انڈر 21کھیل ' اکڑ بکڑ بمبے بو...اسی نوے پورے سو
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
انڈر 21 کے حال ہی میں کھلائے جانیوالے ہاکی کے مقابلوں میں بڑا اعتراض بونیر کے تین کھلاڑیوں کے ٹیم سے نکالنے پر کیا گیا جس کے حوالے سے یہ بیان اٹھایا گیا کہ صرف پشاورکی ہاکی ٹیم کو جتوانے کیلئے یہ سارا ڈرامہ کیا گیا حالانکہ انڈر 21 کے ہاکی مقابلوں میں بونیرکے ٹیم سے نکالے جانیوالے تین کھلاڑیوں کے بار ے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ مختلف ڈیپارٹمنٹس سے تعلق رکھتے تھے اور انہیںکھیلنے کیلئے انڈر 21 ہاکی متعلقہ ڈی ایس اوزلیکر آئے تھے تاکہ وہ کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیں اور اپنے اضلاع کا نام روشن کرسکیں تاہم تینوں کا تعلق مختلف ڈیپارٹمنٹ سے تھا اور اس انکشاف پر انہیں ٹیم سے نکال دیا گیا جس پر بعض افراد نے اسے کھلاڑیوں کیساتھ زیادتی قرار دیا تھاتاہم انہیں حقیقت کا ادراک نہیں تھا ' ان میں ایک کھلاڑی کو پاکستان نیوی نے اپنی ہاکی ٹیم کیلئے منتخب کیا تھا اور اس نے پاک نیوی کے ستمبر میں ہونیوالے مقابلوں میں حصہ لیا تھا اور اسے ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیاگیا تھا اسی طرح دوسرا کھلاڑی بھی پاکستان آرمی جوائن کر چکا ہے اور اس وقت سکھر میں تعینات ہے جبکہ تیسرے کھلاڑی کی تاریخ پیدائش 1997 تھی اور اسے اور ایج ہونے کی بناء پر ہاکی مقابلوں سے نکالا گیا کیونکہ یہ انڈر 21 میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کیساتھ ظلم تھا |
|
اکڑ بکڑ بمبیبو...اسی نوے پورے سو.. اور یوں انڈر 21 کے مردوں کے مقابلے اختتام پذیر ہوگئے. اب صرف انڈر 21 کے لڑکیوں کے مقابلے ہونے ہیں جس کیلئے تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائیگا.اکڑ بکڑ سے اس کا آغاز اس لئے کیا کہ جس طرح اس جملے کا بچپن سے لیکرابھی تک ہمیں پتہ نہیں چلا اسی طرح انڈر 21کے ان مقابلوں کا بھی کسی کو پتہ نہیں چلے گا.کتنا ٹیلنٹ نکل آیا' کہا ں پرنکل آیا ' اس سے قوم کو کتنا فائدہ ہوا. یہ و ہ سوال ہیں جو بہت سارے لوگوں کے کرنے کے ہیں.ہاں لمبے عرصے بعد ہونیوالے ان مقابلوں کی وجہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی سرگرمیاں بھی تیز ہوگئی ہیں تاہم اس کے پہلے مرحلے پر ابھی بھی نیب سمیت دیگر تحقیقاتی ادارے کام کررہے ہیں یہ سب تحقیقات مختلف حوالوں سے متعلق ہیں تاہم وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی وزارت ہونے کی وجہ سے نیب اور دیگر اداروں کا ہاتھ ذرا کھلا کھلا ہے جو شائد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید سخت بھی ہوگا- اللہ جانے نتیجہ کیا نکلے لیکن... پاکستان اور پھر خیبر پختونخواہ واحد صوبہ ہے جہاں پر ہر قسم کے تجربے کئے جاتے ہیں ' دنیا بھر میں کھیلوں میں نئے کھلاڑیوں کو لانے کیلئے انڈر 12 کے مقابلے کروائے جاتے ہیں اور ان سے منتخب ہونیوالے کھلاڑیوں کو کھیلوں کے شعبوں میں تربیت دی جاتی ہیں اور یوں و ہ اگلے دس سے بیس سال تک ملک و قوم کیلئے سرمایہ افتخار بن جاتے ہیں لیکن یہاں پر کام کرنے کا انداز ہی الگ ہے مقابلے کروائے جاتے ہیں انڈر 21 کے ' اور پھر ان