تَحقیقِ اٰیات اور تاریخِ روایات !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 60 تا 62 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لئن
لم ینته
المنٰمفقون و
الذین فی قلوبھم
مرض والمرجفون فی
المدینة لنغرینک بہم ثم لا
یجاورنک فیہا الّا قلیلا 60
ملعونین اینما ثقفوا اخذوا
وقتلوا تقتیلا 61 سنة اللہ فی
الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنة
اللہ تبدیلا 62
اے ھمارے نبی ! اگر یہ دل کے مریض اور مَن کے منافق لوگ اَحزاب کی شکست کے بعد بھی اِس قُرآنی ریاست میں اپنی سازشوں اور افواہوں کا عمل جاری رکھیں گے تو دُھتکارے پِھٹکارے جائیں گے اور حق کی جو قُوت ھم نے آپ کو دی ھے حق کی اُسی قُوت سے ھم اِن کو آپ سے دُور کردیں گے اور یہاں سے دُور جانے کے بعد یہ جہاں جائیں گے وہاں پکڑے اور مارے جائیں گے یہاں تک کہ زمین کے یہ سرکش بھی زمین کے پہلے سرکشوں کی طرح اللہ کی گرفت میں آئیں گے اور اِن کی یہ منافق جمعیتیں پارہ پارہ ہو جائیں گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَةُالاَحزاب کی اٰیاتِ بالا کا اٰیاتِ ماقبل کے ساتھ اور اٰیاتِ ماقبل کا اٰیاتِ بالا کے ساتھ جو واقعاتی رَبط ھے اُس واقعاتی رَبط سے اندازہ ہوتا ھے کہ جنگِ اَحزابِ سے قبل و بعد اور جنگِ اَحزاب کے دوران مدینے میں قائم ہونے والی قُرآنی حکومت کے خلاف منافقین کی جو مُنظم جماعت ایک مُنظم بُنیاد پر اپنی سازشوں اور افواہوں کا ایک ایسا جنگی محاذ قائم کرچکی تھی جو جنگی محاذ خاتمہِ جنگ کے بعد بھی قُرآن اور مدینے کی قُرآنی حکومت کے خلاف اپنے اُس دروغ کو فروغ دینے میں مصروف تھا جو دروغ حدیثِ نبوی کے نام پر پہلی صدی ہجری کے آخر تک ایک طاقت ور حریف بن کر قُرآنِ کریم کے مقابلے میں آچکا تھا اور قُرآن کی اِس حریف جماعت کو اسی جماعت کی پہلی تربیت یافتہ نسل نے اپنی ایک نسل سے اپنی دُوسری نسل تک پُہنچایا تھا لیکن اٰیاتِ بالا کے اِس تاریخی و تحقیقی پس منظر کو حقیقی طور پر سمجھنے کے لیۓ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیۓ کہ عملی جنگ کی پہلی صورت تو وہی ھے کہ جس کو ہر انسان جانتا ھے کہ جنگ میں جو انسان آپ کی صف میں کھڑا ہوتا ھے وہ آپ کا دوست ہوتا ھے اور جو انسان آپ کی مخالف صف میں کھڑا ہوتا ھے وہ آپ کا دشمن ہوتا ھے اور جب اِن دوست و دشمن لشکروں کے درمیان دست بدست جنگ شروع ہوتی ھے تو ہر لشکر کا ہر لشکری دشمن کے جنگ جُو اَفراد کو ہر طرف اور ہر طرح سے گھیرتا مارتا اور گرفتار کرتا ھے ، جنگ کی دُوسری صورت یہ ہوتی ھے کہ دشمن فوج اُس وقت آپ پر حملہ کر کے آپ کو کوئی نقصان پہنچاتی ھے جب آپ اُس کے ساتھ جنگ بندی کے کسی معاھدے پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور وہ جنگ بندی کے معاھدے کو فراموش کرکے آپ کی بیخبری میں آپ پر اَچانک ہی چڑھائی کر دیتی ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس صورتِ حال کے لیۓ سُورَہِ توبہ کی اٰیت 5 میں اپنا جو قانُونِ جنگ بیان کیا ھے اُس قانُون میں جنگ بندی کا معاھدہ ختم ہونے کے بعد آپ کو جوابی جنگ کی جو اجازت دی گئی ھے اُس اجازت میں آپ کو اَمر حاضر کے صیغوں اقتلوا و احصروا اور اقعدوا کے اَقدامی اَحکام کے ساتھ اُن سے نبرد آزما ہونے کی اجازت دی گئی ھے اور جنگ کی تیسری صورت جنگ کے ادھورے نتائج کو پورے نتائج کا حامل بنانے کے لیۓ خاتمہِ جنگ کے بعد دشمن پر ایک اور کاری ضرب لگانے کے لیۓ دشمن کا تعاقب کیا جاتا ھے لیکن اٰیاتِ بالا کے مفہوم میں اِس قسم کی کوئی جنگ مُراد نہیں ھے جس قسم کی مُمکنہ جنگ کا ھم نے ذکر کیا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد جو جنگِ اَحزاب میں جنگ کی اِن تینوں صورتوں کے واقع ہونے کے بعد نازل ہوا ھے وہ ثقفوا ، اخذوا اور قتلوا کے اُن صیغوں کے ساتھ نازل ہوا ھے جو اَمر کے اَقدامی صیغے نہیں ہیں بلکہ وہ ماضی مجہول کے وہ اطلاعی صیغے ہیں جو اُن لوگوں کے مُستقبل و اَنجامِ مُستقبل کے لیۓ لآۓ گۓ ہیں جو اپنی آزادانہ مرضی سے ریاست بدر ہوۓ تھے اور قُرآن کے خلاف اپنے دشمنانہ عزائم کی تکمیل کے لیۓ ریاست بدر ہوۓ تھے اور اللہ تعالٰی نے اپنے اِس ارشاد میں اُن لوگوں کے اُن مقاصد و مکائد کے بارے میں بھی یہ اطلاع دے دی ھے کہ آنے والے زمانے میں وہ اہلِ ایمان کے ساتھ کیا کُچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسی ارشاد میں یہ خوشخبری بھی سنا دی ھے کہ اِس کذاب جماعت کے یہ اَفراد اہلِ علم کے علمِ حق سے پکڑے بھی جاتے رہیں گے ، اہلِ علم کی علمی گرفت میں بھی آتے رہیں گے اور اہلِ علم کے علم سے مارے بھی جاتے رہیں گے کیونکہ اَنجام کے حوالے سے صرف حق و اہلِ حق کا اَنجام ہی بقا پانا ھے ، باطل و اہلِ باطل کا اَنجام صرف فنا ہوجانا ھے ، اہلِ روایت کی روایات کے مطابق جنگِ اَحزاب ذیقعد 5 ہجری میں ہوئی ھے ، مکہ 8 ہجری میں فتح ہوا ھے اور وصالِ نبوی کی تاریخ 11 ہجری بتائی جاتی ھے اور وصالِ نبوی کے بعد رُوۓ زمین پر آپ کے آخری موجُود صحابی ابو الطفیل 102 ہجری میں فوت ہوۓ ہیں ، امام بخاری متوفٰی 256 ہجری نبی علیہ السلام کے اِس آخری صحابی کے 154 سال بعد دُنیا میں آۓ ہیں ، امام مسلم متوفٰی 261 ہجری 159 سال بعد دُنیا میں وارد ہوے ہیں ، امام ابو داؤد متوفٰی 273 ہجری 171 سال بعد دُنیا ظاہر ہوۓ ہیں ، امام ابن ماجہ متوفٰی 275 ہجری 173 سال بعد اور امام نسائی متوفٰی 303 ہجری 201 سال بعد دُنیا میں تشریف لاۓ ہیں ، اِن میں سے کسی امامِ حدیث نے کسی صحابیِ رسُول سے تو کوئی فیض حاصل نہیں کیا ھے لیکن یہ دعوٰی سب نے کیا ھے کہ جن تابعین سے اِنہوں نے کسبِ فیض کیا ھے اُن تابعین نے بصرے میں موجُود 50 اَصحابِ نبی ، کوفے میں موجُود 50 اَصحابِ نبی اور شام میں موجُود 50 اَصحاب نبی سے علمِ حدیث حاصل کیا ھے ، نبی علیہ السلام اور آپ کے آخری صحابی ابو الطفیل کے وصال کے درمیان91 سال کا جو عرصہ گزرا ھے اِس پورے عرصے کے دوران دین کا مرکز مکہ اور مدینہ ہی رہا ھے اور اِس پُورے عرصے کے دوران