نصف شب گزر چکی ہے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں، قلم
ہاتھ میں لئے سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا لکھوں اور کہاں سے لکھوں ؟ کس
عنوان سے لکھوں کس نام سے لکھوں؟ کیونکہ جس موضوں پر لکھنا چاہتا ہوں اسکی
سنگینی اور بھیانکی کو ظاہر کرنے کے لئے لغت میں الفاظ ناپید ہیں ۔ ہماری
قوم ہمیشہ مہنگائی، بدعنوانی، انتظامی نااہلی اور بنیادی صحولیات کی عدم
دستیابی کا ماتم تو کرتی رہتی ہے لیکن آئیے آج سب مل کر ہم وطنوں کی جہالت،
سرکشی، باغیانہ طینت اور احکامات دین سے دوری کا مرثیہ پڑھتے ہیں ۔ سیالکوٹ
میں پیش آنے والے اندوہناک واقعے نے نہ صرف ملکی ساخت کو خراب کیا ہے بلکہ
اسلام مخالف سازشوں میں ایسا بھر پور حصہ ڈالا ہے کہ آج بھارت سمیت پورا
عالمی میڈیا پاکستان اور اسلام پر سوالات کھڑے کررہا ہے ۔ واقعہ کچھ یوں ہے
کہ سیالکوٹ کی ایک نجی فیکٹری میں کام کرنے والے پروڈکشن منیجر اور سری
لنکن شہری " پریانتھا کمار"کو پر تشدد ہجوم اور فیکٹری ملازمین نے جھوٹا
توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کردیا ۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق مقتول
منیجر ملازمین سے کمپنی قوانین پر سختی کیساتھ عملدرآمد کرواتا تھا اور
حادثے والے روز سپروائیزر سے ناقص صفائی پر نوک جھوک بھی ہوئی تھی ۔ کچھ
روز میں غیر ملکی کمپنی کے وفد نے بھی دورہ کرنا تھا ۔ انھوں نے ملازمین کو
مشیںوں سے اسٹیکرز صاف کرنے کو کہا اور خود بھی صفائی کرنے لگے ۔ دوران
صفائی مذہبی پوسٹر ہٹانے پر ملازمین نے احتجاج کیا جس پر پریانتھا نے معافی
بھی طلب کی مگر کچھ ملازمین نے اس غیر دانستہ عمل کو توہین مذہب کا رنگ دے
کر اشتعال دلایا ۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پریانتھا نے چھت
میں چھپ کر جان بچانے کی کوشش کی اور ایک ساتھی مینجر نے بھی اسے بچانے کی
ہر ممکن کوشش کی مگر جب عقل جاتی ہے تو انسان حیوان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے
۔ مشتعل ہجوم نے نہ صرف وحشیانہ تشدد کر کے اسے قتل کر ڈالا بلکہ سرعام روڈ
پر اسکی لاش کو آگ لگا دی ۔ اس شرمناک واقعے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خود
کو سب سے زیادہ مہذب قرار دینے والی قوم تہذیب کا جنازہ نکالتے ہوئے
سیلفیاں لینے میں مصروف تھی ۔ واقعے کے بعد پولیس بھی آئی اور چند
گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آئے روز ایسے واقعات
کیوں رونما ہوتے ہیں ؟ کبھی مردان کے مشال خان کو توہین مذہب کا الزام لگا
کر قتل کردیا گیا تو کبھی لاہور کے مزدور مسیحی میاں بیوی پر جھوٹا الزام
عائد کرکے کرکے نزر آتش کردیا گیا ۔ اسلام کا مطلب ہی امن و آشتی ہے لیکن
ہماری جہالت نے جتنا نقصان اسلام کو پہنچایا ہے اتنا اغیار بھی نہ پہنچاسکے
۔ ہمارا مذہب تو ایک بےگناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے
مگر ہم ہیں کہ مذہب کی آڑ میں اپنے قبیح اور شرمناک مقاصد کو عملی جامہ
پہناتے ہیں ۔ ہم اس بات پر خوش ہیں کہ آج اسلام دنیا بھر میں تیزی کیساتھ
پھیلنے والا مذہب ہے لیکن یہ بات یاد رکھے کہ غیر مسلم ہمارے کردار سے
متاثر ہوکر اسلام قبول نہیں کررہے بلکہ یہ اسلام کا پرامن اور آفاقی پیغام
ہے جو دیگر اقوام کو بھی اپنی طرف کھینچ رہا ہے وگرنہ آج کا مسلمان تو خود
خودساختہ فرقہ بندی ، بداعمالی ، جہالت اور مالی کسمپرسی کے متاثرین میں
شامل ہے ۔ یہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ رحمت للعلمین (ص) سے محبت کا نام
لے کر دوسرے بے گناہ انسانوں کے لئے زحمت بن رہے ہیں ۔ ہمارے نبی (ص) تو
سراپا رحمت ہیں ۔ آنحضرت ص نے کسی کو صرف ذاتی عقائد کی بنا پر نشانہ نہیں
بنایا بلکہ پیغام خدا " لکم دینکم ولی دین " کے ذریعے ہمیں اپنے عقیدے سے
سروکار رکھنے کا حکم دیا ۔ صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ جیسے معاہدے کرکے
پرامن بقائے باہمی کا زریں اصول دیا آج جس کے لئے عالمی برادری تگ ودو کر
رہی ہے ۔ آپ (ص) نے اہل طائف کے لئے بددعا نہیں کی بلکہ آپ (ص) تو کچرا
پھیکنے والی عورت کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ۔ آپ (ص) نے اپنی امت کو
بھی اخلاق آراستہ کرنے کی تلقین کی اور خود عمل کرکے زریں اصول دیئے لیکن
ہم آپ(ص) کی تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ یہ ہمارا ہی خاصہ ہے کہ جھوٹ
بولیں، چوری کریں ، رشوت لیں ، ناحق دوسروں کا مال کھائیں، احکام دین سے
بغاوت کریں المختصر خدا رسول (ص) کے منع کردہ ہر فعل کو انجام دینے کے بعد
بھی حب رسول (ص) کا نام لے کر سنگین جرائم کا ارتکاب کریں ۔ کیا دنیا کے 57
اسلامی ممالک میں سے صرف راسخ العقیدہ مسلمان پاکستان میں بستے ہیں؟ کیا ہم
دنیا کو اپنی انتہائی جہالت سے باور کرانا چاہتے ہیں یا اپنی اخلاقی گراوٹ
کا اس قسم کے واقعات کے ذریعے اظہار کرنا چاہتے ہیں ؟ یہ کہاں کا قانون ہے
کہ خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بن جائیں؟ اگر کوئی بدبخت توہین کی جرائت
کرتا ہے تو پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں ۔ اس ملک میں عدالتیں بھی
موجود ہیں، توہین رسالت کا قانون اور منصف بھی تو پھر کیوں قانون اپنے ہاتھ
میں لیں جبکہ اس کیس میں تو ملزم ہی بے قصور تھا ۔ خدا کے لئے اپنی جہالت
اور اخلاقی گراوٹ کو مزہب کے مقدس لبادے میں لپیٹ کر پیش مت کریں ۔ کاش ہم
محبت رسول (ص) کا دم بھرنے کیساتھ ساتھ آپکے (ص) کے اسوہ پر بھی عمل کرتے
تو یوں وحشیانہ اور ظالمانہ اقدامات سے دریغ کرتے ۔ اگر یہ سلسلہ یونہی
جاری رہا تو پھر ہم خود ہی اپنی ہلاکت کے ذمہ دار ہونگے ۔ بقول عارف
کاظمی:-
رحمت سید لولاک (ص) پہ کامل ایماں
امت سید لولاک (ص) سے ڈر لگتا ہے
|