سے ٹیلنٹ نکالنے کی بات کی جاتی ہیں ' یہ تو وہ عمر ہیں جس میں متوسط طبقے کے بچے روزگار کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ممی ڈیڈی والے بچے گاڑیوں میں مستی کرتے پھرتے ہیں انہیں کھیلوں کے میدان سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ایسے میں انڈر 21 کے مقابلوں کا انعقاد اور اس پر کروڑوں روپے کے اخراجات سمجھ سے بالاتر ہیں. ان مقابلوں میں اوریج کھلاڑیوں کے حصہ لینے کی بات تو اس سے پہلے بھی ہوئی تھی کیونکہ کرونا کی وجہ سے سترہ کے قریب مقابلے رہ گئے تھے ابتدائی مرحلہ جو کرونا سے پہلے ہوا تھامیں مختلف اضلاع کے من پسند افراد کو مختلف کھیلوں میں اور خصوصا لڑکیوں کو کھیلنے کے مواقع فراہم کئے گئے ' لیکن جب سکالرشپ کی باری آئی تو پھر کسی اور کے نام پر کھیل میں حصہ لینے والے سکالرشپ کا مطالبہ کرنے لگے اور بعض جن کے نام پر کوئی اور کھیل گیا تھا نے اپنے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی ادائیگی کی جائے یوں اس مرتبہ ہونیوالے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے دوسرے مرحلے کے انڈر 21 مقابلوں میں پھر بھی یہ شکایت دیکھنے کو ملی .مختلف ڈیپارٹمنٹ سے ڈیپوٹیشن پرسپورٹس ڈائریکٹریٹ میں آنیوالے اہلکاروں کی مدد سے بنائے گئے ضلعی ٹیموں کا حال بھی اس مرتبہ ایسا ہی رہی - فٹ بال کے کھلاڑی دوسرے کھیلوں میں بھی کھلائے گئے جو ایک زمانے میں پشاور کے ایک مخصوص کالج کی ڈی پی ای کا خاصہ تھا ' کہ ایک ہی کھلاڑی کو مختلف کھیلوں میں مواقع دئیے گئے کھلاڑی تو خوشی کے مارے مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے رہتے لیکن اس کا فائدہ مخصوص لوگوں کو پہنچتا کیونکہ ٹی اے ڈی اے چار کھیلوں کا نکلتا اور صرف ایک گیم میں کھلاڑیوں کو مل جاتا . اس طرح کی صورتحال اب بھی دیکھنے کو ملی ہیں جس کی شکایات سامنے آئی ہیں. انڈر 21 کے حال ہی میں کھلائے جانیوالے ہاکی کے مقابلوں میں بڑا اعتراض بونیر کے تین کھلاڑیوں کے ٹیم سے نکالنے پر کیا گیا جس کے حوالے سے یہ بیان اٹھایا گیا کہ صرف پشاورکی ہاکی ٹیم کو جتوانے کیلئے یہ سارا ڈرامہ کیا گیا حالانکہ انڈر 21 کے ہاکی مقابلوں میں بونیرکے ٹیم سے نکالے جانیوالے تین کھلاڑیوں کے بار ے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ مختلف ڈیپارٹمنٹس سے تعلق رکھتے تھے اور انہیںکھیلنے کیلئے انڈر 21 ہاکی متعلقہ ڈی ایس اوزلیکر آئے تھے تاکہ وہ کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیں اور اپنے اضلاع کا نام روشن کرسکیں تاہم تینوں کا تعلق مختلف ڈیپارٹمنٹ سے تھا اور اس انکشاف پر انہیں ٹیم سے نکال دیا گیا جس پر بعض افراد نے اسے کھلاڑیوں کیساتھ زیادتی قرار دیا تھاتاہم انہیں حقیقت کا ادراک نہیں تھا ' ان میں ایک کھلاڑی کو پاکستان نیوی نے اپنی ہاکی ٹیم کیلئے منتخب کیا تھا اور اس نے پاک نیوی کے ستمبر میں ہونیوالے مقابلوں میں حصہ لیا تھا اور اسے ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیاگیا تھا اسی طرح دوسرا کھلاڑی بھی پاکستان آرمی جوائن کر چکا ہے اور اس وقت سکھر میں تعینات ہے جبکہ تیسرے کھلاڑی کی تاریخ پیدائش 1997 تھی اور اسے اور ایج ہونے کی بناء پر ہاکی مقابلوں سے نکالا گیا کیونکہ یہ انڈر 21 میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کیساتھ ظلم تھا.