ملک بھر بالخصوص کراچی کے پرتشدد
واقعات نے جہاں ملک بھر کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد
کو شدید متاثر کیا ہے وہیں اس شہر میں میڈیا کے نمائندوں کو بھی نت نئے
اورسنگین خطرات سے دو چار کردیا ہے۔مختلف سیاسی، مذہبی، سماجی اور قوم پرست
جماعتوں ،اداروں کی تنظیموں ،حکومتی اداروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے
تعلق رکھنے والے بااثرا فراد کی جانب سے عامل صحافیوں پر جسمانی، معاشی اور
ذہنی تشدد اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ ہم جب کراچی میں اہل قلم کو درپیش
مشکلات کو مدنظر رکھتے ہیں تو یہ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں دو چند
نظر آتی ہیں اور ان حالات میں کراچی دنیا کے کسی بڑے وار زون سے کم نظر
نہیں آتا ہے۔ یہاں پر میڈیا کے نمائندوں پر تشدد، خوف وہراس پھیلانے سمیت
مختلف واقعات اب روز کا معمول بن چکے ہے۔ اب یہاں سیاسی ،مذہبی ،لسانی اور
نسلی تصادم اورمختلف مافیاز کی مفاداتی جنگ نے حالات اور بھی مشکل بنا دئے
ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اب تک متعدد صحافی شہر چھوڑ چکے ہیں یا پھر متبادل کی
تلاش میں سرگرداں ہیں۔گزشتہ ایک سال میں 2صحافیوں کا قتل،میڈیا کے متعدد
نمائندوں کا پرتشدد واقعات میں زخمی ہونا، چند روز قبل ہی ایک نجی ٹی وی کے
رپورٹر ملک منور کے مبینہ اغواء،کٹی پہاڑی، قصبہ کالونی، لانڈھی اور ملیر
سمیت مختلف علاقوں میں متحارب گروپوں کے درمیان تصادم میں میڈیا کے
نمائندوں اور عملے کے افراد پر براہ ر است فائرنگ یاان پر تشدد اس کا واضح
ثبوت ہے۔
دراصل گزشتہ چند سالوں سے جہاں میڈیا کو آزادی ملنے کا تاثر دیا جارہا ہے
وہیں میڈیا کے نمائندوں بالخصوص عامل صحافیوں کی مشکلات میں بہت زیادہ
اضافہ ہوا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ایک عشرہ گزرنے کے باوجود حکومتی یا صحافتی
نمائندہ تنظیموں کی سطح پر ان مشکلات اور مسائل کے حل کےلئے سوائے نعروں،
بیان بازی اور ٹاک شوز میں لاحاصل بحثوں کے کچھ نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ان
مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور اب صورتحال اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ
کراچی جیسے شہر میں غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رپورٹنگ کرنا ناممکن نہیں
تو مشکل ضرور ہوگیا ہے، اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایک طرف اگر مختلف تنظیموں یا
افراد کا من پسند رپورٹنگ کے لئے شدید دباﺅ ہے تودوسری طرف اداروں کی جانب
سے معاشی طور پر میڈیا کے نمائندوں کو مفلوج کرکے اداروں کے مالکان میڈیا
کے نمائندوں کو ٹارچر کرتے ہیں۔ ملک بھر بالخصوص کراچی میں پرتشدد واقعات
کے دوران رپورٹنگ کے لئے حکومتی اورصحافتی اداروں اور نمائندہ تنظیموں کی
جانب سے ”وار زون “ میں رپورٹنگ کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کسی واضح ہدایات
یا ضابطہ اخلاق کا مرتب نہ ہونا بھی میڈیا نمائندوں کےلئے مزید مشکلات کا
سبب بن رہا ہے۔ اداروں کے مالکان اور ذمہ داران ایک طرف اپنے نمائندوں سے
سب سے پہلے، انفرادی اور بہترین خبر یا رپورٹ کی نہ صرف امید رکھتے ہیں
بلکہ سخت ہدایت بھی کرتے ہیں ،مگراس امید اور ہدایت پر پورا اتر نے پر ان
کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہیں ذہنی اور معاشی اذیت کا شکار بنادیا
