کہتا ہے اور ناہی دین
کو دنیا سے الگ چیز سمجھتا ہے بلکہ دونوں کو اعتدال میں لے کے چلنے کی
تلقین کرتا ہے۔ |