واضح رہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے انڈر 21 میں نئے ٹیلنٹ کو تلاش کرنے کیلئے ان مقابلوں کا انعقاد کیا تھا.تاہم متعلقہ اضلاع کی جانب سے ایسے کھلاڑیوں کے انتخاب نے انڈر 21 کے مقابلوں پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے .اور کیا یہ بات بھی کسی نے نوٹ کی یا پھر شائع کرنے کی کوشش کی کہ ہاکی کی ایک ٹیم کے سولہ کھلاڑیوں نے کٹس لئے لیکن گرائونڈ پر صرف سات کھلاڑی نظر کیوں آئے جس کی وجہ سے دوسری ٹیم کو واک اوور دیا گیا. اگر ان تمام حالات کے باوجود یہ بات مان لی جائے کہ پشاور کی ٹیم کو جتوانے کیلئے بونیر کی ٹیم کیساتھ زیادتی ہے تو پھر ووشو کے مقابلوں پر بڑا اعتراض ابھی تک کسی نے نہیں اٹھایا جس میں انڈر 21 کے مقابلوں میں ڈی آئی خان اور ملاکنڈ کی ٹیموں کیساتھ حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں زیادتی کی گئی جس پر ڈی آئی خان کی ٹیم نے کھیل کابائیکاٹ بھی کیا اگلے روز ڈی جی سپورٹس سے ملنے کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی آئے لیکن ڈی آئی خان جیسے علاقے سے آنیوالے ووشو کے کھلاڑیوں کو ملنے بھی نہیں دیا گیا کیا یہ ظلم نہیں. ملاکنڈ کے کوچ نے صرف اپنے کھلاڑیوں کے خاطر بھرے محفل میں معافی مانگ لی کیونکہ انہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور متعلقہ ڈی ایس او نے دھمکی دی تھی کہ اگر تم نے معافی نہیں مانگی تو پھر ہر چیز کے ذمہ دار تم ہونگے اور ہم تم سے تعاون بھی نہیں کرینگے.جس کی آڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے. اسی طرح صرف پشاور کے نام کے خاطر ملاکنڈ اور ڈی آئی خان کے بچوں کیساتھ زیادتی کی گئی ' کیا پشاور کے کھلاڑی آسمان سے اتری مخلوق ہیں اور ان میں کوئی اضافی صلاحیت موجود ہے نہیں. لیکن اگر کھیلوں کے مقابلے اس طرح ہونگے تو پھر صوبے کے پینتیس اضلاع میں کس طرح کھلاڑی کھیلوں کی طرف راغب ہونگے. یہ اور ان جیسے کئی سوالات وزیراعلی خیبر پختونخواہ' سپورٹس سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کو خود سوچنے کی ضرورت ہے. لگے ہاتھوں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ تائیکوانڈو کے مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے ضم اضلاع کے کھلاڑیوں کو ملنے والے کٹس کا بھی احتساب کرے کہ کتنے کھلاڑیوں کو کٹس دی گئی اگر کسی کو شک ہے تو جاکر فون کرے اور سوال پوچھے کہ تائیکوانڈو میں حصہ لینے والے انڈر 21 کے کتنے کھلاڑیوں کو کٹس اور شوز دئیے گئے. کھیلوں میں دیگر اضلاع کے ساتھ ہونیوالے گھپلوں کے بعد اب کٹس اور شوز میں بھی ان معصوم کھلاڑیوں کیساتھ زیادتی کی گئی. ویسے ان حالات میں ایک بڑا سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ انڈر 21 کے یہ مقابلے پورے صوبے کے ٹیلنٹ کو آگے لانے کیلئے تھے یا انہیں دبانے اور دفن کرنے کیلئے منعقد کروائے گئے. سوچنے والے سوچتے رہیں تحقیقات کرنے والے تحقیقات کرتے رہیں ' مزے لینے والے مزے لیتے ہیں تاہم پھر بھی ...اکڑ بکڑ بمبیبو...اسی نوے پورے سو...
|