کرکٹ ورلڈ کپ کے طرز میں تبدیلی ممکن ہے؟

کرکٹ کی شروعات انگلینڈ سے ہوئی تھی پر اس کا طرز آج کی کرکٹ سے بہت منفرد تھا آج کی کرکٹ سے ملتا جلتا کھیل سولہویں صدی میں انگلینڈ کی سرزمین سے شروع ہوویسے توکرکٹ کی شروعات میں شمالی آمریکہ کا بھی نام آتا ہے پر یہ اس دور کی بات ہے جب آمریکہ برطانیا کی کالونی تھا اس لحاظ انگلینڈ ہی اس کھیل کی خالق ہےاٹھارویں صدی کے آتے آتے یہ کھیل انگلینڈ سمیت آسٹریلیا ، ہندوستان، ویسٹ انڈیز، نیوزلینڈ، جنوبی آفریقہ تک پہنچ چکا تھا مطلب لوگوں کو پتا لگنا شروع ہوگیا تھا کہ کرکٹ بھی نامی کوئی چیز ہے جو کھیلی جاتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے شائقین میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور لوگوں میں اس کی دلچسپی بھی بڑھتی چلی گئی اس کے ساتھ ساتھ اس کے قوانین بھی بدلے اور طرز عمل کے ساتھ بلے اور بال کے ڈیزائن بھی بدلے۔لوگوں کو یہ جان کہ حیرانی ہوگی کہ دنیا کا پھیلا عالمی کرکٹ میچ1844 میں آمریکا اور کینیڈا کے بیچ ہوا تھا جو کہ نیوراک کے سینٹ جارج کرکٹ کلب میں کھیلا گیا تھا۔

کرکٹ کے قوانین بنانے والی اور اسے چلانے والی باڈی کو انٹرنیشنل کرکٹ کائونسل کہا جاتا ہے کرکٹ یہ عالمی تنظیم جون 1909 بنائی گئی تھی شروعات میں اس کا نام ایپریل کرکٹ کانفرنس تھا بعد میں دہ دفعہ میبر شپ کے قوانین کی تبدیلی کے باعث اس کے نام تبدیل کئے گئے جس میں 1909 سے 1963 تکایپمریلکرکٹکانفرنس پھر 1964 سے 1988 تک انٹرنیشنل کرکٹ کانفرنس پھر 1989 سے آج تک جو نام چل رہا ہے وہ ہے انٹرنیشنل کرکٹ کائونسل۔ آئی سی سی کے تین ماتحت ادارے بھی ہیں جس میں ایشین کرکٹ کائونسل جس کا کام ایشیا کے ملکوں میں کرکٹ کے لئے کام کرنا ہے اور وہاں کرکٹ کی بہتری کے لئے کام کرنا ہے یہ ادارہ 1983 کو بنایا گیا تھا پاکستان بھارت سمیت ایشیا کے دوسرے ممالک کے کرکٹ بورڈز اس کے میمبر ہیں دوسرا آئی سی سی ایشیا پیسفک ہے جو کہ 1996 کو بنایا گیا تھا یہ ادارہ ٹیسٹ کرکٹ کی بہتری کے لئے کام کرتا ہے اس میں نیوزلینڈ اور آسٹریلیا کی اس ادارے کو مدد حاصل ہے اس ادارے کا بنیادی کام ٹیسٹ کرکٹ کی بہتری اور کوچز ، ایمپائر ز، اور کرکٹ کے شوقین نوجوانوں کی تعلیم اور بنیادی شعور جو کرکٹ کے لئے ضروری ہے وہ دیا جاتا ہے اور نوجوانوں کو کرکٹ کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت میں بہتری لانے کے حوالے سے بھی ٹرینگ دی جاتی ہے اس ادارے میں آسٹریلیا نیوزلینڈ کے علاہ ٹی 20 کرکٹ میں فیجی جاپان اور جنوبی کوریا کی کرکٹ کی تنظیمیں شامل ہیں اور آئی سی سی کی تیسری تنظیم ہے یورپین کرکٹ کائونسل جس کا مقصد یورپی مملاک میں کرکٹ کی دلچسپی کو بڑھانا ہے یہ تنظیم 1997 کو بنائی گئی تھی اس تنظیم کا مقصد یورپ میں کرکٹ کے لئے کام کرنا ہے اور اس کا ہیڈ کواٹر انگلینڈ میں ہے اس کے تین ممالک میبرز ہیں جن میں اسکاٹلینڈ، آرلینڈ، اور نیدرلینڈ ۔ اس تنظیم کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ باقی یورپی ملکوں کے ساتھ ساتھ انگلینڈ میں بھی کام کرتی ہے اور دنیا میں انگلینڈ کے علاہ کرکٹ کو کوئی نہیں سمجھ سکتا انگریز کرکٹ اور ہی نظر سے دیکھتے ہیں وہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کون سی ٹیم کھیل رہی ہے وہ محض کرکٹ کا حسن دیکھنے آتے ہیں وہ ایک ایک بال اور ایک ایک شاٹ کو بڑے غور سے دیکھتے ہیں مثال کے طور پر اگر ورلڈ کم بھی ہو نہ اور ان کا اپنا انگلینڈ کا بلے باز آئوٹ بھی ہوجائے تو وہ بالر یا کیچ کرنے والے کو بھی داد دیتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ بال کس نے کرائی ہے اور کس ملک کے کرکٹر نے کرائی ہے وہ محض کرکٹ دیکھتے ہیں اور ہر اچھی پرفارمنس پے داد دیتے ہیں۔یورپینکرکٹکائونسل اپنے علائقے میں کرکٹ کے لئے کام کرتا ہے جس میں ایک ٹورنامینٹ یورپین کرکٹ چیمپئن شپ بھی ہے یہ بھی ایک لیگ کی طرح میچز کرواتے ہیں اور یہ پورے یورپ میں ٹورنامینٹ کراواتے ہیں