جاتا ہے۔
اس وقت کراچی کے مختلف اداروں کے میڈیا ورکرز کم ازکم 2 سے 6 ماہ تک کی
تنخواہوں اور سہولیات سے محروم ہیں، اگر وہ بروقت اپنے معاوضے کی ادائیگی
کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کو بغیر کسی ادائیگی کے اداروں سے نکل جانے کو
کہا جاتاہے مگر بڑھتی ہوئی بے روزگاری میں وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے
باوجود بھی وہ اپنے اداروں کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک رکھتے ہیں تو پھر
گھریلو معاشی پریشانیاں انہیں ذہنی طور پر مفلوج کردیتی ہیں، اداروں کے
مالکان اور ذمہ داروں کا یہ رویہ جہاں ان کی ذہنی اذیت اور پریشانی کا سبب
بن رہا ہے وہیں پر معاشرے بالخصوص میڈیا میں کرپشن کو پروان چڑھا رہا ہے
اورلفافہ ازم، جانبدارانہ رپورٹنگ سمیت مختلف معاشرتی برائیاں میڈیا میں
جنم لیتی ہیں جو صحافت جیسے مقدس شعبے کی بدنامی کی بلکہ تباہی کاسبب بن
رہی ہیں۔ اس معاشی تنگ دستی اور مشکل حالات کی وجہ سے یہ لوگ مختلف اداروں،
افراد یا تنظیموں کی غلط ترجمانی کرنے پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ معاشی
ضروریات کی تکمیل کےلئے انہیں کہیں نہ کہیں سے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے،جس
کا لوگ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔مختلف سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں،
سماجی اداروں اور شعبہ ہائے زندگی کی نمائندہ تنظیمیں اپنے مقاصد کی تکمیل
اور آواز دنیا تک پہنچانے کےلئے میڈیا اور ان کے نمائندوں کا بھرپور
استعمال تو کرتی ہیں لیکن اس دوران ان کے تحفظ کےلئے کوئی مناسب انتظام
نہیں کرتیں۔ بعض اوقات مختلف اداروں کے ذمہ داروں، اینکر پرسن اور
الیکٹرونک میڈیا میں ہونے والی بحث ومباحثہ، تلخ کلامیوں یا مبینہ جانبداری
کی سزا بھی میڈیا کے نمائندوں اور عامل صحافیوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ان سب
کے باوجود اداروں کی جانب سے اکثر میڈیا کے نمایندے عدم تحفظ کا شکار ہیں
کیونکہ جہاں انہیں بروقت معاوضے کی ادائیگی انتہائی مشکل ہوتی ہے وہاں
انہیں ملازمتی تحفظ بھی حاصل نہیں رہتا۔
کراچی میں ماضی میں صرف حکومتی اداروں کا خوف ہوتا تھا لیکن اب صورتحال یہ
ہے کہ ہر طرف سے خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ ہر سیاسی ومذہبی جماعت،
سماجی تنظیم، بااثر افراد یا دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افرادمیڈیا میں غلط
یا صحیح اپنی مرضی کے مطابق رپورٹنگ چاہتے ہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف ہونے
والے ہر عمل کے ذمہ دار وہ میڈیا کے نمائندوں کو سمجھتے ہیں جس کی وجہ پھر
تشدد، خوف وہراس کی شکل میں نکلتی ہے اور یہی تشدد اور خوف وہراس میڈیا کے
نمائندوں کےلئے ذہنی تشدد کا سبب بنتا ہے۔ کراچی میں میڈیا کے نمائندوں کو
درپیش خطرات اور عدم تحفظ کو مدنظر رکھا جائے تولوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں
کہ کراچی اب میڈیا کےلئے واقعی” وار زون“بن چکا ہے۔ ماضی میں وار زون کے
حوالے سے مقبوضہ کشمیر، مقبوضہ فلسطین، لبنان، افغانستان،عراق سمیت دنیا کے
مختلف جنگ زدہ علاقوں کے صحافیوں کی مشکلات کے بارے میں ذکر آتا تھا لیکن
اب ان سے بڑھ کر پورے پاکستان بالخصوص خیبر پختونخواہ،فاٹا،بلوچستان اور