حدیث کا ہر ایک محدث علمِ حدیث کے حصول کے لیۓ عراق و شام ، ترمذ و تبریز ، طوس و ترکمان ، حلب و مروز ، در بند و فسطاط ، جرجان و اصفہان ، شیبان و عسقلان ، بخارا و خراسان ، داغستان و صنعان اور برقہ و بہیق اور طوس و ترکمان تو جاتا تو ہر ایک مؤرخ کو نظر آتا ھے لیکن کوئی محدث مکے اور مدینے کی طرف جاتا ہوا کسی مؤرخ کو نظر نہیں آتا ھے اِس لیۓ کہ 5 ہجری کے بعد جو افواہ ساز قبیلے مدینے سے نکلے تھے وہ اِن ہی علاقوں میں جاکر آباد ہوۓ تھے اور وہ دینِ اسلام کو برباد کرنے کے لیۓ اِن ہی علاقوں میں بیٹھ کر وضعِ حدیث و جمعِ حدیث کا کام کر رھے تھے ، ھم یہ اَمر بھی واضح کرتے چلیں کہ اَصحابِ محمد علیہ السلام کی پہلی جماعت مکے میں پیدا ہوئی تھی ، مکے میں پروان چڑھی تھی اور مکے میں ہی اُس کی تربیت ہوئی تھی ، دُوسری جماعت مدینے میں پروان چڑھی تھی اور مدینے میں ہی اُس کی تربیت ہوئی تھی ، فتحِ مکہ سے قبل مُتعدد اَصحابِ نبی ہجرت کر کے مدینے میں آباد ہوۓ تھے اور فتحِ مکہ کے بعد اہلِ مدینہ بھی مکے میں آنے جانے لگے تھے جس سے یہ دونوں شہر اَصحابِ نبی کے شہر بن گۓ تھے ، اَصحابِ نبی اِن دونوں شہروں کو جنت کی طرح عزیز رکھتے تھے اور اِن شہروں کو ترک کرنا یا اُن سے دُور ہونا اُن کے لیۓ جنت ترک کرنے کے مترادف تھا اِس لیۓ ھم پورے یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اَصحابِ نبی کبھی بھی مکے اور مدینے کی اُن پاکیزہ ہواؤں اور فضاؤں کو چھوڑ کر کہی اور جانے اور رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے سواۓ اِس کے کہ اِن شہروں میں کوئی زلزلہ آجاتا جو اِن شہروں کی زندگیوں کو نگل جاتا یا کوئی سیلاب آجاتاجو اِن سب کو بہا کر لے جاتا یا پھر کوئی ایسی وبا آجاتی جو اُن شہروں کو نگل جاتی لیکن ایسا کُچھ بھی نہیں ہوا ھے اِس لیۓ مکے اور مدینے کو چھوڑ کر 50 اَصحابِ نبی کا شام میں ، 50 کا کوفے میں اور 50 کا بصرے میں سکونت اختیار کرنا ایک سفید جھوٹ ھے اور اِس سفید جھوٹ میں مزید جھوٹ یہ ھے کہ اَصحابِ رجال جو محدثین کے مارکیٹ ایجنٹ تھے اُنہوں نے جن اَصحابِ نبی کا ایک مقام پر موجُود ہونا ظاہر کیا ھے اُن ہی اَصحاب کا دُوسرے مقام پر موجُود ہونا ظاہر کیا ھے اور مزید ستم یہ کیا ھے کہ وہ جن اَصحابِ رسُول سے متنِ حدیث نقل کرنے کا دعوٰی اُِن ہی اَصحابِ رسُول میں اُنہوں نے 181 ایسے اَصحابِ رسُول شامل کیۓ ہیں جن کا نبی علیہ السلام کے ساتھ ملنا ثابت نہیں ھے اور یا اُن کے ساتھ اُن کے رواةِ حدیث کا ملنا ثابت نہیں ھے ، بہرکیف زمین میں حدیث کا پہلا بیج بونے والے وہی منافقین مدینہ تھے جو مدینے سے بھاگ کر اِن علاقوں میں آباد ہوۓ تھے اور اِن کی نسلوں نے اِن علاقوں میں رہتے ہوۓ اپنی آبائی تربیت کے مطابق اللہ تعالٰی کی سچی اٰیات کے مقابلے میں جھوٹی روایات کی وہ نرسری لگائی تھی جس کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 562290 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More