کرکٹ اس وقت دنیا کا ایسا کھیل بن چکا ہے جس میں بہت زیادہ پیسہ ہے آئی سی سی کی سالانا آمدنی 40 میلین ڈالرز ہے اس کے علاہ آئی ، پی ایل دنیا کہ ان ٹورنامینٹ میں شامل ہے جس میں اربوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے آئی پی ایل کی اس وقت جو ریونیو ظاہر کی جاتی ہے وہ 6.3 ارب ڈالرز ہے اس کے علاوہ بھی جب ورلڈ کپ ہوتا ہے تو دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں اربوں ڈالرز اشتہاروں پے خرچ کرتی ہیں اس وقت کی کرکٹ میں سب سے ریونیو بھارت پیدا کر کہ دیتا ہے اس وقت کرکٹ کی دنیا میں بھارتی کرکٹ بورڈ سب سے زیادہ پیسہ کما دینے والا ادارہ ہے دنیا میں کوئی ایسا دوسرا کرکٹ بورڈ نہیں جو کہ اتنا زیادہ پیسہ کرکٹ کے ذریعے پیدا کر کہ دے ۔آئی سی سی لوگوں میں کرکٹ کی دلچسپی بڑھانے کے لئے بڑے بڑے ٹورنامینٹ کی ترتیب ایسے بناتا ہے جیسے لوگوں میں سنسنی پھیلے اور لوگ ٹورنامینٹ میں زیادہ دلچسپی لیں اس وقت کرکٹ کا فارمیٹ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے پہلے کرکٹ ٹیسٹ کرکٹ ہوتی تھی جس میں ٹیم اور کھلاڑیوں کی اصل ٹیسٹ ہوتی تھی کہ وہ کتنےاچھا ےکھلاڑی ہیں پر پھر ون ڈے میچز آئے اور پھر محدود اوورز کی کرکٹ آنا شروع ہوئی جس میں لوگوں نے دلچسپی لی اور اسنسنی میچز سے لوگوں کی دلچسپی بڑھتی گئی اور محدود اوورز کی کرکٹ سے پیسہ تو بہت آنے لگا پر کرکٹ کی خوبصورتی جو ٹیسٹ کرکٹ میں ہوتی تھی وہ ختم ہوتی گئی اور کرکٹ ایک جلد بازی کا کھیل بن گیا جس میں کھلاڑی آیا چند بالیں کرائیں اور چلا گیا اسی طرح بیٹس مین آیا چند بالیں کھیلیں اور ایک چکھا اور ایک چوکہ مارا اور چلا گیا محدود اوورز کی کرکٹ میں ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے ایک سنسنی خیز فلم چل رہی ہے۔

