عورت اور پردَہِ عورت }}}} { 3 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 59 {{{{ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
یٰایھاالنبی
قل لازواجک و بنٰتک
ونساء المؤمنین یدنین
علیھم من جلابیبھن ذٰلک ادنٰی
ان یعرفن فلا یؤذین وکان اللہ غفورا
رحیما 59
اے ھمارے نبی ! آپ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں سمیت تمام اہلِ ایمان مردوں کی تمام اہلِ ایمان عورتوں کے لیۓ یہ فرمان جاری کردیں کہ جب وہ اپنے گھروں سے باہر ہوں تو اُن کے لیۓ مناسب ترین عمل یہی ھے کہ وہ اپنی جسم پوشی کے لیۓ اپنے جسموں پر اپنی چھوٹی چادریں ڈال لیا کریں تاکہ اُن کا یہ عمل اُن کی مومنانہ شان کی پہلی اور آخری پہچان بن جاۓ اور کبھی بھی کوئی انسان کسی مسلمان عورت کو ستانے کی جرات نہ کرسے ، اللہ نے یہ حُکم اِس لیۓ دیا ھے کہ اُس کی ذات ایک خطاپوش و رحم پرور ذات ھے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
قُرآنِ کریم میں اللہ تعالٰی کی توحید چونکہ مقصدِ ایمان اور اُس کے رسُول علیہ السلام کی رسالت ایک وسیلہِ ایمان کے طور پر ایک دُوسرے کے ساتھ مربوط عن الربط ہو کر وارد ہوئی ھے اِس لیۓ اہلِ روایت کے روایت کاروں نے اپنے جو زہریلے تیر و نشتر اللہ تعالٰی کی توحید کے خلاف چلاۓ ہیں وہی تیر و نشتر اُنہوں نے اللہ تعالٰی کے رسُول علیہ السلام کی رسالت کے خلاف آزماۓ ہیں اور وہی زہریلے تیر و نشتر اُنہوں نے اَصحابِ محمد علیہ السلام پر بھی برساۓ ہیں ، قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی اٰیت 53 میں نازل ہونے والے حُکمِ حجاب علی الباب اور اِس سُورت کی اٰیت 59 میں نازل ہونے والے حُکمِ جلباب علی الجیوب کے بعد اِن دونوں اَحکام کی آڑ میں اِن اہلِ روایت نے جن اَصحابِ رسُول و اَحبابِ رسُول کو نشانہِ طعن و ستم بنایا ھے اُن میں سیدہ عائشہ صدیقہ کی ذاتِ گرامی سرے فہرست رہی ھے اور اُن کے خلاف اُنہوں نے اپنی بیہودہ روایات میں جو بد زبانی و بد کلامی کی ھے اُس کی چند مثالیں جو ھم نے امام ابنِ ماجہ کی سننِ ابن ماجہ و امام ابو داؤد کی سنن ابو داؤد اور امام نسائی کی سننِ نسائی کے حوالوں سے اِس سے قبل نقل کی ہیں اُن ہی واہیات روایاتِ حدیث میں سے ایک اور روایت امام بخاری کی کتاب الشہادات کی وہ روایتِ حدیث 2647 ھے جس روایتِ حدیث میں مسروق کے حوالے سے یہ کہا گیا ھے کہ { ان عائشة قالت : دخل علی النبی علیّ وعندی رجل فقال : یاعائشة من ھٰذا ، قلت : اخی من الرضاعة ، قال یاعائشة انظرن من اخوانکن فانما الرضاعة من المجاعة تابعه ابن مھدی عن سفیان } یعنی سیدہ عائشہ نے بیان کیا ھے کہ ایک بار جب نبی علیہ السلام تشریف میرے پاس تشریف لاۓ تو آپ نے ایک مرد کو میرے پاس موجُود دیکھ کر پُوچھا کہ یہ آدمی کون ھے ، میں نے کہا کہ یہ تو میرا "شیر شریک" بھائی ھے ، اِس پر نبی علیہ السلام نے فرمایا اے عائشہ ! تُم دیکھ لو کہ کون کون تُمہارا بھائی ھے کیونکہ رضاعت وہی معتبر ہوتی ھے جو کم سنی کی رضاعت ہوتی ھے ، اِس