پاکستان کے پاس بیش بہا قدرتی خزانے ہیں،
جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اپنی تمام پریشانیوں کو دور کر سکتا ہے۔
ان خزانوں میں سے ایک سندھ اور بلوچستان سے منسلک 814 کلو میٹر لمبی ساحلی
پٹی ہے، جو فش فارمنگ کے لحاظ سے قدرت کا بہترین تحفہ ہے اور سمندری خوراک
کے حوالے سے نہ صرف ملکی بلکہ برآمداتی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی بھرپور
صلاحیت کی حامل ہے۔ ماہی گیری کو اس وقت دنیا میں ایک اہم صنعت کا درجہ
حاصل ہے۔ دنیا میں 150 ملین افراد ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہیں اور ایک
غیر حتمی اندازے کے مطابق ایسے خاندان جن کا گزارہ اسی صنعت سے ہے کی
مجموعی تعداد 45 کروڑ ہے۔ پاکستان میں پائی جانے والی مچھلی اور سمندری غذا
کی بین الاقوامی مانگ کا اندازہ حال ہی میں پاکستان کے شہر کراچی کے ایکسپو
سینٹر میں ہونے والی نمائش سے لگایاجاسکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں ایک فیصد روزگار ماہی گیری اور افزائش آبی
حیات کی وجہ سے ہے، ملک میں چالیس لاکھ افراد ماہی گیری سے وابسطہ ہیں۔
پاکستان میں سمندری ماہی گیری سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ ٹن سے زائدمچھلی
پکڑی جاتی ہے جبکہ مچھلی سالانہ 12 ارب روپے کی مچھلی اور سمندری خوراک
مختلف ممالک جن میں امریکہ، جاپان، سری لنکا، سنگاپور، یورپی یونین اور
خلیجی ریاستیں ہیں کو بھیجی جاتی ہے۔ ملک میں 29فش پروسیسنگ یونٹ قائم ہیں
جن میں 10 ہزار ٹن مچھلی محفوظ کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے جی ٹی پی میں
ماہی گیری کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ پاکستان کے ساحلوں اور آبی ذخیروں میں
دنیا کے دیگر ساحلوں اور سمندروں کے مقابلے میں مچھلیوں اور جھینگوں کی
پیداوار دس گنا اور بحیرہ ہند کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ قومی ماہی
گیری کی قومی پالیسی کے مطابق پاکستان مچھلی اور جھینگے کی پیداوار میں
اٹھائس ویں نمبر پر اور مچھلی برآمد کرنے والے ممالک میں50 نمبر پر ہے۔
پاکستان بلوچستان،سندھ اور پنجاب میں فش فارمنگ پر توجہ دے کر غربت اور بے
روزگاری میں کمی، معیار زندگی بہتر، صحت اور تعلیم کی سہولتوں میں اضافہ کر
سکتے ہیں۔
بلوچستان میں فش فارمنگ کے اعتبار سے نصیر آباد، جعفر آباد، سبی، کھپی اور
بسیلہ کی ساحلی پٹی اہم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ماہی گیری کو
تربیت سمیت دیگر سہولتیں فراہم کرے، تو مچھلیوں اور جھینگوں کی برآمد اور
اس سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ میں کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔ پاکستان کی ایسی
زمین جو سیم و تھور زدہ ہے کو فش فورم کے طور پر استعمال کر کے نہ صرف بے
کار زمین کا استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی فراہم
کیا جاسکتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فش انڈسٹری ایک عشاریہ دو بلین ڈالر کی ہے۔
حال ہی میں حکومت نے مچھلی کی پیداوار میں بہتری کے لئے سندھ میں ٹھٹھہ اور
بدین میں فش فورمنگ اور شرنگ فورمنگ کے لیے20 ہزارایکڑ زمین مختص کی ہے، اب
اس زمین پرفش فورم کی تعمیر کے بعد مچھلی کی مزید پیداوار حاصل کی جا سکے
گی۔ اس کے علاوہ محکمہ ماہی پروری صوبہ پنجاب بچہ مچھلی کی پیداوار بڑھانے
کے لئے مچھیروں اور نرسریوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا جس پر نو کروڑ روپے خرچ
ہوں گے۔ اس منصوبے کے ذریعے بچی مچھلی کی پیداواری تعداد میں 31 لاکھ تک کا
اضافہ ہو گا۔
ملک میں ماہی گیری کی ترقی کیلئے قومی فشریز پالیسی کا اعلان ہو چکا ہے،
پالیسی کے تحت قومی معاشی ترقی، غربت کے خاتمے اور خوراک کی فراہمی میں
فشریز کے شعبے کی شرکت کو بڑھایا جائے گا۔ قومی فشریز پالیسی کے تحت ملک
بھر خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں سمندری اور میٹھے پانی سے مچھلی اور دیگر
سمندری خوراک کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے
اور مچھلی کی سٹوریج، مارکیٹنگ اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید خطوط پر
استوار کیا جانا تھا۔ مگر ابھی تک فشریز کے شعبے میں کوئی خاص بہتری کے
انتظامات دیکھنے میں نہیں آئے ہیں۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق جدید سہولیات کی
عدم دستیابی، صحت و صفائی کے بنیادی اصولوں سے لاعلمی کی وجہ سے پکڑی جانے
والی مچھلی اور سمندری خوراک کا صرف 20 فیصد انسانی استعمال کے قابل رہتا
ہے جبکہ 80 فیصد پولٹری فیڈ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان میں غذا
کے طور پر مچھلی کے استعمال کی شرح ایک عشاریہ آٹھ کلوگرام فی فرد سالانہ
ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔
نجی اور سرکاری شعبہ کی شراکت سے فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جس
میں ماہی گیر، تاجر، فارمر، ایکسپورٹر اور محقق شامل ہیں۔ یہ بورڈ ملک میں
مچھلی اور جھینگے کے فارم کے قیام کی حوصلہ افزائی اور ملک میں ماہی گیری
اور ماہی پروری کی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے کام کررہا ہے۔
ماہی گیروں کو آج کل جو مسائل درپیش ہیں ان میں گہرے سمندروں میں مچھلی کا
شکار، نقصان دہ جال، سمندری آلودگی، ماہی گیروں کی آبادیوں میں بنیادی
سہولیات کی کمی، سیکورٹی اہل کاروں کا ناروا سلوک، سمندری جزائر پر آبادی
کے طبی مسائل اور پینے کے پانی کی کمی، انڈس ڈیلٹا کی تباہی، ان لینڈ فشریز
کی پالیسی نہ ہونا اور انڈیا میں قیدی ماہی گیروں کے مسائل شامل ہیں۔
دنیا کے سمندری وسائل اور ماہی گیری کے حوالے سے کہیں بھی ٹھیکے داری کا
نظام رائج نہیں، لیکن پاکستان کے دریاؤں اور جھیلوں پر ٹھیکے داری نظام
انتہائی ظالمانہ طریقے سے مسلط ہے۔ سندھ کی 1209 جھیلوں اور دریائے سندھ کے
کنارے ماہی گیری سے جڑے خاندان اب بھی آزادانہ طریقے سے روزگار حاصل کرنے
کے بجائے مقامی ٹھیکے داروں اور وڈیروں کے غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں۔ ان کو مارکیٹ میں اپنی مرضی کی قیمت پر مچھلی فروخت کرنے دی
جاتی ہے اور نہ وہ یہ مچھلی اپنے بچوں کے لیے گھر لے جا سکتے ہیں۔ حکومت کو
ماہی گیروں کے حقوق اور ان کی خوشحالی کے لئے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت
ہے۔ |