پچھلے دس بیس پندرھ سالوں میں کرکٹ میں پیسے کا رجحان اتنا ہوگیا ہے کہ کھلاڑی تقریبن پورا سال مختلف لیگیز میں زیادہ پیسے کی وجہ سے کرکٹ کھیلتے رہتے ہیں اور کرکٹ کی عالمی تنظیم نے بھی انہیں گرین سنگنل دے دیا ہوا ہے کا جاو اور پیسے کما کے آو اس سے ہوا یہ ہے آئی سی سی کو انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو ایک شیڈول دینا چاہیے جسے کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنے ملک کے لئے زیادہ کھیل سکیں اور آئی سی سی کو چاہیےکہ اسپانسر اور زیادہ پیسے دینے والے کرکٹ بورڈز کے زیر اثر رہنے کی بجائے کرکٹ کے بنیادی اصولوں پے عمل کروائے اور کرکٹ کو سیاسی معملات سے دور رکھا جائے ۔

کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ کرڑوں لوگوں کے جذبات اس سے وابستہ ہوتے ہیں اسی وجہ سے عام لوگ کھلاڑیوں سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور انہیں اپنا رول ماڈل بناتے ہیں میری ایک تجویز ہے کہ ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنامینٹ میں طرز عمل اور قانون کو بدلا جائے آج کہ قانون کے مطابق ایک ٹیم اگر ورلڈ کپ کے تمام میچز جیت جائے تو ایک میچ ہار جانے سے وہ ٹورنامینٹ سے باہر چلی جاتی ہے میرے ذاتی خیال میں اسے بہتر زیادہ انصاف کیا جاسکتا ہے ۔ورلڈ کپ کو پرسنٹیج کے حساب سے رکھا جائے کہ جیسے 4 ٹیمیں سیمی فائنل تک پہنچ گئی ہیں تو چاروں ٹیمیں ورلڈ کپ کی فاتح قرار پائیں اس میں پرسنٹیج کے حساب سے ریکنگ رکھی جائے مثال کے طور پر ایک ٹیم نے پورے ورلڈ کپ میں٪50 فتح حاصل کی ہے تو وہ رینک میں سب سے اوپر ہونی چاہیے باقی ٹیمیں جو ورلڈ کپ کے سیمی فائنلز میں آئی ہیں ان کی پورے ٹورنامینٹ کی پرسنٹیج کے حساب سے رینک کیا جائے یا پھر ورلڈ کپ فائنل میں اگر ایک ٹیم پورے ٹورنامینٹ میں سب سے زیادہ میچز جیتی ہے تو اسے رن ریٹ کے حساب سے دیکھنا چاہیے اگر ایک ٹیم 5 بال سے میچ جیت گئی ہے تو دوسری ٹیم کو بھی فتح کا حصہ ملنا چاہیے کیونکہ 5 اگر ایک ٹیم بہت کم مارجن سے پانچ بال سے جیت حاصل کرتی ہے تو دوسری ٹیم نے جو پورے ٹورنامینٹ میں اس نے بہتر پرفارم کیا ہے اسے بھی فتح میں شئر ملنا چاہیے موجودہ قانون میں ایک ٹیم اگر سارے میچز میں فتح حاصل کرتی ہے تو فائنل کے ایک میچ کے ہارنے سے اس کا سار اعتماد ختم ہوجاتا ہے جبکہ میری تجویز یہ ہے کہ جیت کو دونوں ٹیموں میں بانٹا جائے آئی سی سی کو چاہیے کہ وہ ایسے قوانین کے حوالے سے غور کرے کیونکہ جب جیت میں سب کا حصہ ہوگا کھیل میں مزید دلچسی بڑھے گی اس کو پرسنٹیج کے حوالے سے بھی بانٹا جا سکتا ہے یاد رہے کہ میری یہ تجویز ان ٹیموں کے لئے ہے جو اچھا پرفارم کر کہ فائنلز تک پہنچی ہیں ۔


 

Shaharyar Rehman
About the Author: Shaharyar Rehman Read More Articles by Shaharyar Rehman: 8 Articles with 7387 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.