*قائدِ اعظم کا تصورِ قومی زبان*
ازقلم : عصمت اسامہ۔
بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح،اہل بصیرت رہنما تھے ،جو تاریخ رقم
کردیں ،بہت کم رہنما انسانی تاریخ میں ایسے گزرے ہیں!۔
ان کی سوچ ،وسعت کے لحاظ سے پوری ملت کی فلاح اور اتحاد بین المسلمین کی
سوچ تھی ۔جس طرح قائد اعظم کا تصورِ پاکستان بالکل واضح تھا کہ مسلمانانِ
برصغیر کو ایک الگ ریاست کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنی تاریخ،تہذیب ،اقدارو
روایات اور اسلام کی سنہری تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں وہاں
وہ "اردو" کو پاکستان کی واحد قومی زبان کا مقام دینا چاہتے تھے تاکہ
پاکستانی قوم میں باہمی اتحاد و یکجہتی پیدا ہوسکے ،وہ اسلاف کے علمی و
تہذیبی ورثہ،شائستگی اوراخلاقیات کو سمجھنے کے قابل ہو اور انگریزی دان
طبقہ ان پر حکمران نہ بنے !
~ بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا !
سچ ہے کہ ہر زبان اپنی تہذیب،مذہب ،تاریخ اور اقدار کی امین ہوتی
ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نے اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان کیوں قرار
دیا جب کہ وہ خود اعلیٰ تعلیم انگریزی زبان میں حاصل کر چکے تھے ،اس دلیل
کو سمجھنے کے لئے وہ تاریخی پسِ منظر سمجھنا بہت ضروری ہے جس میں مسلمانانِ
برصغیر، قیام پاکستان کی خاطر جدوجہد کرنے میں مصروف تھے ۔اس دور میں نہ
صرف ہندوؤں بلکہ انگریزوں نے بھی نہ صرف اردو کو رائج نہ ہونے دیا بلکہ
تعلیم اور کاروبار میں ہندی اور انگریزی کو رواج دیا۔یہ دونوں غیر مسلم
اقوام 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سے ہی اردو دشمنی میں یکجا تھیں ۔چونکہ
اردو کا رسم الخط عربی اور فارسی سے ملتا جلتا ہے ،اس لئے برصغیر پر
مسلمانوں کے شاندار دور_حکمرانی کی یاد سے یہ قومیں چڑتی تھیں،اسی تناظر
میں 1868ء میں اردو ہندی تنازع پر فسادات بھی ہوۓ۔پھر ہندو رہنما جواہر لعل
نہرو نے نہرو رپورٹ میں بھی ہندوستان میں ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ
دینے کا مطالبہ کیا۔بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ تحریک قیام پاکستان کے
محرکات میں سے ایک بنیادی محرک "اردو زبان" بھی تھی اور اس تاریخی سچائ کو
قائد اعظم بخوبی جانتے تھے۔اس زمانے کے قلم کار صحافیوں اور ادیبوں نے اردو
تحریروں سے امت کی فکری آبیاری کی ۔اپریل 1900ء میں یوپی کے گورنر انٹونی
میکڈونلڈ نے ایک قرارداد منظور کرکے ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط کو
رائج کرنے کی منظوری دی۔اس وقت نواب محسن الملک نے مسلمانوں کی نمائندہ
زبان اردو کے تحفظ کی خاطر "اردو ڈیفینس کونسل " قائم کی اور پھر مسلمانوں
کی اول سیاسی جماعت " محمڈن پولیٹیکل آرگنائزیشن" قائم ہوئی۔ اس کی جدوجہد
کے نتیجہ میں 1906ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا یعنی تحریکِ
پاکستان کا مقدمہ لڑنے میں اردو زبان کا کردار ممتاز ہے۔
1940ء میں ،قرارداد پاکستان منظور ہونے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے
اعلانیہ فرمایا تھا:
" پاکستان کی قومی زبان "اردو" ہوگی کیونکہ اردو ہی برصغیر کی واحد زبان ہے
جس میں نہ صرف مذہب و ثقافت اور ادب کے حوالے سے مسلمانانِ برصغیر کا عظیم
علمی سرمایہ موجود ہے بلکہ یہ (باہم) رابطہ کی زبان بھی ہے،اس لئے ضروری
ہوگا کہ اسے پاکستان کی قومی زبان کی اہمیت دی جاۓ"_
1941ء میں کل پنجاب اردو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
" اردو ہماری قومی زبان ہے ،ہمیں اس کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ،آلودگیوں
سے پاک اور مخالفین کے جارحانہ اور معاندانہ عزائم سے بچاۓ رکھنے کے لئے
اپنی پوری توانائی اور زور لگادینا چاہیے"_
قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عناصر اردو کی بجائے "بنگالی" زبان رائج کرنا
چاہتے تھے۔ قائد اعظم نے ڈھاکہ میں 21 مارچ 1948ء کو تقریر کرتے ہوئے
فرمایا:
" میں آپ کو واضح طور پر بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو
ہوگی اور صرف اردو۔ اردو کے سوا کوئ اور زبان نہیں ہوگی ،جو شخص آپ کو غلط
راہ پر ڈالنے کی کوشش کرے وہ پاکستان کا پکا دشمن ہے۔دیگر اقوام کی تاریخ
اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئ قوم متحد نہیں
ہوسکتی اور نہ کوئ کام کرسکتی ہے !"