حدیث کو محمد بن کثیر کے علاوہ عبد الرحمان بن مھدی نے بھی سفیان ثوری کے حوالے سے اسی طرح بیان کیا ھے ، اِس روایتِ حدیث کا یہ مفہوم کوئی ڈھکا چُھپا ہوا مفہوم نہیں ھے کہ نبی علیہ السلام نے اپنی بیوی سیدہ عائشہ کو صدیقہ کو یہ اَمرِ واقعی یاد دلایا ھے کہ جس عورت کا جو دودھ صغر سنی میں ایک صغر سِن پیتا ھے تو صغر سنی کے اُسی دودھ سے اُس کی رضاعت ثابت ہوتی ھے اور جس عورت کا جو دودھ ایک بڑی عمر کا آدمی اپنی بڑی عمر میں پیتا ھے تو اُس سے اُس کی رضاعت ثابت نہیں ہوتی ، امام بخاری کی اِس روایتِ حدیث اور اِس سے قبل درج کی گئی دُوسرے اماموں کی دُوسری روایاتِ احادیث میں ان اماموں نے سیدہ عائشہ کی ذات و زبان کے ساتھ جو الفاظ منسوب کیۓ ہیں اُن الفاظ کے مطابق سیدہ عائشہ کے پاس اجنبی مرد کے موجُود ہونے اور اُس کی موجُودگی میں نبی علیہ السلام کے تشریف لانے کا اور اپنی بیوی سے سوال و جواب کرنے کا یہ ایک واقعہ صرف ایک بار ہی پیش نہیں آیا ھے بلکہ کئی ایک بار پیش آیا ھے اور اسی لیۓ ایسے ہر موقعے پر ہر بار نبی علیہ السلام نے یہی ایک جُملہ ارشاد فرمایا ھے کہ اے عائشہ ! تُم دیکھ تو لو کہ کون کون تُمہارا بھائی ھے لیکن وہ اَصل بات جس کی طرف ھم توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ھے کہ اہلِ روایت کی اِن شرمناک روایات میں کیۓ گۓ یہ شرمناک حملے کُچھ ازواجِ رسُول اور اَصحابِ رسُول تک ہی محدُود نہیں تھے بلکہ رسُولِ اکرم کی ذاتِ گرامی بھی بار بار اُن کے اِن شرمناک حملوں کی زَد میں لائی گئی تھی اور اِن شرمناک روایات کو یہ سارے ہی چھوٹے بڑے امام بلا تردد ہی اپنی کتابوں میں جمع کرتے چلے جاتے تھے اِس لیۓ اِن کی اِن خرافاتی کتابوں کی یہ خرافاتی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ اِس مُختصر مضمون میں اُن کا نقل کرنا مُمکن نہیں ھے لیکن امام بخاری نے اپنی کتابِ بخاری کی کتاب الہبہ میں لائی گئی اُس کم الفاظ اور زیادہ مفہوم کی حامل حدیث 2574 کا نقل کرنا شاید زیادہ طوالتِ کلامی کا باعث نہیں ہو گا جس میں امام بخاری کے راوی ہشام نے اپنے باپ سے نقل کی گئی اپنی اِس خانہ ساز روایت میں یہ انکشاف کیا ھے کہ { عن عائشة ان الناس کانوا یتحرون بھدایاھم یوم عائشة یبتغون بھا او یبتغون بذٰلک مرضاة رسول اللہ } یعنی سیدہ عائشہ نے بذاتِ خود اُس کے باپ کو بتایا ھے کہ نبی علیہ السلام کے لیۓ تحائف لانے والے جو لوگ اُن کے لیۓ اپنے تحائف لانا چاہتے تھے تو وہ سب لوگ اپنے وہ تحائف لانے کے لیۓ اُس دن کا انتظار کیا کرتے تھے جس دن نبی علیہ السلام کی میرے گھر آنے کی باری ہوتی تھی اور اُس روز یہ تحائف لانے سے اُن کی غرض یہ ہوتی تھی کہ نبی علیہ السلام اُن سے خوش ہوجائیں ، اہلِ راویت کے اِن روایوں کا یہ حملہ نبی علیہ السلام و اَزواجِ نبی علیہ السلام اور اَصحابِ نبی علیہ السلام پر ایک مُشترکہ حملہ ھے ، سوال یہ ھے کہ ایک مُہذب انسان اِس بات سے کیسے خوش ہو سکتا ھے کہ لوگ اُس کے لیۓ اُس کی بیوی کی وجہ سے تحائف لائیں اور