کراچی میں میڈیا کے نمایندوں کو اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے ۔ اس ساری
صورتحال میں حکومتی ، میڈیا کے نمائندوں اور اداروں کی خاموشی ایک بہت بڑا
سوالیہ نشان ہے۔ کوئٹہ میں خروٹ آباد اور کراچی میں سرفراز شاہ کیس کے
فوٹیج بنانے اور رپورٹنگ کرنے والے افراد کا مبینہ انجام ،معاشی بد حالی
اور خوف وہراس کے علاوہ دیگر متعدد واقعات نے کئی سوالات پیدا کئے ہیں ۔
صورتحال اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ فاٹا اور بلوچستان کے بعد اب کراچی سے
بھی میڈیا کے نمایندوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت یا پھر شعبہ تبدیل کرنے مجبور
ہے اوراب خیبر پختونخواہ،فاٹا اوربلوچستان کی طرح کراچی میںبھی میڈیا کے
نمائندے اس بات کا واضح طور پر اظہارکرتے ہیں کہ اب کراچی میں بھی غیر
جانبدارانہ صحافت ممکن نہیں رہی ۔دنیا میں یہ دستور ہے کہ اس طرح کے علاقوں
یا وار زون میں نمائندگی کرنے والے افراد کےلئے خصوصی مراعات اور پیکیجز
ہوتے ہیں لیکن کراچی میں خصوصی مراعات تو کیا اصل معاوضے سے بھی میڈیا کے
نمائندوں کی ایک بڑی تعداد محروم رہتی ہے۔ اس ضمن میں میڈیا کے نمائندوں
اور حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مل کر عامل صحافیوں، میڈیا کے نمائندوں
اور عملے کے تحفظ کےلئے قانون سازی کے علاوہ ان کی مشکلات کے حل کےلئے کوئی
واضح حکمت عملی اختیار کریں۔
اس حوالے سے تمام میڈیا کے تمام نمائندہ فورمزکا یہ فرض ہے کہ پہلی فرصت
میںمیڈیا کے تمام نمائندوں اور عملے کی اداروں کے حساب سے فہرست مرتب کرکے
ایک واضح ریکارڈ تیار کرے تاکہ میڈیا کے صحیح یا غلط کا تعین اور میڈیا سے
بھی کالی بھیڑوں کو الگ کیا جا سکے۔مزید یہ کہ مختلف اداروں میں ان کی
بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کے انتظام کے علاوہ حکومتی اور میڈیا کی سطح پر
فنڈز کے قیام کا اجراءبھی نہایت ضروری ہے تاکہ مشکل حالات میں میڈیا کی
معاشی مشکلات کا کچھ تو سدباب کیا جاسکے۔ کیونکہ ماضی کی کئی ایسی مثالیں
موجود ہیں کہ دوران ڈیوٹی دہشت گردی یا بم دھماکوں کا نشانہ بننے والے
نمائندوں کو اداروں نے بوجھ سمجھ کر پہلے غیر فعال اور پھر فارغ کر دیا۔
حالانکہ ان واقعات کی وجہ سے وہ زندگی بھر کےلئے ذہنی اذیت اور پریشانی کا
شکار ہوچکے تھے۔
اس وقت پورے ملک باالخصوص خیبر پختونخواہ،فاٹا،بلوچستان اور کراچی میںعدم
تحفظ میڈیا کے نمائندوں کےلئے سب سے بڑی پریشانی بنا ہواہے جس کا فائدہ
یہاں کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، سیاسی، مذہبی اور
قوم پرست جماعتوں کے علاوہ سماجی تنظیمیں اور مختلف مافیاز کے لوگ حاصل
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہاں پر میڈیا کے نمائندوں کو
تحفظ حاصل ہو تو پھر میڈیا کو بھی ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنا ہوگا۔ اس کے
اندر رہ کر ان کےلئے کام کرنا، ان کی مشکلات کے حل کا سبب بن سکتا ہے۔ اس
ضمن میں مختلف شعبوں کی رپورٹنگ کے دوران مناسب انتظام، سرکاری اور نجی
اداروں اور افراد کے پروگراموں میں بن بلائے شرکت نہ کرنا، کسی بھی موقع پر
جانبداری سے انتہائی گریز کرتے ہوئے حقائق کو ہی مدنظر رکھنا سمیت مختلف
امور شامل ہیں۔ اگر ہم نے مشکلات کا تدارک نہیں کیا تو آنے والے دن انتہائی
پریشانی اور مزیدمشکلات کا سبب بنیں گے۔ |