نیز فرمایا :
" اقوام عالم کی کسی بھی حکومت کی تاریخ میں آپ کو ایک ہی قومی زبان ملے
گی،اس لئے آج سے پاکستان کی قومی زبان کا سوال طے سمجھئیے اور وہ یہ کہ
ہماری قومی زبان اردو ہے "_(ڈھاکہ مارچ 1948ء)
24 مارچ 1948ء میں فرمایا :
"اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہوکر ترقی کی شاہراہ پر گامزن
ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہوسکتی ہے اور میری ذاتی رائے میں
اردو اور صرف اردو ہے !"_
قیامِ پاکستان کے بعد ،پاکستان کی قومی اسمبلی نے قائد کے فرمان کے
مطابق،فروری 1948ء میں یہ قانون پاس کرلیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان
اردو ہوگی۔یہی اعلان 1973ء کے آئین کا حصہ بنا اور آئین کی دفعہ 251 میں
بھی موجود ہے۔
فی زمانہ ،ماہرین تعلیم کی رائے کے مطابق ،طلباء اپنی زبان میں جتنا بہتر
سیکھ سکتے ہیں ،کسی غیر زبان میں ویسا نہیں سیکھ سکتے۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ اردو کو قائد کے احکامات کے مطابق تعلیمی اداروں ،سرکاری دفاتر اور سول
سروس کے امتحانات میں بھی قومی زبان کا درجہ دیا جاۓ۔ انگریزی زبان کی
مرعوبیت اور غلامی کے اثرات کو دور کیا جائے تاکہ ہماری نوجوان نسل اپنے
علمی ورثے ،تاریخ وتہذیب کو سمجھنے کے قابل ہوسکے اور اپنی قومی زبان کو
فخر سے اپنا سکے۔آخر کوئ والدین کی محنت کے بارے میں سوچے کہ ساری زندگی
اولاد کو انگریزی جیسی غیر ملکی زبان کی مہارت سکھانے ، بھاری ٹیوشن فیسیں
بھرنے اور پھر تلفظ سکھانے میں وہ کتنے ہلکان ہوتے ہیں ! ۔ دنیا کے کئ ترقی
یافتہ ممالک مثلاً چین ،فرانس،روس اور جاپان نے اپنی قومی زبان کو اپنا کے
ہی ترقی کی ہے ۔ہمیں بھی اپنی زبان کو اجتماعی طور پر یوں ہی اپنانا
چاہئے۔اسے علمی تحقیق کے لئے کمپیوٹر سافٹ ویرز اور ایپس کے ذریعے طلباء و
طالبات تک پہنچا کے سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بھی بنانا چاہئے۔ "تحریک
نفاذ_اردو پاکستان" کی مسلسل جدوجہد کا خوش آئند نتیجہ ہے کہ حال ہی میں
سپریم کورٹ نے قومی زبان کے طور پر اردو کو رائج کرنے کا فیصلہ دیا ہے ۔اس
فیصلے پر عمل درآمد ہنوز باقی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ لفظ اردو " ترکی
" زبان سے لیا گیا ہے اور اس کا مطلب " لشکر" ہے ۔ جب کوئ قوم اپنی زبان
بھول جاتی ہے تو پھر کوئ لشکر بھی اس کی حفاظت نہیں کرسکتا اور وہ اپنی
تاریخ،اپنی جڑوں سے کٹ کے رہ جاتی ہے, ماضی کے انقلاب ترکی کی تاریخ کھلی
کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے۔ کسی دانش ور کا قول ہے کہ:"جس قوم کے وجود کو
ختم کرنا ہو تو پہلے اس کی زبان کو ختم کردو"-
قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کی خاطر ہندوؤں اور
انگریزوں سے لڑ کے مسلمانوں کے الگ تشخص کی حفاظت کے لئے یہ وطن حاصل کیا
تھا !
~ تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی کوچے کی فضا تیرے بعد
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی
ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد !
|