نبی علیہ السلام کی عظیم ہستی بَھلا اِس بات سے کیسے خوش ہو سکتی تھی کہ لوگ اُن کی بیوی کی وجہ سے اُن کے لیۓ اپنے تحائف لاتے ہیں کیونکہ اِس کا تو سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ لوگ آپ کے لیۓ یہ تحائف نہیں لاتے تھے بلکہ آپ کی بیوی کے لیۓ یہ تحائف لاتے تھے تاہم یہ ایک الگ بات ھے کہ وہ یہ تحائف آپ کی غیر موجُودگی میں نہیں لاتے تھے بلکہ آپ کی موجُودگی میں ہی لاتے تھے ، اِس معاملے کا قابلِ ذکر پہلو یہ ھے کہ ھم نے امام بخاری کی کتابِ بخاری کی جو حدیث نقل کی ھے وہ اُس حدیث کا نفسِ مضمون نہیں ھے بلکہ اُس مضمون کے نفسِ مضمون کی وہ شہ سُرخی ھے جس شہ سُر خی کے تحت امام بخاری وہ مُتعدد احادیث لاۓ ہیں جن احادیث میں اِن تحائف کے تذکرے ، ازواجِ مطہرات کے احتجاجی مکالمے ، اُن کے درمیان پیدا ہونے والے رنجشوں کے قصے اور سیدہ عائشہ کے خلاف اُن اَزواجِ مطہرات کی جماعت بندی اور اُن کے مابین جنگ بندی کرانے کے لیۓ سیدہ فاطمہ بنت محمد کی سفارت کاری کے واقعات بھی شامل ہیں ، مزید یہ کہ امام بخاری نے اِس عنوانِ حدیث اور اِس عنوانِ حدیث کے تحت لائی گئی کسی ایک حدیث شریف میں بھی سیدہ عائشہ کے گھر تحائف لانے والے اُن اَصحاب کے لیۓ اصحاب النبی کا وہ لفظ استعمال نہیں کیا ھے جو ہر مسلمان عادتا استعمال کرتا ھے بلکہ اُنہوں نے ہر جگہ پر"الناس" کا لفظ استعمال کیا ھے تاکہ اِن روایات کا پڑھنے والا نبی علیہ السلام کے گھر پر تحائف لانے والے اِن لوگوں کو اصحاب النبی نہ سمجھے بلکہ اَصحاب النبی سے کوئی الگ طرح کے لوگ سمجھے ، سیدنا محمد علیہ السلام و اَصحابِ سیدنا محمد علیہ السلام کے بارے میں اہلِ روایت کی اِس باطل بیانی کے بعد مناسب ہو گا کہ محمد علیہ السلام اور اَصحابِ محمد علیہ السلام کے بارے میں سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 52 میں اللہ تعالٰی کی بیان کی ہوئی یہ حقیقت بیانی بھی ضرور پڑھ لی جاۓ کہ { ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدٰوة والعشی یریدون وجھه ماعلیک من حسابھم من شئی و مان من حسابک علیھم من شئی فتطردھم فتکون من الظٰلمین } یعنی آپ نے اپنے اِن اَصحاب و اَحباب کو کبھی بھی خود سے جُدا نہیں کرنا کہ جن کے لیل و نہار اپنے پالنہار کی یاد و فریاد میں بسر ہوتے ہیں اور جو اپنے اسی عجزِ حال میں رہتے ہوۓ اپنے رب کے رُوبرُو جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ، آپ اپنے اِن اَصحاب کی ھدایت کے سارے حق ادا کر چکے ہیں تو آپ کے یہ اَصحاب بھی آپ کی اطاعت کے سارے کے سارے حق ادا کر چکے ہیں اور اِس سادہ سے حساب کی رُو سے آپ کا اور آپ کے اِن اَصحاب کا یہ دو طرفہ حساب ترازو کے تول کی طرح برابر ہو چکا ھے ، اگر آپ اِس حقِ برابری کے بعد اِن کو کبھی خود جُدا کردیں گے تو یہ آپ کی طرف سے اِن کے ساتھ ہونے والی ایک صریح نا انصافی ہو گی !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 562307 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More